فرحان محمد خان
محفلین
پنجہِ زَغ تیز تر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
جھڑ گئے چڑیوں کے پر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
شور مٹی ، زہر پانی ، اور کچھ لُو کے تھپیڑے
جل گئے کتنے شجر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
توڑ پھینکے پھول بندھن خود پرستی کی ہوا نے
ٹوٹتے جاتے ہیں گھر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
دن تو اپنا ایسے تیسے بیت ہی جاتا ہے لیکن
رات کو لگتا ہے ڈر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
عقل والوں نے غلامی کی نئی دستاریں پہنیں
ہم بچا لے جائیں سر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
خونِ تازہ بن کے دوڑوں گا بہاروں کی رگوں میں
خاک بھی ہو جاؤں گر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
یہ ثمود و عاد کی بستی ہے ، یاں رکنا نہیں ہے
دوڑ کر آسی گزر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
جھڑ گئے چڑیوں کے پر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
شور مٹی ، زہر پانی ، اور کچھ لُو کے تھپیڑے
جل گئے کتنے شجر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
توڑ پھینکے پھول بندھن خود پرستی کی ہوا نے
ٹوٹتے جاتے ہیں گھر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
دن تو اپنا ایسے تیسے بیت ہی جاتا ہے لیکن
رات کو لگتا ہے ڈر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
عقل والوں نے غلامی کی نئی دستاریں پہنیں
ہم بچا لے جائیں سر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
خونِ تازہ بن کے دوڑوں گا بہاروں کی رگوں میں
خاک بھی ہو جاؤں گر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
یہ ثمود و عاد کی بستی ہے ، یاں رکنا نہیں ہے
دوڑ کر آسی گزر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
محمد یعقوب آسی
20 اکتوبر 1985