پستی

نوید ناظم

محفلین
ہر وہ خیال اور ہر وہ عمل جو انسان کو اس کے شرف سے گرا دے، پستی کہلائے گا۔ وہ سفر جو اسے اللہ سے دور کر دے، پستی کا سفر ہے۔ خود پسندی، غرور، ہوس، حسد اور بغض یہ سب پستی کی باتیں ہیں۔ بعض اوقات دنیاوی طور پر بلند ہونے کی خواہش انسان کو پستی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ بڑا مرتبہ چاہتے چاہتے انسان "انسانیت" کے مرتبے سے نیچے آ جاتا ہے۔۔۔ اصل سفر کی بجائے اسفل سفر شروع ہو جاتا ہے۔ بے وفائی بھی پستی کی علامت ہے۔۔۔۔ پست خیال آدمی دینی اور دنیاوی کسی رشتے سے وفا نہیں کرسکتا۔ حاصل اور صرف حاصل کی خواہش بھی پستی کے علاوہ کچھ نہیں۔ آج دنیا کی آبادی پہلے سے بڑھ چکی ہے مگر انسان کی انسان سے ناشناسی بھی بڑھ چکی ہے۔ آج جانوروں کے بھی کلینک ہیں مگر بے حسی ہے کہ پہلے سے زیادہ ہے۔ فیس بک پر ہزاروں دوست رکھنے والا زندگی میں کوئی دوست نہ رکھتا ہو تو اس کا مطلب صاف ہے کہ زندگی پستی کی طرف جا رہی ہے۔ پستی یہ ہے کہ ہر طرف لوگ ہی لوگ ہوں مگر کوئی کسی کا نہ ہو۔ انسان کے باہر ہجوم اور اندر تنہائی در آئے تو سمجھو وہ دور پستی کا دور ہے۔ جب دو لوگ پانچ وقت مسجد میں اکھٹے ہوتے ہوں اور ایک دوسرے کے دکھ میں اکٹھے ہونے سے انکاری ہوں تو وہ زمانہ دین کا عروج نہیں کہلاتا۔ پستی کے پہلو کئی ہو سکتے ہیں، گدھ اگر مردار کھائے تو یہ ایک مزاج ہے مگر شاہین مردار کھائے تو یہ پستی ہے۔ پستی خیال سے شروع ہو کر کردار تک کسی مرحلے میں بھی عود سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے خیال کی حفاظت کرے، تا کہ کردار بھی محفوظ ہو اور اس کی ہستی بھی پستی کے عذاب سے بچ جائے۔
 
Top