پروفیسر وقاص شریف المتخلص کاشی

سید عمران ،
@گل یاسمیں
سیما علی
وقار علی ذگر
اے نسیم سحر آرامگہ یار کجا ست
منزل آں مہ عاشق کش عیار کجا ست


پروفیسر وقاص شریف المتخلص کاشی صاحب سے راقم کی ملاقات غالبا 2013 میں سینٹ فرانسس ڈگری کالج سرائے عالمگیر میں علم العروض سیکھنے کے حوالے سے ہوئی تھی۔

ایک دن میں نے چند اشعار کہے اور اصلاح کے لیے اپنے استاد مخترم جناب راجہ شاہد اقبال صاحب کی خدمت میں پیش کیے، جو اس وقت ہمارے انگریزی کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب، تاریخ اور قرآن و حدیث کے حوالے سے بھی ہماری رہنمائی کیا کرتے تھے بلکہ یہ کہنہ بجا ہو گا کہ راقم کے دل میں حارس عقل و شرع، عارف اصل و فرع، شاعر ہفت زباں سیدی و مرشدی علامہ غلام نصیر الدین نصیر گیلانی قدس سرہ السامی کے بعد اگر کسی نے عربی و فارسی اور اردو ادب کی شمع روشن کی ہے تو وہ بلا شک و شبہ جناب محترم راجہ شاہد اقبال صاحب کی ہی شخصیت ہے اور پھر شاعر بالذات، نابغہ روزگار، استاد الشعرا سید انصر شاہ صاحب دامت برکاتم عالیہ نے طائر تخیل کو نہ صرف پروان چڑھایا بلکہ باد مخالف میں اڑنا بھی سکھایا۔ بقول اقبال

کیمیا پیدا کن از مشت گلے
بوسہ زن بر آستان کاملے

اور کسی شاعر نے بہت خوبصورت الفاظ میں اظہار خیال کیا ہے کہ

خود سے چل کر نہیں یہ طرز سخن آیا ہے
پائوں استادوں کے دابے ہیں تو فن آیا ہے

شاہد صاحب اشعار دیکھ کر کہنے لگے کہ بہتر ہے آپ کالج میں وقاص شریف کاشی صاحب کے پاس جائیں وہ ایم فل اقبالیات ہونے کے ساتھ ساتھ فن شاعری میں بھی غیر معمولی دسترس رکھتے ہیں۔

اتفاقا دو چار روز ان کی کچھ مصروفیات کے باعث ملاقات نہ ہونے پائی اور پھر اچانک ایک دن میری نظر ان پر پڑی تو میں نے انھیں روک لیا اور ان سے اصلاح کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے اشعار دیکھے اور مجھے کہنے لگے کہ یہ شاعری نہیں ہے بلکہ صرف الفاظ ہیں اگر تم صحیح معنوں میں شاعری کرنا چاہتے ہو اور اپنی ایک پہچان بنانا چاہتے ہو تو تمہارے لیے فقط علم العروض پر عبور ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ساتھ ساتھ اساتذہ سخن کا بھی مطالعہ ضروری ہے۔

میں نے بھی ان سے کہہ دیا کہ پھر مجھے اپنی شاگردی میں لے لیں تو کہنے لگے کہ یہ اتنا بھی آسان نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو ہاں البتہ مجھ سے جتنا ہوسکا میں تمہاری اتنی رہنمائی کرتا رہوں گا اور انھوں نے کالج کے باہر ایک جگہ اور وقت متعین کر دیا جہاں پر مجھے نہ صرف وقاص شریف صاحب بلکہ مخترم اشتیاق احمد صاحب، پروفیسر رفاقت حسین صاحب کے ساتھ ساتھ کئیں نابغہ روزگار شخصیات سے نشست کا موقع ملا اور ان کی گفتگو اور بحث و مباحثہ سے ہر روز میرے ذہن کے بند دریچے کھلتے چلے گئے۔

بعد ازاں وقاص شریف کاشی صاحب سے ایک خاص قربت پیدا ہو گئی اور ہماری نشستیں طویل ہونے لگیں، یہاں تک کہ آپ کے شعری مجموعہ "ساز دل" کی کمپوزنگ اور اشاعت اور شرخ جاوید نامہ کے وقت بھی ہم اکثر و بیشتر اکھٹے رہتے اور اساتذہ سخن کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر گفت و شنید کرتے۔

جب آپ کا شعری مجموعہ ساز دل زیور طبع سے آرستہ ہوا تو آپ میرے غریب خانے پر آئے اور اپنے ہاتھوں سے مجھے اپنا شعری مجموعہ دیتے ہوئے کہنے لگے کہ میں نے صرف چند احباب کو اپنی کتاب ہدیہ کی ہے۔

وقاص شریف کاشی صاحب کا آبائی گائوں گجرات تھا لیکن ایک طویل عرصہ سے نصیرہ کھاڑیاں کینٹ میں مقیم تھے۔ جب ہماری ملاقات ہوئی تو اس وقت آپ سینٹ فرانسس ڈگری کالج سرائے عالمگیر میں ادبی خدمات سر انجام دے رہے تھے اور بعد ازاں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اردو گورنمنٹ کالج سرائے عالمگیر میں تعینات ہو گئے۔

وقاص شریف کاشی صاحب کو اردو ادب اور اقبالیات کے ساتھ ساتھ فارسی زبان و ادب کے ساتھ بھی غیر معمولی لگائو تھا یہاں تک کہ حافظ و رومی اور غالب و اقبال کے فارسی اشعار سے آپ گفتگو میں روح پھونک دیتے اور شاید اسی لیے آپ مجھ کو بھی وقتا فوقتا باقاعدہ فارسی زبان سیکھنے کا مشورہ دیتے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے مجھ سے "رنگ نظام" پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی کی اردو رباعیات کا مجموعہ منگوایا۔ جب میں نے آپ کو کتاب پیش کی تو اس وقت میرے ہاتھ میں چند دیگر کتابیں بھی تھیں، جن میں سلطان الرباعیات ابو سعید ابوالخير کی فارسی رباعیات کا مجموعہ بھی شامل تھا۔ آپ نے جب وہ کتاب دیکھی تو مجھے کہنے لگے یار یہ کتاب "رنگ نظام" تم رکھ لو اور یہ رباعیات سلطان ابو سعید ابوالخير مجھے دے دو۔ اگلے ہی روز جب ہماری نشست ہوئی تو انھیں نہ صرف بہت سی رباعیات یاد تھیں بلکہ انھوں نے کئیں رباعیات پر زبان و بیان کے لحاظ سے سیر حاصل گفتگو بھی کی۔ سلطان ابو سعید ابوالخير کی ایک رباعی پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یار اس رباعی نے تمام شب مجھے سونے نہیں دیا۔

رفتم بہ طبیب و گفتم از درد نہاں
گفتا کہ ز غیر دوست بر بند زباں
گفتم کہ غذا؟ گفت ہمیں خون جگر
گفتم ز چہ پرہیز؟ گفت از ہر دو جہاں

(میں طبیب کے پاس گیا اور اسے کہا کہ درد نہاں تو اس نے کہا کہ دوست کے سوا اپنی زبان بند رکھ۔ میں نے پوچھا غذا تو اس نے کہا یہی خون جگر اور میں نے پوچھا کہ پرہیز کیا ہے تو اس نے کہا کہ دونوں جہاں سے)۔

یوں تو سبھی اساتذہ سخن کی تعریف کیا کرتے تھے لیکن جب بات غالب کی آتی تو کہتے کہ اردو میں غالب کے سوا کوئی شاعر ہی نہیں۔ اور پھر غالب کے کئیں اشعار سناتے اور اکثر غالب کا یہ شعر پڑھتے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

شعر پڑھنے کے بعد گھنٹوں آپ پر ایک کیفیت سی طاری رہتی۔

آپ شاعر و ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ فقر سرشت بھی تھے اور عام طور پر خاموش رہتے۔ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ یار مجھے اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں محو خواب ہوں اور جب آنکھ کھلے گی تو مخشر میں ہوں گا۔

عقیدہ وحدت الوجود کے متعلق آپ کا نکتہ نظر الگ ہی تھا اور شیخ ابن العربی کے متعلق کہتے کہ ابن العربی نے ایک ایسی چیز سے انسان کو متعارف کروایا ہے، جسے سمجھنا سہل نہیں۔

اہل بیت اطہار علیھم السلام کی مودت سے آپ کا دل سرشار تھا۔ جب بھی آئمہ اثنائے عشریہ کا ذکر خیر کرتے تو آپ کی آنکھیں نم ہو جاتی۔

آپ خوب رو، خوش مزاج، سرو قد ہونے کے ساتھ ساتھ خوش الحان بھی تھے۔ آپ ایک ایسی زندہ دل شخصیت تھے کہ جو بھی آپ سے ملتا وہ آپ کے حلقہ یاراں میں شامل ہو جاتا۔ میں نے آپ کو ہمیشہ غمگیں ہونے کے باوجود مسکراتے ہوئے دیکھا ہے بلکہ یوں کہنہ بجا ہو گا کہ آپ کیفیت غم میں بھی ظریفانہ طبیعت کے مالک تھے اور اکثر مزاح میں بھی شاعری کی طرح آپ کی اپنی ہی ذات نشانہ ہوتی۔ دوران مزاح کوئی بھی آپ کو مات دینے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ گفتگو میں ہمیشہ شائستگی برتتے اور اکثر کہتے کہ ہر ایک معاملہ میں ہمیں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ آپ کہتے تھے کہ ایک شاعر الفاظ کے معانی و مفاہیم میں اضافہ کرتا ہے۔ اور کہتے کہ یار ادب کے ساتھ تعلق جسم کا نہیں بلکہ روح کا ہونا چاہیے۔

سگریٹ اور چائے کو آپ کی زندگی میں ایسی اہمیت حاصل تھی، جیسے روح کو جسم میں۔ ایک مرتبہ افطار کے بعد جناب کو پان کھانے کی دعوت دی تو کہنے لگے میں نے کبھی کھایا تو نہیں البتہ اگر تم اصرار کرتے ہو تو میں کھا لیتا ہوں۔

مٹ گئے اب تو نقش تیری یاد کے
آخری ہچکی لی تیرے بیمار نے

2015ء میں میرے ملائشیا مقیم ہونے کے بعد بھی گاہ بہ گاہ فون پر ہمارا رابطہ رہتا اور 2022ء میں وطن واپسی پر ہم نے ملاقات کے لیے استاد محترم سید انصر صاحب کے ہاں ایک نشست کا انعقاد کیا لیکن کاتب تقدیر کو شاید ہمارا ملنا منظور نہ تھا کہ 11 نومبر 2022ء کی صبح ہارٹ اٹیک کے باعث آپ کا ظاہری سفر حیات تمام ہوا اور آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے آب و گل کو خیر آباد کہہ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔


میر انیس نے مرزا غالب دہلوی کی رحلت پر ایک رباعی کہی تھی کہ

گلزار جہاں سے باغ جنت میں گئے
مرحوم ہوئے جوار رحمت میں گئے
مداح علی کا مرتبہ اعلا ہے
غالب اسد اللہ کی خدمت میں گئے

اللہ رب العزت آپ کے درجات بلند فرمائے اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کی مودت کے طفیل اپنی اور حضور ختمی مرتبت جناب رسالت مآب علیہ الصلوة والسلام کی زیارت و شفاعت عطا فرمائے۔ آمین







آپ کے شعری مجموعہ "ساز دل" سے کچھ انتخاب باذوق قارئین کی نذر ہے۔

☆☆☆

لمحہ لمحہ گلاب بنتا ہے
کیا کہوں، بے حساب بنتا ہے

سارے الفاظ جان دیتے ہیں
ایک ذکر جناب بنتا ہے

فکر تشکیل دیتی ہے جنت
فکر سے ہی عذاب بنتا ہے

جب سے سمجھا گناہ کو کاشی
لمحہ لمحہ ثواب بنتا ہے






☆☆☆

کون کتنا اداس ہوتا ہے
اپنا اپنا قیاس ہوتا ہے

کب کہیں آنا جانا ہے اس کا
میرا غم میرے پاس ہوتا ہے

ساتھ جب تک رہے حب دنیا
دل میں خوف و ہراس ہوتا ہے




☆☆☆

موت جب زندگی کی محافظ بنی
تو کھڑے تھے وہاں کشمکش اور میں

دیکھ کر خواب میں ہی رخ مصطفی
ہو گئے جاوداں کشمکش اور میں

☆☆☆

دیکھنا میں بھی گم نہ ہو جائوں
سسکتی ہوئی التجائوں میں

زندگی، زندگی وہی کاشی
جو کٹے عشق کی سزائوں میں

☆☆☆

مجھ میں کتنے جہان ہیں، جو نظر
سامنے بار بار لاتی ہے

سوچ کی طاقتیں ذرا دیکھو
عرش سارا اتار لاتی ہے

☆☆☆

جب دل لگی، دل کو لگی، دل کا لگانا آ گیا
من کی رہے، من میں دبی، من کا لبھانا آ گیا

وہ دشمن جاں، جاں بنا، اب تو ہوئی ہے فکر جاں
جاں کی کہوں، جاں سے سنوں، جاں کا لٹانا آ گیا


☆☆☆

چلے تیر جب بھی مشیت کے سارے
فقط ذات میری نشانہ بنی ہے

یہ کیسی ہے منزل، یہ پہنچا کہاں میں
بنی بات جو، تازیانہ بنی ہے

☆☆☆

جو اپنا خلیفہ ہے مجھے اس نے بنایا
ہر چیز عیاں کر کے وہ رکھتا میرے آگے

ممکن ہے سمجھ لوں میں تیرا راز روانی
اے دریا ذرا زور سے بہنا میرے آگے


☆☆☆

دیکھنا کیمیا گری گل کی
جب کبھی آنکھ کھل گئی دل کی

رکھ دے خون جگر چراغوں میں
راستے خود خبر دیں منزل کی

☆☆☆

حقائق میں حقیقت ڈھونڈنا ہے
نئی ہی اک مصیبت ڈھونڈنا ہے

عنادل سے صبا کہتی پھرے ہے
گلوں کو کب، نزاکت ڈھونڈنا ہے


☆☆☆

کیا ہی دن گزرے غفلت میں
نیکی بھی کی تو حسرت میں

دل کی باتیں وہ کیا سمجھے
گم ہے جو اپنی نخوت میں

☆☆☆

میسر اگر فکر کی ہے لطافت
فلک بھی تمہارے لیے پھر زمیں ہے

یہی گفتگو کر رہے تھے درندے
کوئی رسم انساں یہاں نہ کہیں ہے





☆☆☆

انا کے ہاتھ میں مجبور ہیں ہم
نہیں تو آپ اپنے طور ہیں ہم

پڑا ہے روز خود کو بتانا
کہاں اس کی نظر سے دور ہیں ہم






☆☆☆

ذات میری میں ہیں چھپے بیٹھے
اور مجھ پر عیاں نہیں ہوتے

☆☆☆

زندگی کی حقیقت نہیں اور کچھ بھی
ابتدا، درمیاں، انتہا، آزمائش
☆☆☆

مل سکا نہ سراغ اپنا تو
پھر کہاں وسعت جہاں سمجھوں




☆☆☆

ہر کسی سے ملوں اک نئے روپ میں
میں منافق نہیں لوگ ہیں مختلف

☆☆☆

راستے زندگی کے بڑے گنجلک
مدتوں دیکھتا ہوں ہر گام کو

☆☆☆

دیکھو! کب پکتی ہیں آہیں
غم کی کھیتی بونا چاہوں



☆☆☆

مجھ کو مجھ میں چھپا دیا تو نے
کیا تماشا بنا دیا تو نے

☆☆☆

مٹ گئے اب تو نقش تیری یاد کے
آخری ہچکی لی تیرے بیمار نے

☆☆☆

لیے درد سب مسکراتے ہمیشہ
رہی ہے یہ عادت پرانی ہماری



☆☆☆

عمل سے تعلق ضروری ہے کاشی
نہیں کام چلتے زبانی زبانی

☆☆☆

محبت کی نگاہوں میں نہ کچھ معیوب ہوتا ہے
جہاں محبوب ہوتا ہے، وہاں سب خوب ہوتا ہے

☆☆☆

دل ناداں کا تیری یاد اکلوتا وظیفہ ہے
خیال اپنا نہیں اپنا، فقط تیرا خلیفہ ہے


☆☆☆

زمانے سے دل تو لگا ہی نہیں ہے
کہاں دل یہ اپنا لگانے چلا ہوں
گزارہ نہیں ہے ہمارا تمہارا
تمنا کو اب میں بتانے چلا ہوں

☆☆☆

گل کھلیں ہیں بہار آنے سے
دیکھنے ہم چلے، بہانے سے
دور ہوں کیسے، رنجشیں یارب!
روٹھتے ہیں مرے منانے سے

☆☆☆

ہمارے پاس رونا رہ گیا ہے
فقط آنکھوں کو دھونا رہ گیا ہے
ہوئی مدت کہ اپنا آپ کھویا
کہیں کچھ اور کھونا رہ گیا ہے


☆☆☆

کہاں میں زندگی تجھ کو ملا تھا
کہاں کس حال میں کس جا کھڑا تھا
تجھے مجھ سے محبت بھی ہوئی تھی
یا مجبورا ہی اپنانا پڑا تھا
 
Top