پل صراط

نور وجدان

لائبریرین
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا۔
یہ کیا ہوا کہ نم ہے آئینہ دل۔۔!!
مجھے گلہ کسی سے نہیں۔
کہ میری فصل میں بہار کہاں۔
میں تو نقطہ ہو ازل سے زیست کا۔
میری مجا ل لفظوں میں کہاں۔۔
میں ہوں خانماں برباد
نہ کوئی حسرت بچی
کہ جلا کہ سب کشتیاں
پوچھتے ہو میرا حال ہے کیا؟
مجھے بے وفائی سے غر ض کہاں۔
میرے رگ رگ میں شرار ہے۔
مجھے جستجو تھی آسمانوں کا۔
زمیں کے لئے اب ترس ہے بہت۔
میں تو ازل سے دل جلا رہی ۔
میرے حال پر ہنسومت۔
کہ دھمال ڈالنا میرا کام تھا۔
جو بھول ہوئی کہ چھوڑ کر ۔۔
تلاش خوشی میں نکل پڑی ۔
نہ تھی دسترس میں یہ
میرا شریک تو درد تھا ۔
جو ازل سے دل میں مقیم تھا۔
خطا ہوئی کہ بھول کر اک دیا جلا لیا۔
سزا ملی کہ سب راستے بند ہوئے۔
نہ غئنچہ دل میں کوئی آرزو کھلے ۔
نہ خواب کو اب آرزو بھرے ۔
میری جنگ میری ہار سے ہے
میرا حو صلہ ابھی بھی جواں ہے ۔
کہ جلا کہ سب کشتیاں
میں طارق بن زیاد ہوں
آزاد ہو کہ موسی سے اندلس کو پا لیا۔
میرا نغمہ سالوں پہ محیط ہے ۔
اور جلتا ہوا دل میرا آخری ہتھیار ہے
چلوں تو جلے میرا بدن ،
رکوں تو سانسیں ہی رکیں سی ہیں۔
مجھے جل جل کر ہے چلنا۔۔
یہی میرا پل صراط ہے

اتوار، 12 جنوری 2014۔۔بوقت 11:22 صبح
 
آخری تدوین:
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا۔
یہ کیا ہوا کہ نم ہے آئینہ دل۔۔!!
مجھے گلہ کسی سے نہیں۔
کہ میری فصل میں بہار کہاں۔
میں تو نقطہ ہو ازل سے زیست کا۔
میری مجا ل لفظوں میں کہاں۔۔
میں ہوں خانماں برباد
نہ کوئی حسرت بچی
کہ جلا کہ سب کشتیاں
پوچھتے ہو میرا حال ہے کیا؟
مجھے بے وفائی سے غر ض کہاں۔
میرے رگ رگ میں شرار ہے۔
مجھے جستجو تھی آسمانوں کا۔
زمیں کے لئے اب ترس ہے بہت۔
میں تو ازل سے دل جلا رہی ۔
میرے حال پر ہنسومت۔
کہ دھمال ڈالنا میرا کام تھا۔
جو بھول ہوئی کہ چھوڑ کر ۔۔
تلاش خوشی میں نکل پڑی ۔
نہ تھی دسترس میں یہ
میرا شریک تو درد تھا ۔
جو ازل سے دل میں مقیم تھا۔
خطا ہوئی کہ بھول کر اک دیا جلا لیا۔
سزا ملی کہ سب راستے بند ہوئے۔
نہ غئنچہ دل میں کوئی آرزو کھلے ۔
نہ خواب کو اب آرزو بھرے ۔
میری جنگ میری ہار سے ہے
میرا حو صلہ ابھی بھی جواں ہے ۔
کہ جلا کہ سب کشتیاں
میں طارق بن زیاد ہوں
آزاد ہو کہ موسی سے اندلس کو پا لیا۔
میرا نغمہ سالوں پہ محیط ہے ۔
اور جلتا ہوا دل میرا آخری ہتھیار ہے
چلوں تو جلے میرا بدن ،
رکوں تو سانسیں ہی رکیں سی ہیں۔
مجھے جل جل کر ہے چلنا۔۔
یہی میرا پل صراط ہے

اتوار، 12 جنوری 2014۔۔بوقت 11:22 صبح


اس میں مضمون چونکہ کسی حد تک واضح ہے اس لیے صرف الفاظ کا ردو بدل کر کے دیکھتے ہیں

یہ کیا ہوا!
کہ نم ہے دل کا آئینہ
اور سارا منظر دھواں دھواں
مجھے کسی سے گلہ نہیںکہ میری فصلِ بہار میں
کہاں کی فصلِ بہار ہے؟
میں ازل سے زیست کا فیصلہ
کچھ بدل دوں میری مجا ل کیا
میں وہ خانماں برباد ہوں
کہ جلا کے جس کی کشتیاں
پوچھتے ہو
میری صبح و شام کیسی ہیں؟ ہے میرا حال کیا؟
میں وہ جو سراپا حسن و جمال تھی، با کمال تھی
اب خوشی کی تلاش میں ہوں
پل صراط پہ ہوں
 
Top