پروفیسر انور مسعود سے ایک انٹر ویو:: محمد یعقوب آسی

پروفیسر انور مسعود سے ایک غیر رسمی انٹرویو​
گورنمنٹ کالج (لائبریری) سٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی ۱۳ جنوری ۰۹۹۱ءصبح دس بجے​
مصنف جناب محمد یعقوب آسی صاحب کی خصوصی اجازت سے محفل پر پیش کیا جارہا ہے


انٹرویو پینل : محمد یعقوب آسی ، محمد احمد، محمد یوسف ثانی، آفتاب رانا​
﴾﴿​
نوٹ: یہ انٹرویو آڈیو کیسٹ پر ریکارڈ کیا گیاتھا اور اس کا خلاصہ یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ، ٹیکسلا کے سالانہ مجلہ ”شاہِین“ (مئی ۔1991ء) میں شائع ہوا، جسے آفتاب رانا نے لکھا تھا۔ حلقہٗ تخلیق ِ ادب ٹیکسلا کے ماہانہ خبرنامہ”کاوش“ کے قارئین کے لئے محمد یعقوب آسی بھائی نے اسے آڈیوکیسٹ سن کر دوبارہ لکھا ۔ یہ انٹرویو کاوش میں (فروری 1991ءسے مئی 1991ءتک) سلسلہ وار شائع ہوا۔​

﴾﴿​
پروفیسر انور مسعود کا نام اردو اور پنجابی مزاحیہ ادب میں ایک حوالے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔نہ صرف آپ کے قطعات زبان زدِ عام ہیں بلکہ طویل پنجابی نظمیں ”انار کلی دیاں شاناں“ ”جہلم دے پُل تے“ ”اج کی پکائیے “اور ”تندور تے“خواص اور عوام میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ پروفیسر صاحب کی مادری زبان پنجابی ہے جب کہ آپ کی خاتونِ خانہ کا تعلق اتر پردیش کے ایک اردو بولنے والے خاندان سے ہے۔آپ نے اردو، پنجابی اور فارسی میں شاعری کی ہے۔ طنز و مزاح میں آپ کے کلام کو بلا مبالغہ سند کا درجہ حاصل ہے۔ پروفیسر صاحب کا بات کرنے کا انداز کچھ ایسا ہے کہ وہ ایک بات کرتے کرتے دوسری بات شروع کر دیتے ہیں اور پھر پہلی بات کی طرف واپس آتے ہیں۔ اس طرح سامع کی دل چسپی تو قائم رہتی ہے تاہم بعض مقامات پر قاری کو الجھن ہو سکتی ہے۔ آپ گفتگو کے دوران اردو، پنجابی، انگریزی، فارسی تمام زبانیں اس روانی سے آپس میں ملا دیتے ہیں کہ کہ فوری طور پر اس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا اور کسی طرح کی اجنبیت بھی پیدا نہیں ہوتی۔ انٹرویو سے پہلے آپ سے غیر رسمی بات چیت ہو رہی تھی کہ آفتاب رانا نے ایک سوال کر کے باقاعدہ انٹرویو کا آغاز کر دیا۔ اس طرح یہ انٹرویو کسی تمہیدی تقریر یا رسمی تعارف کے بغیر شروع ہو گیا۔​
﴾﴿​
آفتاب رانا: یہ جو شاعری ہوتی ہے، اس کا موضوع بڑا وسیع ہوتا ہے اور وہ جو اقبال نے یا غالب نے شاعری کی ہے، اور اقبال نے کہا ہے کہ​
ع سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں​
اب یہ دیرینہ مسئلہ ہے کہ کائنات حرکت میں ہے یا غیر حرکت میں۔ اس مسئلے کو موضوع بنایا ہے انہوں نے شاعری میں۔ توکیا مزاحیہ شاعر جو ہے، وہ اس طرح کے بڑے بڑے مسئلوں کو ڈِس کَسdiscuss کر سکتا ہے؟​
پروفیسر انور مسعود: بڑا اچھا سوال ہے آپ کا، یہی سب کہا کرتے ہیں۔ انٹرویو دینے والا یہی کہا کرتا ہے، بڑا اچھا سوال ہے آپ کا پہلے ہم لفظ مزاح پر بات کرتے ہیں۔ اس میں ایک نقطہ ڈال دیجئے ۔​
محمد یعقوب آسی: مزاج​
پروفیسر انور مسعود:ہاں، مزاج ۔ بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے سوال کے اندر ہی جواب چھپا ہوتا ہے، وہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ اب جیسے آپ نے مزاج کہہ دیا تو یہ بات مزاج کی بن گئی۔ ہر وہ شخص مزاح نگار ہے جس کے اندر مزاح موجود ہے، مزاج ہے جس کا! دیکھیں دنیا میں کہاں شاعری نہیں ہے! ساری دنیا میں شاعری پھیلی ہوئی ہے، یہاں تک کہ دیکھئے نالی میں پانی جا رہا ہے۔ اب یہ کوئی موضوع تو نہیں ہے۔ نالی میں گندا پانی جا رہا ہے اور ایک آدمی اس میں جھاڑو دے رہا ہے، یہ کوئی ٹارگٹ target نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کی نظر شاعرانہ ہے، آپ کے پیچھے مجید امجد ہے تو، وہ کہتا ہے کہ:​
گلی کے موڑ پر نالی میں پانی​
تڑپتا تلملاتا جا رہا ہے​
زدِ جاروب کھاتا جا رہا ہے​
وہی مجبوریٗ افتادِ مقصد​

جو اُس کی کاہشِ رفتار میں ہے​
مرے ہر گامِ نا ہموار میں ہے​
تو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نظر اگر شاعرانہ ہے تو ہر جگہ شاعری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کا مزاج مزاحیہ ہے تو ہر جگہ مزاح موجود ہے۔ دنیا کے بڑے مسائل میں بھی مزاح موجود ہے۔ آپ زندگی میں کوئی ناہمواری دیکھتے ہیں، کوئی ایسی چیز جو اپنی صحت سے ہٹی ہوئی ہے، صراطِ مسقیم سے بھٹک گئی ہے، تو وہاں، وہ ایک مزاحیہ سیچوایشن situation ہے۔ مثلاً یہ دیکھئے، ہمارے ہاں سنجیدہ ترین صنف جو ہے ادب کی، وہ ہے غزل۔ اس میں مزاح موجود ہے۔ غزل میں مزاح موجود ہے! اقبال جیسا سنجیدہ شاعر جو ہے، بانگِ درا میں اس کا مزاحیہ حصہ موجود ہے۔ عالی صاحب رات دوہے پڑھ رہے تھے، وہ کیا کہہ گئی کہ ، بھیّا کہہ گئی نار​
چھَیلابن کے نکلے تھے اور بھیّا کہہ گئی نار​
اس میں مزاح موجود ہے مزاح ہر جگہ موجود ہے اس کے ساتھ ساتھ دیکھئے، اکبر الٰہ آبادی نے کوئی غیر سنجیدہ مضامین چھیڑے ہیں؟ تہذیب اور یورپ Europe ، یورپ کی تہذیب سے اسے ایک نفرت ہے۔ اسے اپنی قدریں عزیز ہیں، یہ کتنا بڑا المیہ ہے، کتنا بڑا مسئلہ ہے اور اُس نے اِس کوچھیڑا ہے۔ تو، میں سمجھتا ہوں کہ مزاج ہونا چاہئے اور پھر آدمی ہر بات اس رنگ میں کہہ سکتا ہے​
ع ڈاروِن بولا بُوزنہ ہوں میں​
ہیں جی! تو یہ جو ہے ارتقاءکا مسئلہ، مزاح میں آیا ہے۔ کتنا دیرینہ اوراہم مسئلہ ہے ڈاروِن Darwin کا! دیرینہ مسئلہ اس لئے کہ اسے رومی نے بھی چھیڑا ہے۔ رومی نے تو اس سے بہت پہلے کہہ دیا ہے بلکہ بہت سے ایسے مسئلے ہیں جو آئن سٹائن Ein Stein نے بیان کئے ہیں یا نیوٹن Newton نے بیان کئے ہیں رومی کے ہاں وہ ہمیں ملتے ہیں۔ بات اصل میں مزاج کی ہے۔ مثلاً اقبال کتنی بڑی بات ہے، انسان پر طنز کر رہا ہے۔ کہتا ہے کہ شیطان خدا کے پاس گیا اور اس نے شکایت کی:​
اے خداوندِ صواب و ناصواب​
من شدم از صحبتِ آدم خراب​
اے اچھائی اور برائی کے خدا! میں تے چنگا بھلا ہوندا ساں ، مینوں تے ایس بندے دی صحبت نے خراب کیتا اے، شیطان کہہ رہا ہے! کتنی عظیم بات چھیڑی ہے!تو، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ انسان مزاح میں معمولی بات بھی کر سکتاہے اور غیر معمولی بات بھی کر سکتا ہے۔​
آفتاب رانا: آپ نے بھی تجربات کئے ہیں؟ بڑے بڑے مسائل جو ہیں، ان کو ڈِسکَسdiscuss کرنے کی کوشش کی ہے؟​
پروفیسر انور مسعود: جی، میں بتاتا ہوں۔ دیکھئے جی، بات یہ ہے کہ اس دور میں مزاح میں ویرائٹی variety آ گئی ہے۔ بہت ویرائٹی آ گئی ہے! ایک زمانہ تھا، جب مزاح جو ہے وہ بعض اوقات تین چار موضوعات تک محدود تھا۔ یا تو فیشن پہ نظمیں لکھی جاتی تھیں، یا مہنگائی پر، یا بیوی پر۔ اب یہ ہے کہ ابھی، میں آپ کو بتاؤں! آج بیان آپ نے پڑھا ہے، یہ لیٹسٹ latest بات ہے، روس نے کہا ہے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں اٹھایا گیا تو ہم اسے پھر ویٹو veto کر دیں گے۔ یہ آج کا مسئلہ ہے، تو، تمہاری بھینس کیسے ہے؟ میں اپنا قطعہ سنا رہا ہوں:​

تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے​
اب اس لاٹھی کی زدمیں جو بھی آئے سو ہمارا ہے​
مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے ؟​
تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے​
اب دیکھئے نا، کتنا سنگین ، کتنا سنجیدہ اور بین الاقوامی مسئلہ ہے، میں مزاح میں لایا ہوں۔ اس لئے بنیادی بات وہی ہے، اگر آپ کے اندر مزاح موجود ہے، ہیں جی! وہ مکئی کا دانہ* بننے کی آپ کے اندرصلاحیت ہے! اچھا، ایک اور بات، اُتنا مزاح عظیم ہو گا جتنا اس کے پیچھے غم عظیم ہوگا۔ جتنا دکھ عظیم ہو گا، کیونکہ دکھ کے بغیر نہیں مزاح پیدا ہوتا!اصلی جو ہے سرچشمہ مزاح کا، درد مندی ہے۔ اب مزاح اور طنز میں فرق سمجھ لیجئے۔ مزاح میں صرف ایک تفریحی پہلو ہے، لیکن طنزوہ ہے، جب مزاح کی ڈائریکشن direction بنتی ہے ،آدمی کے ذہن میں کوئی سمت ہوتی ہے۔ مَیں اسے آسان لفظوں میں کہوں، جب اس کا نقطہٗ نظر اخلاقی اور اصلاحی ہوتا ہے تو اس وقت طنز ہوتی ہے۔ مجھ سے پوچھئے عام لوگ یہ کہتے ہیں، ممتاز مفتی صاحب، اگلے دن انہوں نے کہا کہ جی انور مسعود ہمارا بڑا اچھا شاعر تھا لیکن کیا ہے، طنز میں پڑ گیا ہے۔ میں نے قراٰن مجید کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس میں مجھے محسوس ہوا ہے۔ مجھے مزاح کی مثال بہت کم ملی ہے لیکن طنزکی مثال ملی ہے۔’ وہ لوگ جو ضدی ہیں، حقیقت کو قبول نہیں کرتے‘، قراٰن نے کہا ہے وَ بَشّرھِم بِعَذَابٍ اَلِیم (انہیں عذابِ الیم کی خوشخبری سنا دو!) یہ طنز کا پیرایہٗ اظہار ہے، اور دردمندی نہ ہو نا، تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے بس، مزاح کیا وہ کھوکھلا پن سا ہوتا ہے۔​

آفتاب رانا: سٹوڈیو2- میں بھی آپ سے سوال پوچھا گیا تھا۔ آپ نے اس کا جواب نہیں دیا تھا، منّو بھائی نے دیا تھا کہ مزاحیہ شاعر جو ہوتا ہے وہ مسائل کو موضوع بناتا ہے۔ ان مسائل کا ایک طرح سے مذاق اڑاتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے۔ تو کیا یہ صورتِ حال ایک لا تعلقی کو جنم نہیں دیتی؟ کہ آپ نے ہنس لیا اور چپ ہو کے بیٹھ گئے۔​
پروفیسر انور مسعود: میں سمجھتا ہوں کہ جتنے بھی جواب دئے گئے تھے ، مجھے لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کا جواب بہتر تھا۔ میں نے یہ عرض کیا تھا کہ ایسا مزاح بھی ہو سکتا ہے جو آپ کے اندر پست قسم کے جذبات پیدا کرے، ایسا مزاح بھی ہو سکتا ہے جو آپ کے اندر اونچے خیالات پیدا کرے اور آپ کے جذبات کی اچھی طرح سے تطہیر کر کے آپ کو اچھا انسان بنائے۔ سو، میں اُن سے اتفاق نہیں کرتا۔ وہی بات آ جاتی ہے کہ دیکھئے، اقبال نے فنونِ لطیفہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا بلکہ خود فنِ لطیف (شعر) کا اتنا بڑا ہنرِزیبا اس کے پاس ہے۔ اتنا بڑا ہنر ہے اس کے پاس! وہ خود کہتا ہے، مجھ کو شاعر نہ کہو میر کی طرح، لیکن اس سے بڑا شاعر تو صدیوں کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ وہ بھی کہتا کہتا ہے ، مصوّری پرتنقید کر رہا ہے۔ مثلاً ایک تصویر اس نے دیکھی، اس نے کہا:​
ع کُودَکے بَر گردنِ بابائے پِیر​
یہ کیا تصویر بنائی ہے کہ ایک بچہ ایک بوڑھے آدمی کے کندھے پر بیٹھا ہے۔ بچہ بھی کمزور ہے، بوڑھا بھی کمزور ہے۔ اقبال کو یہ تصویر پسند نہیں آسکتی۔ اُسے کیسے پسند آئے؟ کمزوری کی تصویر بنا دی آپ نے! وہ تو قوت کو مانتا ہے جس کا وہ ایک سمبل symbol ہے، اس طرح جیسے ، وہ، ایک تشخیص کرتا ہے اور تمیز کرتا ہے کہ فنون ایسے جو ہیں میر کے شعر کو اس نے فارسی میں ڈھال دیا، وہ ہے نا کہ:​
ع تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا​
تو اس نے فارسی میں یہ کہا کہ بری شاعری کی جب وہ مثال دیتا ہے تو کہتا ہے کہ ”شیونِ اُو از دیدہ​
¿ ہمسایہ خواب شُصت“ کہ اس کے رونے سے ہمسائے کی نیند جاتی رہی، تو، یہ کوئی شاعری ہے؟ اسی طرح مزاح کی بھی درجہ بندی ہے، اس کی بھی اقسام ہیں۔ اونچے درجے کا مزاح بھی ہوتا ہے ۔ آپ نہیں کہہ سکتے کہ اکبر کا مزاح پست درجے کا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو سرسیّد سے بھی آگے نظر تھی اس کی! وہ دیکھ رہا تھا کہ ہماری جو ہے، کورپٹcorrupt ہو رہی ہیں ویلیوز values مشرق کی ویلیوز کورپٹ ہو رہی ہیں، تو، اس لئے اس نے ہمارے اندر ایک جذبہ بیدار کیا ہے اپنی ویلیوز سے محبت کرنے کا۔ مزاح سے کام لیا ہے اس نے۔

محمد احمد: یہ مزاح جو ہے، اِم بیلینس imbalance ، غیر متوازن کیفیت، کنٹراسٹcotrast ان چیزوں سے پیدا کیا جا سکتا ہے کہ لوگ ان پر قہقہہ لگانے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو طنز بیسیکلی basically ایک بالکل علیحدہ سی بات ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ ہمیشہ مزاح کے ساتھ جڑ کر آئی ہے۔ ان کا جو امتزاج ہے، وہ ان دونوں کی مخالف ڈائریکشنdirection کو بیلینس کرنے لے لئے یہ کیا جاتاہے اور یہ اچھا لگتا ہے۔ طنز کڑوی چیز ہے، مزاح میٹھی چیزہے۔ ان کا تعلق اس کے علاوہ بھی کوئی ہے کیا؟​
پروفیسر انور مسعود: بات یہ ہے کہ طنز صرف طنز اگر ہو اس میں مزاح نہ ہو تو وہ ایسے ہے جیسے آدمی کسی پر حملہ کردے، ڈانگ کڈھ مارے۔ کوئی بھی کڑوی دوا نہیں کھاتا یار! اس کے لئے، شوگر کوٹڈ پلزsugar coated pills ہونے چاہئیں! اچھا، سعدی کتنا بڑا معلمِ اخلاق ہے، بہت بڑا ریفارمرreformer ہے اور اس کے ہاں مزاح موجود ہے۔ دو ہی صورتیں ہیں۔ آپ جب کڑوی چیز پیش کریں تو فنکار کا منصب ہے کہ اسے حسین بنائے۔ جمال فطرت کی بڑی ضرورت ہے۔ انسان خوبصورت بنایا گیا ہے اور خوبصورتی سے محبت اس کے دل میں ہے۔ فنِ لطیف یہی ہے یعنی تخلیق ِحسن۔ اور مزاح نگار جو ہے اگر وہ صرف طنز کا خیال رکھے گا اور اس میں مزاح شامل نہ کرے گا تو لوگوں کے اندر بیزاری پیدا ہو گی۔اور اگر آپ اس میں مزاح آمیز کریں تو وہی بات آپ کی جو ان کے خلاف جا رہی ہے اس پر وہ خود ہنسیں گے۔ اور بہتر مزاح وہ ہے، بہتر طنز وہ ہے کہ ہنسیں نہیں بلکہ بعد میں رو بھی پڑیں اور اپنا محاسبہ بھی کریں۔ مثلاً میں نے ایک قطعہ لکھا، قطعہ پڑھا وہاں جا کے حویلیاں ۔ تو میں نے جب قطعہ پڑھا تو ایک آدمی اٹھ کے ایک دم نکل گیا باہر، جویں شُوٹ مار کے نکل جاندا اے باھر، تو بعد میں میری ملاقات ہوئی اس سے، میں نے کہا: بھائی آپ کیوں اُٹھ کے آ گئے؟ کہنے لگا: جو آپ نے پڑھ دیا تھا اس کے بعد میرے اندر کچھ سننے کی تاب نہیں تھی۔ اور وہ قطعہ کیا تھا، میں آپ کو بتاؤں کہ:​

کس طرح کا احساسِ زیاں تھا کہ ہُوا گُم​
کس طرح کا احساسِ زیاں ہے کہ بچا ہے​
ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے​
اک لَونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے​
تو، اس میں اگر مزاح کا عنصر نہ ہوتا تو بات ایسی ہی تھی۔ سنئے! بیلینس کرنے کے لئے، بڑا اچھا لفظ آپ نے کہا کہ اس میں ایک توازن، ایک تعادل ، اس میں ایک اعتدال پیدا کرنے کے لئے۔​
(جاری ہے)​
 

مہ جبین

محفلین
پروفیسر انور مسعود صاحب کی باتیں ان ہی کی طرح بہت دلچسپ اور بے ساختہ ہوتی ہیں
اچھا انٹرویو ہے پڑھنے میں مزا آرہا ہے
 
گورنمنٹ کالج (لائبریری) سٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی ۱۳ جنوری ۰۹۹۱ءصبح دس بجے
سال 0991 بن گیا۔ درست 1990 ہے


اس کا خلاصہ یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ، ٹیکسلا کے سالانہ مجلہ ”شاہِین“ (مئی ۰۹۹۱ئ) میں شائع ہوا،
درست تاریخ ۔ مئی 1990ء ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ خلیل میاں اور آسی بھائی۔ ابھی آپ کی کتاب بھی میل سے ڈاؤن لوڈ کی ہے۔ یہاں ہی رسید دے دیتا ہوں۔ انشاء اللہ میری یونی کوڈ تبدیلی کے بعد اغلاط شاید مشکل سے ڈھونڈھنے سے ملیں گی۔
 
شکریہ خلیل میاں اور آسی بھائی۔ ابھی آپ کی کتاب بھی میل سے ڈاؤن لوڈ کی ہے۔ یہاں ہی رسید دے دیتا ہوں۔ انشاء اللہ میری یونی کوڈ تبدیلی کے بعد اغلاط شاید مشکل سے ڈھونڈھنے سے ملیں گی۔


پتہ نہیں بڑے چاچو کس جنات سے چیک کراتے ہیں واقعی آپ کی لائبریری کی کتابوں میں پروف کی غلطیاں میں نے نہیں دیکھی اب تک۔
 

الف عین

لائبریرین
پتہ نہیں بڑے چاچو کس جنات سے چیک کراتے ہیں واقعی آپ کی لائبریری کی کتابوں میں پروف کی غلطیاں میں نے نہیں دیکھی اب تک۔
وہ جنات نہہں ورنہ ایک ہی دن میں وہ ہزار سے زیادہ کتابوں کی پروف ریڈنگ ہو جاتی جو میرے پاس برائے تدوین موجود ہیں۔ کاش ایسا ہو جاتا!!!
 
Top