پشاور: مدرسے کے شہید طلباءکےلیے حکومت کے پاس کیا ہے؟؟؟

الف نظامی

لائبریرین
وزیراعظم صاحب آپ کومدرسے کےاندرطلبہ کےخون،بکھری ہڈیوں،گوشت کےٹکڑوں،قرآن پاک کےشہیدنسخوں اورشہیدکتب احادیث کاحساب دیناہوگا۔یونیورسٹیوں اورسکولوں کےبچوں کوشہادت پربڑےپیکج دئےگئے لیکن طالبانِ علوم نبوۃ کیلئےوفاقی خزانے اوربجٹ میں کچھ بھی نہیں ہے۔
(سینیٹر مشتاق احمد خان)
 

الف نظامی

لائبریرین
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا کہنا ہے کہ تین دن پہلے حملے کی اطلاع کے باوجود پشاور کے مدرسے کو سیکیورٹی فراہم کیوں نہیں کی گئی؟ حکومت کا بیانیہ اب چلنے والا نہیں، حکومت اپوزیشن کے ساتھ لڑنے کی بجائے دہشت گردوں سے لڑے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سراج الحق کا کہنا تھاکہ یہ واقعہ اچانک نہیں ہوا، مدرسے والوں کو 3 دن پہلے حملےکا بتایا گیا تھا، کیا حکومت کا فرض نہیں تھاکہ مدرسہ اور مسجد کو سیکیورٹی دیتے؟
سراج الحق کاکہنا تھاکہ حکومت نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا، حکومت غیرسنجیدگی کا ثبوت دے رہی ہے، وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور مقامی ممبر قومی و صوبائی اسمبلی بھی وہاں نہیں گئے۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ جب انہوں نے پوچھا کیوں نہیں گئے؟ تو انہیں پتہ چلا لوگوں کی غصے کی وجہ سے نہیں گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ لڑنے کی بجائے دہشت گردوں سے لڑے، حکومت کا بیانیہ اب چلنے والا نہیں ہے، وزیر اطلاعات شبلی فراز نےگوجرانوالا کا درد محسوس کیا لیکن پشاور دھماکےکو محسوس نہیں کررہے۔

خیال رہے کہ2 روز قبل پشاور کے علاقے دیر کالونی میں کوہاٹ روڈ پر واقع مسجد سے متصل مدرسے کے مرکزی ہال میں درسِ قرآن کے دوران دھماکے کے نتیجے میں 8 افراد شہید جب کہ 112 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبرپختونخوا پولیس ثناء اللّٰہ عباسی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے متعلق عمومی تھریٹ موجود تھا۔

اس سے قبل 22 اکتوبر کو نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) اسلام آباد نے پشاور اور کوئٹہ میں دہشت گرد حملے کا تھریٹ الرٹ جاری کیا تھا، جس میں کہاگیا تھاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے پشاور اور کوئٹہ میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ پشاور مدرسے کا واقعہ اچانک نہیں ہوا، انٹیلی جنس اداروں نے تین دن پہلے حملے کے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔

سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ آپ کے سیکرٹریٹ میں انصاف اور شفافیت نہیں ہےپشاور واقعےکے فورا بعد27 تاریخ کو تحریک التوا پیش کی ہےآپ کہتےہیں قانون کے مطابق آئیں، پشاور واقعے پر تحریک التوا جمع کی آج آپ کے ایجنڈے پر وہی تحریک التوا ہونی چاہیے تھی، شبلی فراز نے کہا ہم ایشو پر بات کرنا چاہتےہیں مجھے یقین تھا پشاور سانحہ پر بات کریں گے مجھے حیرانی ہوئی کہ انھوں نے گوجرانوالہ کی بات کی، لیکن پشاور کی بات نہیں کی کیا حکومت کا فرض نہیں تھا کہ مدرسہ اور مسجد کو سیکیورٹی دیتے۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ میں اور سینٹر مشتاق احمد مدرسے گئےان کی داد رسی کی، زخمیوں اور ان کے لواحقین سے ملے مدرسے کے طالبعلموں نے بتایا کہ واقعہ اچانک نہیں ہوا، انٹلی جنس ادا روں نے تین دن پہلے بتایا تھا کہ حملہ ہونے والا ہے، وزیراعظم، صدر،وزیراعلیٰ اور حکومت سے سوال ہے آرمی پبلک اسکول میں بھی اسی نوعیت کا واقعہ ہوا تھا تو کیا حکومت کا فرض نہیں تھا کہ سیکورٹی فراہم کرتی؟ حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا، واقعے کے بعد میں طالبعلم ڈنڈے کے ساتھ کھڑے ہو کر تلاشی لے رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اتنے بڑے واقعے کے بعد پولیس اور اداروں کا فرض تھا کہ کوئی اور سانحے سے پہلے سیکورٹی فراہم کرتے مگر کسی نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا، مسجد شہید ہوگئی ، خون کے دھبے موجود ہیں، پشاور میں زبردست خوف موجود ہے مگر وزیراعظم تو کیا وزیراعلیٰ، ایم این اے اور ایم پی اے تک مدرسے نہیں گئے، یہ لوگوں کے غصہ کی وجہ سے نہیں گئے ،اس سے پہلے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے اور یہی ہاتھ آپ کے گریبان پر نہ پڑ جائیں حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

امیرجماعت اسلامی نے کہا کہ جب اے پی سی کا سانحہ ہوا تو وزیراعظم نے تمام سیاسی جماعتوں، آرمی چیف کو بلایا، اختلاف اور سیاسی جھگڑوں کے باوجود سب نے نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا جس سے دہشتگردی میں کمی آئی۔

شبلی فراز کو مخاطب کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ میں نے آپ کو چھوڑنا نہیں ہے آپ کو جانا بھی نہیں ہے، میں آپ کومعزز سمجھتا تھا لیکن آپ کو کچھ رنگ چڑھ گیا ہے،سنجیدیگی کا مظاہرہ کریں ، ہم کس کے ہاتھوں پر اپنے بچوں کا لہو تلاش کریں،آج رونے دھونے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، ملک میں آگ لگی اور آپ کو ایئرکنڈیشنز میں حالات کا اندازہ نہیں ، ووٹ دینے والے اور نہ دینے والے دونوں پریشان ہیں۔

امیر جماعت نے تجویز پیش کی کہ حکومت اپوزیشن سے لڑنے کی بجائے دہشتگردوں ، مہنگائی، غربت ،بے روز گاری کے ساتھ لڑے، اب آپ کا بیانیہ چلنے والا نہیں ، آپ انڈیا کے نہیں پاکستانی چینلز کو دیکھیں، سوشل میڈیا کو دیکھیں، سب سے زیادہ مہنگائی پاکستان میں ہے ، کیایہ اپوزیشن کی وجہ سے ہے؟ یہ تو حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے مدرسے جامعہ زبیریہ میں بم دھماکے کی ابتدائی تفتیش کی روشنی میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ (داعش) کو مشتبہ ’حملہ آور‘ قرار دے دیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ محمود خان کی زیر صدارت جامعہ زبیریہ بم دھماکے سے متعلق اجلاس ہوا جس میں 8 طلبا جاں بحق اور 120 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
ایک سینیئر عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اجلاس کے شرکا نے بم دھماکے کے بعد خطرات اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دوبارہ سے انضمام پر تبادلہ خیال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کو آگاہ کیا گیا کہ جامعہ زبیریہ کے مہتمم شیخ رحیم الدین حقانی داعش کے مخالف تھے اور ان کے خلاف کئی فتوے بھی جاری کر چکے تھے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ حملے میں بچ جانے والے شیخ رحیم الدین حقانی داعش کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھے اور ماضی میں بھی ان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘یہ چیزیں داعش کو بم دھماکے کا مرکزی ملزم ثابت کر رہی ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ ‘ملٹری گریڈ’ یا ٹی این ٹی دھماکے میں خودکار مواد استعمال ہوا اور دھماکا خیز مواد اور ٹائم ڈیوائس دونوں مقامی سطح پر دستیاب نہیں ہیں اور انہیں بظاہر افغانستان سے اسمگل کیا گیا۔
دوسری جانب سرکاری سطح پر جاری بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز، سیکریٹری داخلہ اکرام اللہ، کمشنر پشاور امجد علی خان اور سینیئر پولیس عہدیداروں نے شرکت کی۔
اجلاس کے شرکا کو صوبے کی سیکیورٹی صورت حال اور دہشت گردوں کے حملوں کے انسداد کے لیے سیکیورٹی انتظامات پر بریفنگ دی گئی۔

بیان کے مطابق وزیراعلیٰ محمود خان نے کہا کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت حکومت کی اولین ذمہ داری اور ترجیح ہے اور صوبے میں امن برقرار رکھنے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا اور اس پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہو گا۔

محمود خان نے کا کہنا تھا کہ مدرسے میں بم دھماکا صوبے کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش تھی لیکن حکومت ہر قیمت پر امن و امان برقرار رکھے گی۔
انہوں نے پولیس کو سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات اور کسی بھی دہشت گرد واقعے سے بچنے کے لیے انٹیلی جنس نظام کو مزید بہتر کرنے کی ہدایت کی۔
اس سے قبل مدرسے کے مہتمم شیخ رحیم الدین حقانی نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک لائیو پر بم دھماکے میں داعش کے ملوث ہونے کا اشارہ دیا تھا۔
انہوں نے اپنے ویڈیو بیان میں کسی دہشت گرد تنظیم کا نام واضح طور پر نہیں لیا تھا۔
بظاہر داعش کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ خارجی حملہ نہ تو پہلا ہے اور نہ آخری ہوگا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘حملے کے باوجود ہم اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے’۔
 
Top