پرویز مشرف سمیت 34 افرادپر سستی بجلی ناجائز حاصل کرنے کا الزام ثابت

فخرنوید

محفلین
pervez-musharraf.jpg

چک شہزاد فارم ہاؤس پاور اسکینڈل کا معاملہ علی بابا چالیس چور کا بن گیا ہے کیونکہ معاملے کی تفتیش سے علاقے کے طاقتور لوگوں کی جانب سے رعایتی ٹیرف کی غلط درخواستوں کے 34 کیسز اور بجلی کی چوری اور میٹر کی خرابی کے مزید 14 واقعات کا پتہ چلا ہے۔ اسلام آباد الیکٹرک پاور کمپنی کے ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ خود ساختہ مسٹر کلین اور سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بھی ثابت ہو گیا ہے کہ وہ سستے ترین زراعتی پاور ٹیرف کا غلط استعمال کرتے رہے ہیں۔ انکوائری نے سفارش کی ہے کہ بجلی چوری کرنے والے تمام لوگوں اور وہ جو غلط ٹیرف کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ جنرل پرویز کے معاملے میں انکوائری نے آئی ای ایس سی او سے کہا ہے کہ وہ پکڑے جانے والے شخص سے 4 لاکھ 80 ہزار روپے وصول کرے، وہ شخص جو 9 برس تک ملک پر حکومت کرتا رہا اور بالآخر اسے عوامی طاقت کی قوت سے اقتدار کی راہداریوں سے نکال باہر کیا گیا۔ انکوائری رپورٹ پہلے ہی پیپکو کے ایم ڈی طاہر بشارت چیمہ کو دی جا چکی ہے جنہوں نے دی نیوز کی جانب سے پاور اسکینڈل بے نقاب کرنے کے بعد معاملے کی مکمل تفتیش کا حکم دیا تھا۔ انکوائری کے مطابق، جس میں چک شہزاد کے فارم ہاؤسز کے 522 کنکشنز کا احاطہ کیا گیا ہے، کل 32 رہائشی بشمول جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اپنے فائدے کیلئے زرعی اور ٹیوب ویل ٹیرف کا غلط استعمال کرنے میں ملوث پائے گئے۔ تمام معاملات میں یہ بااثر افراد A-1(a) یا (b) ٹیرف جو گھریلو صارفین کیلئے ہوتا ہے استعمال کرنے کی بجائے D-2(1) ٹیرف استعمال کر رہے تھے جو سب سے کم قیمت اور سبسڈی پر لیکن انتہائی سختی کے ساتھ صرف زرعی استعمال کیلئے ہوتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ انکوائری نے 14 بجلی چوری اور خراب میٹر کے معاملے بھی پکڑے ہیں۔ بجلی کی چوری کہیں زیادہ سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے لیکن حکام کو اس بات کا تعین کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے کہ آیا خراب میٹرز میں از خود نقص پیدا ہوگیا تھا یا انہیں آئی ای ایس سی او حکام کی معاونت سے رہائشیوں نے گڑبڑ کر کے خراب کیا تھا۔ یہ بات دلچسپی سے نوٹ کرنے کی ہے کہ اقتدار سے بیدخل کئے جانے والے سابق آمر نے اپنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اس نمائندے پر ” منفی “ ہونے کا الزام عائد کیا تھا اور مسٹر کلین ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کسی سے بھی سستے پاور ٹیرف دینے کیلئے نہیں کہا تھا اور اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ جو کچھ چارج کیا گیا تھا وہ انہوں نے ادا کردیا ہے۔آئی ای ایس سی او نے بھی اپنے ابتدائی ردعمل میں دی نیوز کی خبر کی تردید کی تھی لیکن جب پیپکو نے بھی دی نیوز کی رپورٹ پر سنجیدگی سے نوٹس لیا تو اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کو اپنا الزام واپس لینا پڑا۔ پیپکو کی مداخلت کے بعد قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے پانی و بجلی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی معاملہ اٹھایا تھا اور اکاؤنٹس سے رپورٹ طلب کی تھی۔ توقع ہے کہ پیپکو ان پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے تفتیش کے نتائج پیش کریگی اور یہ توقع ہے کہ مستقبل قریب میں اسے عوام کیلئے جاری کیا جائیگا۔

بشکریہ: وائس آف پاکستان
 
Top