اقتباسات پسندیدہ اقتباسات

ش

شہزاد احمد

مہمان
ولی کے معلومات علمی، ادبی اور مذہبی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے کلام میں آیات قرانی اور احادیث کی طرف تلمیحیں بہت ہیں، مذہبی علوم اور تصوف کی اصطلاحوں کا استعمال بھی ہمیشہ برمحل ہوا ہے اور فارسی اساتذہ کے طرز کلام سے کماحقہ واقفیت صاف ظاہر ہے یہ سب اس سب چیزیں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اپنے زمانے کے دینی اور دنیوی علوم سے ان کو پوری آگاہی تھی۔ یہی نہیں بلکہ بعض اوقات ان کے کلام میں علمی اصطلاحوں کی کثرت دیکھ کر یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ متعلم ہونے کے علاوہ ممکن ہے ولی کا تعلق کسی مدرسہ یا مکتب سے بہ حیثیت معلم کے بھی رہا ہو۔ ولی کے اس قسم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں یہ اصطلاحیں پیش کی گئی ہیں۔
اے ولی ترک کر یہ حرف دراز
کہ ہے خیر الکلام قلّ و دلّ
یا
چہرہء گل رنگ و زلف موج زن خوبی منیں
آیت جنات تجری تحتھا الانھار ہے

الٰہی دل اُپر دے عشق کا داغ
یقیں کے نین میں سٹ کحل 'مازاغ'

اے کعبہ رو کھڑا تو ہوا جیوں ادا کے ساتھ
بولے مکبران کہ قد قامت الصلٰوۃ

دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا
ہے مطالعہ 'مطلع الانوار' کا

کیا کہے تعریف دل ہے بے نظیر
حرف حرف اس 'مخزن اسرار" کا

ترا مکھ مشرقی حسن انوری جمالی ہے
نین جامی جبیں فردوسی و ابرو ہلالی ہے

شاعر کی حیثیت سے ولی کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے دور کے تمام ادبی و فکری معیاروں کو اپنی شاعری میں سمویا بلکہ بیان کی لذت اور زبان کی تعمیر کا اعجاز بھی دکھا دیا اور اسی میں ولی کی کرامت کا راز مضمر ہے۔
تصوف اس زمانے کی فکری اور اخلاقی بلندی کا معیار تھا۔ وحدت الوجود کا عقیدہ، جذب، سلوک اور معرفت کے لیے واحد بنیاد کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیاقت، علمیت، بلند مذاقی اور بلند نظری سب میں یہی صوفیانہ طریق رچا ہوا تھا۔ ولی کے بعد بھی تیرہویں صدی ہجری تک یعنی میر و سودا کے آخری عہد تک یہی نظریہ مذہب، اخلاق اور شعر و ادب میں ہندو اور مسلماں دونوں قوموں میں بڑی وسعت کے ساتھ رائج تھا۔
چنانچہ ولی نے بھی اس مسلک کو نہ صرف اپنی زندگی میں برتا بلکہ اپنی شاعری میں بھی اس خوبی سے اظہار کیا کہ ان سے پہلے کسی نے اردو میں اتنی کامیابی سے نہیں برتا تھا۔ چوں کہ وحدت الوجود کے نظریے کے مطابق صرف ذات باری ہی کا وجود حقیقی سمجھا جاتا ہے اور ماسوا اللہ کا وجود محض ذہنی اور اعتباری ہے اس لیے دنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی بے اعتباری وغیرہ کے مضامین ولی کے ہاں بھی بہت خوبی اور ایک جذبے کے ساتھ بندھے ملتے ہیں۔
تصوف میں قربِ الٰہی کا واحد ذریعہ عشق ہے اس لیے اس زمانے میں عشق کا چلن عام ملتا ہے۔ عشق ہی کے مسلک کی تعلیم دی جاتی تھی۔ تہذیب نفس اور تزکیہء قلب کا ذریعہ عشق ہی کو سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے پورا قدیم تمدن ہم کو اس رنگ میں رنگا اور تربیت یافتہ نظر آتا ہے۔ ولی وسیع دل و دماغ کے آدمی تھے اس لیے جہاں انہوں نے دنیا کے کاروبار پر بڑی گہری نظر ڈالی ہے وہاں حسن و عشق کے معاملات میں بھی بڑے سوز و گداز سے کام لیا ہے اور اپنے فن کو بڑی خوبی اور کامیابی سے نبھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میر جیسا نازک دماغ نقاد بھی ولی کی مدح سرائی کیے بغیر نہ رہ سکا۔
واقف نہیں ہم یوں ہی کچھ ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا (میر)

اقتباس از "مقدمہ" دیوان ولی ۔۔۔۔۔۔ نور الحسن ہاشمی ۔۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
تصوف کے مسلک میں چونکہ نظر اندر کی طرف رہتی ہے اس لیے ہمیشہ جزو میں کُل، قطرے میں دریا اور دل کے آئینے میں دنیا کا تماشا دیکھا جاتا ہے اور اسی لیے ایسی شاعری ہمیشہ داخلی ہوا کرتی ہے۔ ولی کو اپنی دلی کیفیات کے مطالعہ اور ان کے اظہار کے علاوہ فرصت ہی نہ تھی کہ وہ باہر کی دنیا کو دیکھیں۔ اگر کبھی ان کی نظر خارجی دنیا کو دیکھتی بھی ہے تو وہاں بھی انہیں حسن ہی نظر آتا ہے۔ خواہ وہ گوبند لال ہو یا امرت لال یا ابولمعالی یا گجرات و سورت کے نازنین اور یہی وجہ ہے کہ غزل ان کا اپنا اصلی میدان ہے، احساسات اور واردات کی دنیا اُن کی اپنی دنیا ہے۔ ویسے کہنے کو تو انہوں نے ہر صنف سخن میں شاعری کی ہے۔
موضوع اور طریقہء اظہار کے باب میں ولی کو کوئی خاص اجتہاد نہیں کرنا پڑا۔ اساتذہء فارسی کا کلام ان کے پیش نظر تھا۔ سخن آفرینی کے تمام معیار، فکر و نظر کا پورا مذاق اور طرز ادا کے تمام اسلوب انہیں بہ آسانی مستعار مل گئے۔ بعض جگہ خسرو، سعدی، حافظ و نظیری وغیرہ مشہور اساتذہ کی غزلوں پر غزلیں لکھی ہیں بلکہ کہیں کہیں ایک آدھ شعر کا ترجمہ بھی کر دیا ہے۔
مثلاََ
تو چناں گرفتہ ای جاں بہ میان جاں شیریں
نہ تواں تر او جاں را ز ہم امتیاز کردن (نظیری)
ایسا بسا ہے آ کر تیرا خیال جیو میں
مشکل ہے جیوں سوں تجکوں اب امتیاز کرناں (ولی)

تحقیق حال ما ز نگہ می تواں نمود
حرفے ز حال خویش بہ سیما نوشتہ ایم (نظیری)
پیتم نے قدم رنجہ کیا میری طرف آج
یہ نقش قدم صفحہء سیما پہ لکھا ہوں

از سر بالین من بر خیز اے ناداں طبیب
دردمندِ عشق را دارو بجز دیدار نیست (خسرو)
مجھ درد پر دوا نہ کرو تم حکیم کا
بن وصل نئیں علاج برہ کے سقیم کا (ولی)

جان ز تن بُردی و در جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز (خسرو)
تو ہے رشک ماہ کنعانی ہنوز
تجح کوں ہے خوباں میں سلطانی ہنوز (ولی)

ولی کو ان کو برتنے میں کامیابی البتہ اس لیے ہوئی کہ خود صوفی صافی اور صاحب دل تھے۔ اکتساب ہنر میں اس جذب اندروں کی بدولت انہیں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ جو دوسروں کے ہاں قال تھا ان کے ہاں حال تھا۔ البتہ انہوں نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ تشبیہہ و استعارہ و تلمیحات میں اور زبان میں ہندی عناصر کو نہیں بھولے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب کیف ہیں اس لیے بعض غزلوں میں مضمون مسلسل بھی مل جاتا ہے۔ طبیعت میں ترنم ہو اور زبان میں لوچ تو چھوٹی بحر کی غزلیں سادہ ہونے کے باوجود بڑا لطف اور مزہ دے جاتی ہیں۔
ولی کے یہاں آپ کو ان تمام خوبیوں کے خوش نما نمونے نظر آئیں گے مثال کے طور پر آپ ان غزلوں کا مطالعہ خصوصیت سے فرمائیں جن کے مطلعے درج ذیل ہیں تو یہ سب باتیں واضح ہو جائیں گی۔
عشق میں لازم ہے اول ذات کو فانی کرے
ہو فنا فی اللہ دائم یاد یزدانی کرے

عیاں ہے ہر طرف عالم میں حسن بے حجاب اس کا
بغیر از دیدہء حیراں نہیں جگ میں نقاب اس کا

شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا

مت غصے کے شعلے سوں جلتے کوں جلاتی جا
ٹک مہر کے پانی سوں توں آگ بجھاتی جا

کیا مجھ کو عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ

مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے

جسے عشق کا تیر کاری لگے
اُسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے

اقتباس از "مقدمہ" دیوان ولی ۔۔۔ ۔۔۔ نور الحسن ہاشمی ۔۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اقتباس:-
جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے وہ برابر اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ جس کائنات میں وہ آ نکلا ہے اس کی حقیقت معلوم کرے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اس کائنات کی حقیقت معلوم نہ ہو گی وہ جان نہیں سکتا کہ خود اس کی حقیقت کیا ہے۔ اور کائنات کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے۔ کائنات کی حقیقت سے اسے اپنی حقیقت کا سراغ ملتا ہے کیوں کہ وہ خود بھی کائنات کا ایک اہم جزو ہے۔ اور اپنی حقیقت وہ اس لیے جاننا چاہتا ہے تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ اسے اپنی عملی زندگی کا استعمال کس طرح کرنا چاہیے اور اس زندگی کا اصل مقصد کیا ہے اور وہ اپنی عملی زندگی کی تشکیل اور تعمیر کس طرح سے کرے کہ اس سے اپنے لیے اسی دنیا میں یا اگلی دنیا میں (اگر وہ بھی ہو تو) بہترین قسم کے نتائج اور ثمرات حاصل کر سکے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کائنات کے متعلق ہر قسم کے تسلی بخش سوالات کا جواب حاصل کر لے گا تو اسی جواب میں اسے اپنے متعلق ہر قسم کے ممکن سوالات کا تسلی بخش جواب بھی مل جائے گا اور پھر وہ اس جواب کی روشنی میں اپنے تمام مسائل کا صحیح حل معلوم کر سکے گا اور اپنی زندگی کا استعمال صحیح طریقے سے کر سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کی حقیقت کا جو تصور بھی وہ قائم کرتا ہے وہ اپنی عملی زندگی کو نہایت احتیاط کے ساتھ اس کے مطابق بناتا ہے گویا اس کے لیے حقیقت تلاش کرنا نہ تو کوئی تفریحی مشغلہ ہے اور نہ ہی کوئی علمی یا نظری مسئلہ بلکہ ایک شدید عملی ضرورت ہے جس کی اچھی یا بری تشفی اس کی روزمرہ زندگی کے تمام حالات اور اس کی تمام چھوٹی اور بڑی تفصیلات کو معین کرتی ہے۔ بدنی ضروریات کی تشفی کو تو ہم ایک عرصہ تک التوا میں بھی ڈال سکتے ہیں لیکن اگر ہم اس ذہنی اور عملی ضرورت کو ایک لمحہ کے لیے بھی ملتوی کر دیں تو ہمارا دماغی توازن بگڑنے لگتا ہے اور ہم جنون، ہسٹریا، خوف، غم، پریشانی ایسے ذہنی امراض کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
یہ کہنا غلط ہے کہ حقیقت کائنات کے تصورات یا نظریات حکماء یا فلاسفہ سے مخصوص ہوتے ہیں۔ دراصل انسان کی فطرت اس طرح سے بنی ہے کہ آج تک کوئی تندرست فرد عالم یا جاہل ایسا نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے جو حقیقت کائنات کا کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، مختصر یا مفصل، منظم یا غیر منظم، عالمانہ یا جاہلانہ تصور نہ رکھے اور اپنی ساری زندگی کو اس کے مطابق نہ بنائے۔ حکماء یا فلاسفہ صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو اور لوگوں کی نسبت زیادہ ذہین اور زیادہ باریک بین ہوتے ہیں اور اپنے ذوق اور اپنی افتاد طبیعت کے لحاظ سے حقیقتِ کائنات کے مسئلہ پر غور و خوض کرتے ہیں اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے زیادہ موزوں اور مستعد ہوتے ہیں جیسے بعض افراد عام لوگوں کے لیے غلہ پیدا کرنے یا کپڑا بننے اور بدنی ضروریات کی چیزیں تیار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اسی طرح سے نوع بشر کے حکماء اور فلاسفہ عام لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت کی چیز یعنی حقیقت کائنات کا صحیح تصور جو ہماری زہنی اور روحانی سطح کی ضروریات سے تعلق رکھتا ہے بہم پہنچانے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ حقیقتِ کائنات کے متعلق خود ان کا اور دوسرے لوگوں کا تصور زیادہ سے زیادہ صحیح ہو تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اپنی عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ صحیح بنا سکیں لیکن حقیقت کائنات کے تصور کی ضرورت ہر انسان کے لیے اس قدر شدید اور فوری اور ناقابلِ التوا ہوتی ہے کہ لوگ کبھی فلسفیوں اور حکیموں کی تحقیق اور تجسس کے ایسے نتائج کا اظہار نہیں کرتے جو آئندہ کسی وقت دستیاب ہونے والے ہوں بلکہ جو نظریات پہلے ہی موجود ہوتے ہیں ان میں سے کوئی نظریہ قبول کر کے اس پر عمل درآمد شروع کر دیتے ہیں اور وہی نظریہ اپنی اولادوں کو وراثت میں سونپ جاتے ہیں لیکن اگر بعد میں آنے والی نسلیں کسی اور نظریہ سے جو کسی اور حکیم یا فلسفی نے پیش کیا ہو متاثر ہو جائیں تو اپنے نظریہ کو بدل لیتی ہیں اور پھر ان کی ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے مطابق بدل جاتی ہے۔ تاریخ کے بڑے بڑے انقلابات اسی طرح داناؤں، فلسفیوں اور حکیموں کے نظریات سے پیدا ہوتے ہیں۔
"حکمتِ اقبال" از "محمد رفیع الدین"
 
Top