پروین شاکر پروین شاکر اور ان کا منتخب کلام

خرد اعوان

محفلین
سلگ رہا ہے میرا شہر ، جل رہی ہے ہوا
یہ کیسی آگ ہے جس میں پگھل رہی ہے ہوا

یہ کون باغ میں خنجر بدست پھرتا ہے
یہ کس کے خوف سے چہرہ بدل رہی ہے ہوا

شریک ہو گئی سازش میں کس کے کہنے پر
یہ کس کے قتل پہ اب ہاتھ مل رہی ہے ہوا

پرندے سہمے ہوئے ہیں درخت خوف زدہ
یہ کس ارادے سے گھر سے نکل رہی ہے ہوا​
 

خرد اعوان

محفلین
رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں
شبِ وصال کا جیسے خمار آنکھوں میں

منا سکے گی اسے گرد ماہ و سال کہاں
کھینچی ہوئی ہے جو تصویرِ یار آنکھوں میں

بس ایک شب کی مسافت تھی اور اب تک ہے
مہ و نجوم کا سارا غبار آنکھوں میں

ہزار صاحب رخش صبا مزاج ہوئے
بسا ہوا ہے وہی شہ سوار آنکھوں میں

وہ ایک تھا کیا اس کو جب تہہ تلوار
تو بٹ گیا وہی چہرہ ہزار آنکھوں میں​
 

خرد اعوان

محفلین
جز طلب اس سے کیا نہیں ملتا
وہ جو مجھ سے ذرا نہیں ملتا

جان لینا تھا اس سے مل کے ہمیں
بخت سے تو سوا نہیں ملتا

زخم کھلنے کے منتظر کب سے
اور لمس ہوا نہیں ملتا

کس قدر بد نصیب بادل ہیں
جن کو دست دعا نہیں ملتا

میرا مسلک نہیں قصاص مگر
کیا مجھے خوں بہا نہیں ملتا

بستایں آخری دموں پر ہیں
اور حرف شفا نہیں ملتا

ایک آسیب کے مکان میں ہوں
اور رد بلا نہیں ملتا​
 

خرد اعوان

محفلین
تاروں کے لیے بہت کڑی تھی
یہ رخصت ماہ کی گھڑی تھی

ہر دل پہ ہزار نیل نکلے
دنیا کسے پھول کی چھڑی تھی

واں ڈھیر تھا پتھروں کا تیار
یاں پھول کی ایک پنکھڑی تھی

دریا میرے سامنے تھا لیکن
میں پیاس سے جاں بلب کھڑی تھی

دیکھوں گی میں آج اس کا چہرہ
کل خواب میں روشنی بڑی تھی

تھا جھوٹ امیر و تخت آرا
سچائی صلیب پر گڑی تھی​
 

خرد اعوان

محفلین
رخصت کی کسک رہی ہے اب تک
اک شام سلگ رہی ہے اب تک

شب کس نے یہاں قدم رکھا تھا
دہلیز چمک رہی ہے اب تک

ماتھے پہ وہ لب تھے ثانیہ بھر
اور روح مہک رہی ہے اب تک

دیکھا تھا یہ کس نظر سے اس نے
تصویر دمک رہی ہے اب تک

جو بات کہی نہیں تھی اس سے
لہجے میں کھنک رہی ہے اب تک

کب کا ہوا خالی ساغر شام
مے ہے کہ چھلک رہی ہے اب تک

بن عکس یہ کیسی جگمگاہٹ
شیشے سے جھلک رہی ہے اب تک

وہ چشم کہ باغ آشنا ہے
جنگل میں بھٹک رہی ہے اب تک

دونوں کے لبوں تک آتے آتے
اک بات اٹک رہی ہے اب تک

بارش کی ہے چاہ شاخ کو اور
بادل سے جھجک رہی ہے اب تک

شانوں پہ نہیں وہ ہاتھ لیکن
چادر سی سرک رہی ہے اب تک​
 

خرد اعوان

محفلین
لو چراغوں کی کل شب اضافی رہی
روشنی تیرے چہرے کی کافی رہی

اپنے انجام تک آ گئی زندگی
یہ کہانی مگر اختلافی رہی

ہے زمانہ خفا تو بجا ہے کہ میں
اس کی مرضی کے بلکل منافی رہی

ایسے محتاط ، ایسے کم آمیز سے
اک نظر بھی توجہ کی کافی رہی

صبح کیا فیصلہ حاکم تو کرے
جشن کی رات تک تو معافی رہی​
 

خرد اعوان

محفلین
آنکھوں نے کیسے خواب تراشے ہیں ان دنوں
دل پر عجیب رنگ اترتے ہیں ان دنوں

رکھ اپنے پاس اپنے مہ و مہر اے فلک
ہم خود کسی کی آنکھ کے تارے ہیں ان دنوں

دست سحر نے مانگ نکالی ہے بار ہا
اور شب نے آکے بال سنوارے ہیں ان دنوں

اس عشق نے ہمیں ہی نہیں معتدل کیا
اس کی بھی خوش مزاجی کے چرچے ہیں ان دنوں

اک خوشگوار نیند پہ حق بن گیا میرا
وہ رت جگے اس آنکھ نے کاٹے ہیں ان دنوں

وہ قحط حسن ہے کہ سبھی خوش جمال لوگ
لگتا ہے کوہ قاف پہ رہتے ہیں ان دنوں​
 

خرد اعوان

محفلین
ایک ہی ہاتھ میں سب کچھ سمٹ آیا شاید
بادشاہٹ کا زمانہ پلٹ آیا شاید

دل کو دنیا کی ضرورت ہی نہیں پڑنے دی
تیرے لشکر سے اکیلے نبٹ آیا شاید

دفن کر آئی میں جنگل میں خزانہ لیکن
سانپ سا پھر کوئی دل سے لپٹ آیا شاید

اس قدر بھیڑ تھی اس بار بھی رستے میں تیرے
کوئی چہرہ ، کسی کھڑکی سے ہٹ آیا شاید

لوٹنے والے کو پہچاننا مشکل ٹھہرا
ایک چہرہ ، کئی چہروں میں بٹ آیا شاید

کسی صورت سے ابھی سر کو بچا رکھا تھا
جنگ بے صرفہ میں لیکن وہ کٹ آیا شاید​
 

خرد اعوان

محفلین
تمھاری سالگرہ پر

یہ چاند اور یہ ابر رواں گزرتا رہے
جمال شام تہہ آسماں گزرتا رہے

بھرا رہے تیری خوشبو سے تیرا صحن چمن
بس ایک موسم عنبر فشاں گزرتا رہے

سماعتیں تیرے لہجے سے پھول چنتی رہیں
دلوں کے ساز پہ تو نغمہ خواں گزرتا رہے

خدا کرے تیری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
دیار وقت سے تو شادماں گزرتا رہے

میں تجھ کو دیکھ نہ پاؤں تو کچھ ملال نہیں
کہیں بھی ہو تو ستارہ نشاں گزرتا رہے

میں مانگتی ہوں تیری زندگی قیامت تک
ہوا کی طرح سے تو جادواں گزرتا رہے

میرا ستارہ کہیں ٹوٹ کر بکھر جائے
فلک سے تیرا خط کہکشاں گزرتا رہے

میں تیری چھاؤں میں کچھ دیر بیٹھ لوں اور پھر
تمام راستہ بے سائباں گزرتا رہے

یہ آگ مجھ کو ہمیشہ کیے رہے روشن
میرے وجود سے تو شعلہ ساں گزرتا رہے

میں تجھ کو دیکھ سکوں آخری بصارت تک
نظر کے سامنے بس اک سماں گزرتا رہے

ہمارا نام کہیں تو لکھا ہوا ہو گا
مہ و نجوم سے یہ خاکداں گزرتا رہے​
 
Top