پریم چند کا کفن

اوشو

لائبریرین
1101938888-2.gif

بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس​
 

شمشاد

لائبریرین
پریم چند کا کفن ۔۔۔ سلطان عمران

"کفن" پریم چند کے آخری دور کے دو اہم افسانوں میں سے ایک ہے۔ اس دور کے افسانوں میں ایک اور افسانہ جو کسی حد تک "کفن" کی فنی قدر و قیمت کے قریب پہنچتا ہے وہ "پوس کی رات" ہے۔ دنیا کا سب سے انمول رتن سے لے کر "پوس کی رات" اور "کفن" تک کا سفر پریم چند کی فنی اور تخلیقی شخصیت کے کئی روپ اور مختصر افسانے کے فن کے تدریجی ارتقا کے کئی نشیب و فراز سامنے لاتا ہے۔ عہد طفولیت میں کسی پڑوسی کے گھر جا کر داستانیں اور سننے والا مستقبل کا قصہ گو، اپنے ادبی سفر کا آغاز قصہ گوئی کے قدیم فن کے اتباع سے کرتا ہے، وہ اپنی حکائتیں گرد و پیش بکھری زندگی سے خام مواد حاصل کر کے اسے اس طرح کہانی کا روپ دیتا ہے کہ اس کی ابتدائی کہانیاں اظہار کی سطح پر داستانوں کی ماورائی فضا سے مکتلف ہوتے ہوئے بھی داستانوں کی روایت کا تسلسل اور کبھی اس کی توسیع دکھائی دیتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جہاں اس افسانہ نگار کی ابتدائی کہانیاں اظہار کی سطح پر داستانوں کی ماورائی فضا سے مختلف ہوتے ہوئے بھی داستانوں کی روایت کا تسلسل اور کبھی اس کی توسیع دکھائی دیتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جہاں اس افسانہ نگار کی ابتدائی کہانیاں ہم جیسے ہی انسانوں کی واردات بن کر سامنے آتی ہیں، وہیں مثالیت اور کرداروں کے سپاٹ پن کے عناصر کے سبب یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ہمارا کہانی کار قصہ گوئی کے ماضی میں پھیلے ہوئے طویل سلسلے سے ابھی اپنا دامن نہیں چھڑا سکا ہے۔

"کفن" کی کہانی یہ ہے ۔۔۔ کسانوں کے ایک گاؤں میں چماروں کا ایک کنبہ آباد ہے۔ اس گاؤں میں جہاں مزدوروں کی خاصی بڑی تعداد موجود ہے چند تن پرور کاہل اور کام چور مزدور بھی رہتے ہیں۔ گھ یسو اور مادھو بھی اسی نوع کے نکمے مزدور ہیں۔ گھ یسو ساٹھ سال کی عمر کا کاہل الوجود کردار ہے، مادھو عمر کے اعتبار سے نوجوان ہے مگر باپ کی دیکھا دیکھی مفت خوری اور تن پروری کے سبب باپ سے کسی طرح کم نہیں۔ مادھو کی شادی صرف ایک سال قبل ہوئی، اس کی بیوی بدھیا نے اپنی عادات و اطوار سے پچھلے ایک برس میں خود کو اپنے شوہر اور خسر سے مزاجاً مختلف اور جفاکش ثابت کیا ہے۔ اس نے اس گھر میں آنے کے بعد گھریلو ماحول میں خاصی تبدیلی پیدا کی ہے۔ اس سے جب حد تک ممکن ہوا محنت مزدوری کر کے دونوں نکموں کے پیٹ پالتی رہی ہے۔ آج وہی عورت درد زہ میں مبتلا گھر کے اندر پچھاڑیں کھا رہی ہے، باہر چوکھٹ کے پاس گھ یسو اور مادھو ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے بیٹھے بھنے ہوئے آلوؤں سے پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں۔ عورت کی چیخ کی لرزہ خیز آواز ان کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے مگر ان میں سے کوئی اس تڑپتی ہوئی عورت کو صرف اس خود غرضی کے سبب دیکھنے تک نہیں جاتا کہ کہیں اس کے حصے کے آلو دوسرا نہ کھا جائے۔ بدھیا کی کراہ اور چیخ و پکار اب بھی ان کے کانوں میں گونج رہی ہے مگر دونوں باپ بیٹے آلو ختم کر کے وہیں بے فکری سے سو جاتے ہیں۔ صبح جب ان کی آنکھ کھلتی ہے تو بدھیا کو مرا ہوا پاتے ہیں۔ اس کی لاش دیکھ کر دونوں ایک طرح کی مصنوعی آہ و بکا اور غم کا اظہار کرتے ہیں۔ پھر انہیں لاش کے لئے کفن کی فکر لاحق ہوتی ہے اور دونوں گاؤں کے زمیندار اور دوسرے لوگوں کے پاس جا کر چندہ سے پانچ روپے کی رقم جمع کرتے ہیں۔ ان کے لیے پانچ روپے کی حیثیت ایک ایسی بڑی رقم کی ہے جو شاید زندگی میں پہلی بار ان کو حاصل ہوئی ہے۔ دونوں اپنی بے ضمیری اور دوسروں کی رحم دلی پر اعتماد کا ثبوت دیتے ہوئے ایک شراب خانے چلے جاتے ہیں اور جی بھر کر شراب و کباب اور لذیذ پوریوں سے شوق کرتے ہیں۔ نشے میں دھت ہو کر اعلیٰ اصولوں اور قدروں پر گفتگو کرتے ہیں، مرنے والی کی خوبیاں بیان کرتے ہیں، خوشحال لوگوں پر طنز کرتے ہیں اور سماج کا تمسخر اڑاتے ہیں اور آخر کار نشہ میں بدمست ہو کر وہیں بے ہوشی کے عالم میں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔

"کفن" کی کہانی کو پریم چند نے تین الگ حصوں میں بیان کیا ہے۔ پہلے حصہ میں ہم کہانی کے کرداروں سے متعارف ہوتے ہیں اور اس تعارف کے ساتھ پس منظر کے طور پر وہ پوری صورت حال ہمارے سامنے آتی ہے جس میں یہ کردار نہ صرف یہ کہ اپنی شناخت کراتے ہیں بلکہ ہر جگہ ان کی حرکات و سکنات کا جواز بھی فراہم ہوتا ہے۔ دوسرے حصہ میں مادھو کی بیوی کی موت گھ یسو اور مادھو پر مرتب ہونے والے حقیقی یا غیر حقیقی اثرات اور کفن کے لیے چندہ کی وصولیابی اور تک و دو کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور تیسرے حصہ میں غربت و افلاس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے حسی اور بے ضمیری کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اس حصہ میں ہمارا مکمل ارتکاذ گھ یسو اور مادھو کے عمل اور دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو پر ہوتا ہے اور اس حصے کے اختتام پر راوی ہمیں ایک ایسے موڑ پر لے جا کر یک و تنہا چھوڑ دیتا ہے جہاں بظاہر کہانی ختم ہو جاتی ہے مگر ہم اپنے آپ کو ایک ایسے سناٹے میں پاتے ہیں جہاں بے ضمیری کا مظاہرہ کرنے والے دو کرداروں کا سامنے کرنے کے بعد رد عمل میں ہمیں سوائے اپنے ضمیر کی آواز کے کچھ اور سنائی نہیں دیتا۔ کہانی ان جملوں سے شروع ہوتی ہے۔

"جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونو ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوتے تھے اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا درد زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی، اور رہ روہ کر اس کے منہ سے ایسی دل خراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے۔ جاڑوں کی رات تھی، فضا سناٹے میں غرق، سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا۔"

کوئی ناپختہ افسانہ نگار ہوتا تو وہ اپنی کہانی کا آغاز اس اقتباس کے آخری جملے یعنی "جاڑوں کی رات تھی، فضا سناٹے میں غرق، سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا" جیسے منظر نگاری کے الفاظ سے کرتا۔ مگر پریم چند اس راز سے واقف ہیں کہ کہانی صرف منظر نگاری کا نام نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ کہانی کا سارا انحصار اس انسان یا ان انسانوں پر ہوتا ہے جو کردار کی شکل میں جیتے جاگتے اور اپنے اعمال سے اپنی شناخت کراتے ہوئے کسی کہانی میں نمودار ہوتے ہیں۔ پریم چند کہانی کے پہلے ہی جملے میں ہماری ملاقات کہانی کے کرداروں سے کرا دیتے ہیں اور بنیادی طور پر توجہ کرداروں پر مرکوز رکھتے ہیں۔ پس منظر کے طور پر اپنے منظر ناموں اور تبصروں سے کردار نگاری کو استحکام بخشتے ہیں اور کہانی کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس آہنگ کو آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے پیراگراف کے بعد باپ اور بیٹے کے درمیان ہونے والے مکالمات آتے ہیں جن سے ہمیں ان کی ذہنیت سے تھوڑی سے واقفیت حاصل ہوتی ہے اور بعد کے جملوں سے معلوم ہوتا ہے۔ بدھیا کی یہ تکلیف دو چار لمحوں کی بات نہیں بلکہ اس اذیت میں وہ سارا دن مبتلا رہی ہے۔ اس موقع پر جہاں ہمیں باپ اور بیٹے کی بے دردی اور شقاوت کا حال معلوم ہوتا ہے اسی تناسب سے بدھیا کے ساتھ ہمدردی میں کچھ اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح کہانی کار لمحہ بہ لمحہ اپنے تقابلی بیان سے ایک طرح کا اضافی تناظر فراہم کرتا اور تاثر میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ پوری کہانی میں اس بات کا التزام رکھا گیا ہے کہ کرداروں کو مرکزی حیثیت دی جائے اور ان کے ساتھ وقفہ وقفہ سے ضروری پس منظر کو سامنے لایا جائے۔ ایک آدھ جگہ کبھی ذہنی انسلاکات کے انداز میں اور کبھی یادداشت کے حوالے سے کرداروں کے ماضی کی خوشگوار یادوں اور بظاہر دو ایک غیر متعلق باتوں کا ذکر بھی آتا ہے مگر پوری کہانی کے سیاق و سباق میں یہ سب باتیں اپنی الگ معنویت بھی رکھتی ہیں۔ آگے مناسب موقعوں پر میں اس معنویت کا ذکر کروں گا۔

کہانی کا مرکزی خیال انسان کی بے ضمیری اور بے حسی ہے۔ غربت و افلاس ابتدا میں ایک آزمائش اور ابتلا بن کر آئی ہے مگر مسلسل تنگ دستی اور فاقہ کشی کا نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوتا کہ آدمی جائز و ناجائز کسی بھی طریقہ سے اپنی بھوک اور معاشی ضروریات سے نجات حاصل کرے۔ ابتداء میں اختیار کئے جانے والے ناجائز اور مذموم وسائل رفتہ رفتہ زندگی کا معمول بن جاتے ہیں۔ شروع میں ہر وہ گناہ اور غلطی پر احساس گناہ سے دوچار ہوتا ہے اور اس احساس کی دیوار پھلانگنے کی کوشش کرتا ہے مگر ایک ایسی منزل بھی بہت جلد آ جاتی ہے جہاں احساس اور ضمیر کی یہ دیوار پست ہوتے ہوتے زمین بوس ہو چکی ہوتی ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر ایسے لوگوں کا نظام اقدار سماج کے عام نظام اقدار سے خاصا مختلف ہو جاتا ہے۔ یہی وہ منزل جہاں پہنچ کر اپنے اخلاق سوز اعمال کے لئے جواز تراشا جاتا ہے اور اس کو عقلی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس منزل پر احساس، احتجاج کی صفت سے عاری اور ضمیر بیداری کے نام سے نابلد ہوتا ہے۔ اس لئے اخلاقی انحطاط کے باوجود آدمی کے لئے سکون و اطمینان سے زندگی گزارنے کا عادی ہونا کوئی غیر فطری بات نہیں رہ جاتی اور اس طرح مادی ضروریات سے شروع ہونے والا بحران ایک اخلاقی بحران میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

(ابو الکلام قاسمی کی کتاب "تخلیقی تجربہ" سے اقتباس۔ یہ کتاب دہلی سے ۱۹۸۶ میں شائع ہوئی۔)
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
 

اوشو

لائبریرین
تحریری شکل میں مراسلہ پوسٹ کرنے پر تلاش کی سہولت رہتی ہے۔
درست فرمایا۔
بہت بہت شکریہ آپ کا۔
معذرت زحمت ہوئی آپ کو۔ کوشش کروں گا آئندہ کچھ اچھا تصویری شکل میں بھی ملا تو ٹائپ کر کے ہی ارسال کروں۔
خوش رہیں
بہت جئیں
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top