پنجاب بک بورڈ کی کتاب میں عقیدہ ختم نبوت کے الفاظ حذف کرنے پر مقدمہ درج

فرقان احمد

محفلین
بحث کے دوران ایک نکتہ ہم فراموش کر جاتے ہیں کہ تکنیکی طور پر قادیانیوں کو 1974ء میں غیر مسلم قرار دیا گیا۔ 1947ء میں انہیں بہرصورت غیر مسلم شمار نہیں کیا جاتا تھا، گو کہ وہ اپنے عقائد کے اعتبار سے غیر مسلم ہی تھے۔ مزید یہ کہ، جناح کی حد تک یہ بات مسلمہ ہے کہ وہ اعلیٰ عہدوں پر تقرری کے وقت عقائد سے زیادہ ایک فرد کی لیاقت اور تجربے کو پیش نظر رکھتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ غیر مسلموں کو برابر کا شہری تصور کرتے تھے اور اس حوالے سے ان کی باقاعدہ تقاریر بھی موجود ہیں۔ ہم اس بات کو درست تسلیم کریں یا غلط، تاہم، امر واقعہ یہی ہے۔
 

آصف اثر

معطل
میں تو پورے نظام کی بات کر رہا ہوں جو اسلام کے نام پر ملک و معاشرہ میں نافذ ہے۔
ایسا کوئی مغربی سیکولر ملک موجود نہیں جہاں اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف اس قسم کے نفرت آمیز پراپگنڈہ کی کھلی اجازت دی جاتی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام شہری آئین و قانون کے مطابق برابر بھی ہوں اور کاروباری مراکز میں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع بھی ہو۔
پہلی بات یہ کہ پاکستان کا نظام مملکت نافذ نہیں۔ یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ یہاں امیر و غریب، سرکاری و غیرسرکاری اور فوجی و غیر فوجی کی تفریق بدرجہ اُتم موجود ہے۔ آپ پہلے یہ فرق ختم کریں۔
دوسری بات یہ کہ جس بڑے پیمانے پر ہونے والے پروپیگنڈے کی آپ بات کررہے ہیں وہ صرف قادیانیوں کے حوالے سے ہے۔ کیوں؟
اس لیے کہ قادیانی آئے روز آئین کو چھیڑنے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی بھرپور کوششیں کرتے پکڑے جاتے ہیں، لہذا جو معاملہ ٹھنڈا پڑچکا ہوتاہے، اسے یہ بارسوخ لابی خود چنگاری دے کر بھڑکادیتی ہے۔ کیوں؟
اس لیے کہ اس سے خود کو مظلوم ثابت کرنے اور بیرونی فنڈنگ اور مراعات لینے میں بے حد آسانی ہوجاتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ قادیانی آئین کی رُو سے شہری ہے ہی نہیں۔ جب تک وہ آئین کے مطابق خود کو غیرمسلم اقلیت تسلیم نہیں کریں گے، آپ کا یا کسی اور کا برابری کی دُہائی کالعدم رہے گی۔

تمام شہری برابر کے حقوق بھی رکھتے ہوں لیکن صرف مسلمان ہی وزیر اعظم، صدر، چیف جسٹس اور فوج کے سربراہ کے عہدہ تک پہنچ سکتے ہوں۔
کیا بھگوان داس مسلمان تھا؟ چوں کہ پاکستان کا عدالتی نظام اسلامی نہیں، لہذا اس پر مجھے کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔
جب تک آپ اسرائیل کو سپورٹ کرتے رہیں، اس وقت تک آپ کا صدر اور فوج کے سربراہ کا مسلمان ہونے پر اعتراض بےجا ہے۔ اور کیا وزیراعظم بننا اتنا ضروری ہے؟ کیا غیرمسلم پارلیمنٹ میں موجود نہیں؟ جن کی ایک پکار پر سارا میڈیا اور پروپیگنڈا لابی زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں سے زیادہ اقلیت محفوظ ہے۔ لہذا اقلیت کا شورشرابا کرنا احسان فراموشی اور فساد پھیلانے کے سوا کچھ نہیں۔
جس دِن پاکستان میں شریعتِ مطہرہ نافذ ہوگی، ان شاء اللہ اس دن تمام مسلمانوں سمیت اقلیتیں بھی اتنی ہی محفوظ ہوں گی، جتنی کہ خلافتِ راشدہ یا دیگر باشرع اسلامی سلطنتوں میں رہی ہے۔
 
آخری تدوین:
پہلی بات یہ کہ پاکستان کا نظام مملکت نافذ نہیں۔ یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ یہاں امیر و غریب، سرکاری و غیرسرکاری اور فوجی و غیر فوجی کی تفریق بدرجہ اُتم موجود ہے۔ آپ پہلے یہ فرق ختم کریں۔
دوسری بات یہ کہ جس بڑے پیمانے پر ہونے والے پروپیگنڈے کی آپ بات کررہے ہیں وہ صرف قادیانیوں کے حوالے سے ہے۔ کیوں؟
اس لیے کہ قادیانی آئے روز آئین کو چھیڑنے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی بھرپور کوششیں کرتے پکڑے جاتے ہیں، لہذا جو معاملہ ٹھنڈا پڑچکا ہوتاہے، اسے یہ بارسوخ لابی خود چنگاری دے کر بھڑکادیتی ہے۔ کیوں؟
اس لیے کہ اس سے خود کو مظلوم ثابت کرنے اور بیرونی فنڈنگ اور مراعات لینے میں بے حد آسانی ہوجاتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ قادیانی آئین کی رُو سے شہری ہے ہی نہیں۔ جب تک وہ آئین کے مطابق خود کو غیرمسلم اقلیت تسلیم نہیں کریں گے، آپ کا یا کسی اور کا برابری کی دُہائی کالعدم رہے گی۔


کیا بھگوان داس مسلمان تھا؟ چوں کہ پاکستان کا عدالتی نظام اسلامی نہیں، لہذا اس پر مجھے کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔
جب تک آپ اسرائیل کو سپورٹ کرتے رہیں، اس وقت تک آپ کا صدر اور فوج کے سربراہ کا مسلمان ہونے پر اعتراض بےجا ہے۔ اور کیا وزیراعظم بننا اتنا ضروری ہے؟ کیا غیرمسلم پارلیمنٹ میں موجود نہیں؟ جن کی ایک پکار پر سارا میڈیا اور پروپیگنڈا لابی زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں سے زیادہ اقلیت محفوظ ہے۔ لہذا اقلیت کا شورشرابا کرنا احسان فراموشی اور فساد پھیلانے کے سوا کچھ نہیں۔
جس دِن پاکستان میں شریعتِ مطہرہ نافذ ہوگی، ان شاء اللہ اس دن تمام مسلمانوں سمیت اقلیتیں بھی اتنی ہی محفوظ ہوں گی، جتنی کہ خلافتِ راشدہ یا دیگر باشرع اسلامی سلطنتوں میں رہی ہے۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ شرپسند اور ملعون ہماری صفوں میں ایسے گھس بیٹھے ہیں کہ ہم غیر محفوظ اور غدارِ پاکستان محفوظ ہیں۔
 

محدثہ

محفلین
پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس بات پر ایکشن لیا ہے اور ان ایڈیٹرز پر پابندی عائد کرا دی ہے۔ الحمدُللہ
 

جاسم محمد

محفلین
مزید یہ کہ، جناح کی حد تک یہ بات مسلمہ ہے کہ وہ اعلیٰ عہدوں پر تقرری کے وقت عقائد سے زیادہ ایک فرد کی لیاقت اور تجربے کو پیش نظر رکھتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ غیر مسلموں کو برابر کا شہری تصور کرتے تھے اور اس حوالے سے ان کی باقاعدہ تقاریر بھی موجود ہیں۔ ہم اس بات کو درست تسلیم کریں یا غلط، تاہم، امر واقعہ یہی ہے۔
عین متفق۔ امر واقعہ یہی ہے کہ قوم نے جناح کو دفنانے کے ساتھ ساتھ ان کا نظریہ پاکستان بھی دفن کر دیا تھا۔
جناح کی وفات کے کچھ ماہ بعد آئین ساز اسمبلی میں اس وقت کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے قرار داد مقاصد کا ظہور ہوا۔ جو اسمبلی میں موجود ہندو ممبران کے شدید احتجاج کے باوجود مسلم اکثریت نے پاس کر دیا۔ اور جس کا خمیازہ آج تک پوری قوم بھگت رہی ہے۔
ہندو ممبران کی رائے کو مسلم عددی برتری کی بنیاد پر رد کرنا قرار داد پاکستان کی شق نمبر 4 کی نفی ہے جس میں صاف صاف لکھا ہے کہ غیرمسلموں کی مشاورت سے پاکستان کو چلایا جائے گا۔
-4 یہ کہ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی‘ ثقافتی‘ معاشی‘ سیاسی انتظامی اوردیگر حقوق مفادات کے تحفظ کے مناسب‘ موثر اورلازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں اور ہندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں‘ آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی‘ ثقاتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب‘ موثر اورلازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔
قراردادِ پاکستان کا متن - ایکسپریس اردو
 

جاسم محمد

محفلین
تیسری بات یہ کہ قادیانی آئین کی رُو سے شہری ہے ہی نہیں۔
یہ کیا بات کر رہے ہیں؟ قادیانی آئین میں غیرمسلم قرار دئے جانے سے قبل بھی ملک کے شہری تھے اور اس آئینی تبدیلی کے بعد بھی ان کی پاکستانی شہریت میں رتی برابر فرق نہیں پڑا ہے۔ صرف مذہب کا خانہ تبدیل ہوجانے سے کسی مذہبی طبقہ کی قومی شہریت منسوخ نہیں ہو جاتی۔
 

آصف اثر

معطل
یہ کیا بات کر رہے ہیں؟ قادیانی آئین میں غیرمسلم قرار دئے جانے سے قبل بھی ملک کے شہری تھے اور اس آئینی تبدیلی کے بعد بھی ان کی پاکستانی شہریت میں رتی برابر فرق نہیں پڑا ہے۔ صرف مذہب کا خانہ تبدیل ہوجانے سے کسی مذہبی طبقہ کی قومی شہریت منسوخ نہیں ہو جاتی۔
جب تک وہ آئین کے مطابق خود کو غیرمسلم اقلیت تسلیم نہیں کریں گے، آپ کا یا کسی اور کا برابری کی دُہائی کالعدم رہے گی۔
 

فرقان احمد

محفلین
عین متفق۔ امر واقعہ یہی ہے کہ قوم نے جناح کو دفنانے کے ساتھ ساتھ ان کا نظریہ پاکستان بھی دفن کر دیا تھا۔
جناح کی وفات کے کچھ ماہ بعد آئین ساز اسمبلی میں اس وقت کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے قرار داد مقاصد کا ظہور ہوا۔ جو اسمبلی میں موجود ہندو ممبران کے شدید احتجاج کے باوجود مسلم اکثریت نے پاس کر دیا۔ اور جس کا خمیازہ آج تک پوری قوم بھگت رہی ہے۔
ہندو ممبران کی رائے کو مسلم عددی برتری کی بنیاد پر رد کرنا قرار داد پاکستان کی شق نمبر 4 کی نفی ہے جس میں صاف صاف لکھا ہے کہ غیرمسلموں کی مشاورت سے پاکستان کو چلایا جائے گا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی مختلف تقاریر میں یہ بھی کہا تھا، ’’پاکستان کا مطلب محض آزادی اور خودمختاری نہیں بلکہ مسلم نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) ہے، جس کا تحفظ ہم نے کرنا ہے، جو ہمیں ایک قیمتی تحفہ اور بیش بہا دولت کی شکل میں ملی ہے اور جس کی ہمیں امید ہے کہ دوسرے بھی اس سے استفادہ کریں گے‘‘۔
اور، دستور ساز اسمبلی سے متعلق ان کے خیالات کچھ یوں تھے، ’’دستور ساز اسمبلی کا یہ کام ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے لیے ایسے قوانین بنائے، جو شرعی قوانین سے متصادم نہ ہوں، اور مسلمانوں کے لیے اب یہ مجبوری نہیں ہوگی کہ وہ غیر اسلامی قوانین کے پابند ہوں‘‘۔
یعنی کہ، معاملے کو پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ :)

قصہ مختصر: جناح پاپائیت یا تھیوکریسی کے حامی نہ تھے، تاہم، وہ اسلام کے سنہری اصولوں سے رہنمائی لینے کے خواہش مند تھے جو کہ ظاہری بات ہے، مسلم اکثریت کا مطالبہ بھی تھا۔ :)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
قصہ مختصر: جناح پاپائیت یا تھیوکریسی کے حامی نہ تھے
دستور ساز اسمبلی کا یہ کام ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے لیے ایسے قوانین بنائے، جو شرعی قوانین سے متصادم نہ ہوں
آئین میں یہ شق کہ کوئی قانون خلاف شریعت بن ہی نہیں سکتا جمہوری اصول کی نفی اور عملی طور پر تھیوکریسی ہی ہے۔
بھارت میں کچھ ماہ قبل ہی مسلم طبقہ میں تین طلاقوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی قانونی پیچیدگیوں سے نبٹنے کیلئے ٹرپل طلاق بل پاس ہوا ہے۔ جس پر وہاں کے علما کرام نے کافی شور شرابہ بھی کیا۔ لیکن چونکہ یہ بل عوام کے مفاد میں ہے اور عین ممکن ہے خلاف شریعت بھی ہو۔ اس لئے اسے پاس ہونے سے کوئی نہیں روک سکا۔
اس قسم کے عوامی فلاحی بل پاکستانی پارلیمان میں اکثریت کے باوجود پاس نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ وہاں اسلامی نظریاتی کونسل درمیان میں آڑے آجاتی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
آئین میں یہ شق کہ کوئی قانون خلاف شریعت بن ہی نہیں سکتا جمہوری اصول کی نفی اور عملی طور پر تھیوکریسی ہی ہے۔
بھارت میں کچھ ماہ قبل ہی مسلم طبقہ میں تین طلاقوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی قانونی پیچیدگیوں سے نبٹنے کیلئے ٹرپل طلاق بل پاس ہوا ہے۔ جس پر وہاں کے علما کرام نے کافی شور شرابہ بھی کیا۔ لیکن چونکہ یہ بل عوام کے مفاد میں ہے اور عین ممکن ہے خلاف شریعت بھی ہو۔ اس لئے اسے پاس ہونے سے کوئی نہیں روک سکا۔
اس قسم کے فلاحی بل پاکستانی پارلیمان میں اکثریت کے باوجود پاس نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ وہاں اسلامی نظریاتی کونسل درمیان میں آڑے آجاتی ہے۔
دراصل، مسلم اکثریت کا مطالبہ تب یہی تھا۔ اسی باعث تو پاکستان کے وجود کو جواز دیا جا سکتا تھا۔ آپ جو بات کر رہے ہیں، وہ علمی بحث کی ذیل میں رکھی جا سکتی ہے جب کہ عملی سیاست حرکی اصول پر چلتی ہے۔ جناح کے پاس الگ وطن بنانے کا بصورتِ دیگر شاید کوئی جواز نہ بچتا تھا۔ اگر کوئی اور جواز مل جاتا، تو پھر، شاید مسلم اکثریت ساتھ نہ دیتی۔ آپ اگر آج اس ملک میں جمہوری اصولوں کا فروغ چاہتے ہیں، تو پھر، آئیے، اور تحریک چلائیے۔ اگر عوام آپ کا ساتھ دے تو آئین کی شقوں کو بدل دیجیے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
دراصل، مسلم اکثریت کا مطالبہ تب یہی تھا۔
ہو سکتا ہے۔البتہ پاکستانی انتخابات کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ عوام کی اکثریت شریعت پسند اسلامی جماعتوں کے ساتھ کبھی کھڑی نہیں ہوئی ۔
صرف ضیاء الحق کے اقتدار کو طول دینے والے ریفرنڈم کو "اسلامی" کہا جا سکتا ہے۔ اگر وہ بھی کسی اسٹیبلشیائی دھاندلی کا شاخسانہ نہیں تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ہو سکتا ہے۔البتہ پاکستانی انتخابات کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ عوام کی اکثریت شریعت پسند اسلامی جماعتوں کے ساتھ نہیں ہے۔
اسی لیے انہوں نے جناح کا ساتھ دیا تھا جو ان کی نظر میں تھیوکریٹک سوچ کا حامل نہ تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ یہاں بسنے والے اسلام کی محبت میں دیوانے ہیں، تاہم، شریعت کے نام پر جو نظام معاشرت یہاں کے مختلف طبقات سامنے لانا چاہتے ہیں، عوام کی اکثریت اس کا ساتھ دیتی نظر نہیں آتی ہے۔ شاید پاکستان بھی کبھی نہ بنتا، اگر کانگریس نے انگریزوں کے زیر سایہ بننے والی حکومتوں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب سے کام نہ لیا ہوتا۔
 
Top