پروفیسر فتح محمد ملک کے مضمون" علامہ اقبال اور آج کی عرب دنیا " مطبوعہ تحقیقی مجلہ معیار ۸ سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
پروفیسر فتح محمد ملک کے مضمون" علامہ اقبال اور آج کی عرب دنیا " مطبوعہ تحقیقی مجلہ معیار ۸ سے اقتباس​
یوں محسوس ہوتا ہے کہ پروفیسر البوتی نے آج سے اُنتالیس(39) برس پیشتر مسلمان نوجوانوں کو اقبال کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی جو صدا دی تھی اُس صدائے دِل نے بالآخر اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ آج کی عرب دُنیا اپنے سلاطین و ملوک تک اقبال کا جمہوری انقلابی پیغام پہنچانے میں مصروف ہے۔ آج سے پون صدی پیشتر اقبال نے اپنی ایک مختصر نظم میں عرب سلاطین و شیوخ کو اسلام کی حقیقی روح کی جانب یوں متوجہ کیا تھا​
کرے یہ کافر ہندی بھی جُرأت گفتار​
اگر نہ ہو اُمرائے عرب کی بے ادبی​
یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس اُمت کو؟​
وصال مُصطفویؐ، افتراق بُولہبی​
نہیں وجود حدود و ثُغُور سے اس کا​
محمدِؐ عربی سے ہے عالمِ عربی​
(اُمرائے عرب سے)​
آج کی المناک ترین حقیقت یہ ہے کہ عرب حکمران طبقہ سیاسی نظریہ و عمل کے اعتبار سے محمد مصطفی ؐ کے صراطِ مستقیم سے بھٹک کر ابولہب کی پیروی میں مصروف ہے۔اِس بھیانک حقیقت نے اقبال کو ہمیشہ اضطراب میں مبتلا رکھا تھا۔اپنی اِس مقدس بے چینی کو اقبال نِت نئے پیرائے میں بیان کرتے رہے ۔کبھی فریاد کرتے ہیں کہ دُنیائے اسلام میں​
ع:’ مصطفی نایاب و ارزاں بولہب‘ تو کبھی​
ع:’مصطفی از کعبہ ہجرت کرد بااُمُّ الکتاب۔۔۔انقلاب ! انقلاب! اے انقلاب!!‘​
کی صدائے دردناک بُلند کرتے ہوئے اُس باطنی روحانی انقلاب کی تمنّا کرتے ہیں جو دُنیائے انسانیت کی خارجی زندگی کو انقلاب آشنا کر کے بھرپور ثروت مندی بخش سکے۔آج کی عرب بیداری سے ذہن قدرتی طور پر اقبال کے فیضان کی جانب متوجہ ہوتا ہے ۔ اقبال کی اُمیدیں اور اقبال کے اندیشے عصری معنویت کا رُوپ دھارنے لگتے ہیں۔اقبال کی اُمیدوں کا خیال کرتا ہوں تویہ دیکھ کر مسرور ہو جاتا ہوں کہ آج کے مصر کی سیاسی جنگاہ میں اخوان المسلمون اور اشتراکی مسلمان رقابت کے بجائے رفاقت کی راہِ عمل اپناتے دکھائی دیتے ہیں:​
The most unpredictable variable in the race is his leading challenger, Abdel Moneim Aboul Fotouh, a former leader of the Muslim Brotherhood whose inconoclastic campaign is now attracting the support not only of young Islamists but also of a growing number of liberals, like Rabab el-Mahdi. "I felt Egypt needs to hear the core ideas of the left, but through an Islamist voice so it does not sound so alien," said Ms. Mahdi, 37, a Marxist and feminist who taught political science at yale before joining the campaign."انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبون بابت ۱۵ مارچ ۲۱۰۲
آج جہاں مارکسزم اور سوشلزم کی یہ اسلامی تعبیریں اُمید افزا ہیں وہاں مغرب کے سامراج نواز اور استبداد دوست نظریہ سازوں کی نئی حکمت عملی ہمیں اقبال کے پیغام کی نئی معنویت کی جانب متوجہ کرتی ہے۔چنانچہ لبیا میں عرب بہار (Arab Spring)کو عرب خزاں میں بدل کر رکھ دینے کی ذمہ داری نیٹو (NATO) ممالک کوسونپ دی گئی ہے جو بعض ممالک کی حکومتوں کے تعاون کے ساتھ تخریب کاری میں مصروف ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہنری کسنجرنے اپنے مضمون بعنوان "Defining a U. S. role in the Arab Spring" میں آج کی عرب بیداری کو امریکہ کے نیشنل سیکیورٹی تصورات کے تناظر میں سمجھنے سمجھانے کا درس دیا ہے۔ یاد رہے کہ کسنجر کے ہاں آغازِ کار ہی سے امریکی نیشنل سیکیورٹی تصورات اسرائیل کے حفظ و امان کی حکمت عملی سے عبارت چلے آرہے ہیں۔ اُن کی پریشانی ایک قدرتی امر ہے۔آج کی عرب بیداری نے اسرائیل کی سرحدوں کو غیر مستحکم اور غیر محفوظ بنا کر رکھ دیا ہے۔ چنانچہ اُن کے خیال میں آج کی عرب بیداری کسی لبرل ڈیموکریٹک انقلاب کا پیش خیمہ ہر گز نہیں۔اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں فرماتے ہیں​
"The Arab Spring is widely presented as a regional, youth-led revolution on behalf of liberal democratic principles. Yet Libya is not ruled by such forces; it hardly continues as a state. Nor is Egypt, whose electoral majority is overwhelmingly Islamist; nor do democrats seem to predominate in the Syrian opposition." انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبون بابت۲ اپریل ۲۱۰۲
ہنری کسنجر کو یہ تسلیم کرنے میں تامل ہے کہ آج کی عرب بیداری کا سرچشمہ آزادی ، انسان دوستی اورسلطانئِ جمہور کے ابدی اصول ہیں۔اُن کے اس تامل کی وجہ یہ ہے کہ بیداری اور تبدیلی کی اس ہمہ گیر تحریک کی قیادت Islamistکے ہاتھ میں ہے۔اسلامسٹ کس چڑیا کا نام ہے؟ معلوم نہیں !مجھے تو فقط اتنا علم ہے کہ جس خطۂ زمین پر آباد انسانوں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہو وہاں سیاسی قیادت بھی اُنہی کے ہاتھ میں ہو گی۔ہنری کسنجرمسلمانوں کی بالادستی سے اس لیے خائف ہیں کہ یہ امریکی بالادستی کے مروّجہ نظام کو معرضِ خطر میں ڈال سکتی ہے۔کسنجر اپنے اس مضمون کو درج ذیل سطور پر ختم کرتے ہیں:​
"U.S. policy will, in the end, also be judged by whether what emerges from the Arab Spring improves the reformed states' responsibility toward the international order and humane institutions. ." انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبون بابت۲ اپریل ۲۱۰۲
دُنیائے عرب کی اِس بیداری کے سیاق و سباق میں امریکہ کے کردار کوامریکی مفادات کے پیشِ نظرنئے سِرے سے متعین کرنے کی خاطر ہنری کسنجر نے عربوں کی وحدت کو پارہ پارہ کردینے کے لیے فرقہ واریت کا صدیوں پُرانا نسخہ آزمانے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ اِس سلسلے میں انہوں نے شام کے مسلمانوں کوشیعہ اور سُنّی دومتحارب گروہوں میں بانٹنے کی پُرانی حکمتِ عملی کی افادیت بھی اُجاگر کی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہنری کسنجر دُنیا میں امریکی بالادستی کا خواب منتشر ہو کر رہ جانے کے اندیشوں میں مبتلا ہیں۔درحقیقت اُنہیں امریکہ سے زیادہ اسرائیل کے مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ یہ حقیقت اُن کے لیے واقعتا پریشان کن ہے کہ آج مصر کے عام انتخابات میں سرگرمِ عمل سیاستدانوں نے اسرائیل مخالف آوازیں بلند کرنی شروع کر دی ہیں۔ اِس کی ایک نمایاں مثال سلفی مسلک پر قائم مقبولِ عوام صدارتی امیدوارحازم صالح ابواسمٰعیل کا یہ مطالبہ ہے کہ مصر، اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کر دے اور ایران کے ساتھ اخوّت و محبت کی راہوں پر گرم جوشی کے ساتھ گامزن ہو جائے۔اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کے خلاف یورپ میں اُٹھنے والی آواز اس پر مستزاد ہے۔یہ بلند آہنگ آواز نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب اور شاعر گُنترگراس کی ہے۔اُس کی تازہ نظم۱۱ ایک ایسی صدائے احتجاج ہے جس نے پورے یورپ کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ "​
 
Top