محمداحمد

لائبریرین
پرانا پاکستان
حبیب اکرم

''میں ایسے سکول میں داخل ہوا جو اپنے مزاج میں ہی انگریزی تھا، یعنی ایچی سن کالج۔ آپ اسے برطانیہ کے ایٹن سکول کا چربہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سکول میں پڑھنے والے دیگر بچوں کی طرح میں بھی خود کو ان بچوں سے برتر سمجھتا تھا جو اردو میڈیم سرکاری سکولوں میں جاتے تھے۔ انگریزی میڈیم سکولوں میں سب کچھ انگریزی میں پڑھایا جاتا تھا بلکہ بچوں کو انگریزی بولنے پر بھی مجبور کیا جاتا تھا۔ اس معاملے میں سختی کا عالم یہ تھا سکول کے اوقات میں اردو بولنا منع تھا اور اگر کوئی لڑکا اردو بولتا پکڑا جاتا تو اسے جرمانہ بھی کیا جاتا۔ ہمارا مسلم معاشرہ اور اس کی روایات سکول میں کہیں نظر نہیں آتی تھیں کیونکہ ہمیں یہ سکھایا جاتا تھا کہ اگر زندگی میں ترقی کرنی ہے تو انگریزوں کی نقالی کرنا ہو گی۔ ہماری مسلم شناخت گھروں تک محدود تھی۔ سکول کا کام ہمیں برطانیہ کے پبلک سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی گھٹیا سی نقالی کے لیے تیار کرنا تھا۔ قدرتی طور پر اس طرح کی تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے لیے انگریزوں کے کھلاڑی، اداکار اور گلوکار ہی قابل تقلید ٹھہرے۔

ہم سے پہلے والی نسل کا المیہ یہ تھا کہ وہ انگریزوں کو ناپسند کرنے کے باوجود ان کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ مجھے بہت بعد میں یہ ادراک ہوا کہ ہمارا نظام تعلیم ہی ہمیں ایک قوم بننے سے روکے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ سے ہم اپنی قومی شناخت کھوتے جا رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے انگریزی میڈیم سکولوں کی یہی حالت ہے۔ میری نسل کے لیے برطانیہ ہماری جنتِ گم گشتہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ آج ان سکولوں کے بچے امریکا کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ میں امریکا اتنا سرایت کر چکا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے بچے بیس بال کی ٹوپی بھی بالکل امریکنوں کی طرح اوڑھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کبھی امریکا نہیں گیا۔

جب پاکستان بنا تو ہمیں ان انگریزی میڈیم سکولوں سے جان چھڑا لینی چاہیے تھی اور ایک یکساں نصابِ تعلیم نافذ کرنا چاہیے تھا جیسا کہ سنگا پور، بھارت اور ملائیشیا نے کیا بھی۔ ہمارے ہاں سکول ابھی برطانوی کتابیں درآمد کر کے مقامی طلبہ کو پڑھاتے ہیں اور یہی طلبہ اپنی انگریزی بولنے کی صلاحیت کی بنیاد پر سول سروس میں چلے جاتے ہیں۔ ملک کی بہترین نوکریوں کے دروازے ایسے طلبہ پر کھل جاتے ہیں اور یہی بچے بڑے ہو کر اپنی ثقافت سے نفرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آج بھی ملک میں خود کر پڑھا لکھا ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی گفتگو میں انگریزی الفاظ بکثرت آئیں، بصورت دیگر آپ کی تعلیم ہی مشکوک ٹھہرے گی۔

ایچی سن کالج میں جو جتنا زیادہ انگریز ہو جاتا ، وہ اتنا ہی قابل تعریف سمجھا جاتا۔ ہم انگریزی تاریخ، انگریزی فلموں، انگریزی کھیلوں ، انگریزی ناولوں اور انگریزی لباس سے حد درجہ متاثر ہوتے چلے گئے۔ ہر وہ شخص مذاق کا نشانہ بنتا جو درست انگریزی نہیں بول سکتا تھا؛ البتہ بہت سارے انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہوئے اردو بولنا اس وقت کا فیشن تھا۔ ہمیں شلوار قمیض پہننا بھی مناسب نہیں لگتا تھا؛ البتہ عید وغیرہ کے موقع پر یہ لباس پہن لیا جاتا۔

جب میں سولہ سال کی عمر میں لاہور کی کرکٹ ٹیم میں آیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں تو ٹیم کے زیادہ تر لوگوں سے بات ہی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اردو بولتے تھے اور میں انگریزی۔ وہ لڑکے اکٹھے ہو کر میرا مذاق اڑاتے۔ مجھے لگتا تھا کہ میں اس ٹیم کا حصہ ہی نہیں ہوں۔ ان کے اور میرے درمیان کلچر اور طبقاتی فرق کی اتنی بڑی خلیج حائل تھی جو خود برطانیہ میں نظر نہیں آتی۔ ان کے لطیفے، ان کا مزاح، ان کی پسندیدہ فلمیں، حتٰی کہ دنیا کے بارے میں ان کے خیالات، سب کچھ مختلف تھا۔ اسی وقت مجھے احساس ہوا کہ اردو میڈیم سکولوں میں پڑھے ہوئے بچوں کے اندر انگریزی میڈیم کے بچوں کے خلاف کتنی نفرت بھری ہوئی ہے۔ یہ سوال بھی ذہن میں اٹھا کہ ایچی سن کالج کے بہترین میدانوں میں کرکٹ کھیلنے والے جب باہر آ کر ان غریب لوگوں سے مقابلہ کرتے ہیں تو ہار کیوں جاتے ہیں؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ غریب لڑکے بہت محنتی ہوتے ہیں، کامیابی کی تڑپ انہیں مزید محنت پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ کرکٹ کی طرح ہاکی اور سکواش کو ہی دیکھ لیجیے، ان کھیلوں کے بہترین کھلاڑی بھی اردو میڈیم سکولوں سے نکلے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب یہ واقعی کچھ بن جاتے ہیں تو مغرب کے رنگ میں رنگنے لگتے ہیں۔ انگریزی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، مغربی کپڑے پہننے لگتے ہیں حتٰی کہ کچھ تو شراب وغیرہ بھی پینا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ اعلیٰ طبقے کا ہونے کی نشانی ہے۔

قومی لباس ہماری شناخت تھی‘ لیکن وہ بھی غلامانہ ذہنیت کے ہتھے چڑھ کر برباد ہو گئی۔ جب میں چھوٹا تھا تو مجھے یاد ہے کہ میرے کزن نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی تو میرے ایک عزیز بزرگ نے ان سے پوچھا ''یہ تم نوکروں والا لباس کیوں پہنے ہوئے ہو؟‘‘۔ اسی طرح اپنی والدہ کی ایک دوست کو کہتے سنا کہ فلاں کے حالات اب بہتر ہیں کیونکہ اس نے بھی مغربی لباس پہننا شروع کر دیا ہے۔ اس واقعے کے دس برس بعد انیس سو اٹھاسی میں اپنے کچھ انگریز دوستوں کو قراقرم لے کر گیا تو وہاں مجھے احساس ہوا کہ میرے ارد گرد تمام لوگوں نے پاکستانی لباس پہن رکھا ہے۔ اسی لمحے دل میں کوندے کی طرح یہ خیال لپکا کہ میں اس ملک کا ایک مشہور شخص ہوں، جہاں جاتا ہوں مجھے دیکھنے کے لیے لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور میری حالت یہ ہے کہ میرے اور غیر ملکیوں کے لباس میں کوئی فرق سرے سے ہے ہی نہیں۔ کچھ عرصے بعد میں پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان گیا تو وہاں ایک بزرگ مجھ سے پشتو میں بات کرنے پر اصرار کر رہے تھے حالانکہ مجھے زیادہ پشتو نہیں آتی۔ اس بزرگ نے مجھ پر واضح کیا کہ انہیں اپنی قومی شناخت پر فخر ہے۔ یہ صرف قبائلی علاقے میں ہی دیکھا جہاں لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ کبھی انگریز کے غلام نہیں رہے اس لیے انہیں کسی دوسری قوم سے کچھ لینے کی ضرورت بھی نہیں۔ اسی روز یہ نکتہ بھی کھلا کہ غلامی صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو خود کو کمتر اور غلام بنانے والے کو برتر سمجھنے لگیں۔

پاکستان کا نظام تعلیم مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے‘ کیونکہ یہاں کوئی ایک نہیں، تین تین نظامِ تعلیم متوازی طور پر چل رہے ہیں۔ یہاں ایک طرف برطانیہ اور امریکا سے درآمد شدہ نصاب پر مبنی نظام ہے تو دوسری طرف حکومت کے قائم کردہ اردو میڈیم سرکاری سکول ہیں اور اس پر مستزاد دینی مدارس۔ ہمارے ملک کے حکمران طبقے کو اسے درست کرنے کی کوئی خواہش بھی نہیں۔ ان تین مختلف طرح کے نظام ہائے تعلیم کا اثر ہے کہ ملک میں مختلف طبقات پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ فرق اتنا بڑھ چکا ہے کہ پاکستان کے انگریزی اور اردو اخبارات ہی دیکھ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دو مختلف ملکوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ نجی شعبے کے سکولوں نے ان حالات میں بھی اپنا معیار برقرار رکھا ہوا ہے لیکن سرکاری نظام تعلیم مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور یہیں سے ایسے نوجوانوں کی فوج پیدا ہو رہی ہے جن کے پاس کوئی کارآمد ہنر نہیں ہے۔ مدرسوں کی حالت یہ ہے کہ یہاں کے تعلیم یافتہ مسجد کی امامت یا کسی مدرسے میں پڑھانے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے۔ بعض حالات میں تو مدرسے کے تعلیم یافتہ لوگوں کو رویہ یہ ہے کہ وہ ہر مغربی چیز کو غیر اسلامی قرار دے کر رد کر دیتے ہیں۔ ان تینوں نظامِ تعلیم کے درمیان کسی ربط اور آہنگ کا نہ ہونا ہی ہماری نوجوان نسل کو راستے سے بھٹکائے چلا جا رہا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں ان تینوں اقسام کے تعلیمی اداروں کے درمیان مشترک نکات ڈھونڈنا ہوں گے‘‘۔

پرانے پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پر اوپر دیے ہوئے خیالات خاکسار کے نہیں بلکہ مستقبل کے وزیر اعظم جناب عمران خان کے ہیں جو ان کی اپنی کتاب Pakistan: A personal History میں درج ہیں۔ میں نے صرف اس کتاب کے چند صفحات کا ترجمہ کر دیا ہے تاکہ سند رہے اور نئے پاکستان میں بوقت ضرورت کام آئے۔

بشکریہ روزنامہ دُنیا
 

محمداحمد

لائبریرین
اللہ کرے کہ عمران صاحب نظامِ تعلیم میں مثبت تبدیلیاں لا سکیں۔

اور اُنہیں یاد بھی رہے کہ اُنہوں نے اپنی کتاب میں کیا لکھا تھا۔ :)

ویسے پاکستان میں یکساں نظامِ تعلیم لانا قطعاً آسان کام نہیں ہے۔ اگر عمران خان اس سلسلے میں کوئی قدم اُٹھاتے ہیں تو اُنہیں بہت سے طبقات سے بہت سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اور میرا خیال ہے کہ اُن کی اولین ترجیحات میں یہ چیز شامل بھی نہیں ہوگی۔
 

عثمان

محفلین
ایچی سن کالج لاہور کا اپنا پرانا دوست یاد آ گیا۔ انتہائی نفیس اور سلجھی ہوئی شخصیت اور بہت دوستانہ اور عاجزانہ انداز۔ یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں وہ آتے ہی پڑھائی اور رہائش دونوں پہلووٴں سے پوری طرح تیار تھا۔ اس کے کمرے کی نفاست اور عمدہ سلیقہ ہی سے معلوم ہوتا تھا کہ ایچی سن کالج اور اس کے ہاسٹل کا تجربہ کار ہے۔ کینیڈا میں اس نے بہت اچھا وقت گذارا اور آج کل لاہور ہی میں کاروبار کا انتظام سنبھال رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ایچی سن کالج کو مزید ترقی دے اور پاکستان کے دیگر تعلیمی اداروں کو بھی اس جیسا بنائے اور وہ تمام لوگ جو ایچی سن کالج یا اس جیسے دیگر معیاری تعلیمی اداروں کے خواہشمند ہیں ان کی نیک خواہشات پوری کرے۔ آمین!
 

محمداحمد

لائبریرین
ایچی سن کالج لاہور کا اپنا پرانا دوست یاد آ گیا۔ انتہائی نفیس اور سلجھی ہوئی شخصیت اور بہت دوستانہ اور عاجزانہ انداز۔ یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں وہ آتے ہی پڑھائی اور رہائش دونوں پہلووٴں سے پوری طرح تیار تھا۔ اس کے کمرے کی نفاست اور عمدہ سلیقہ ہی سے معلوم ہوتا تھا کہ ایچی سن کالج اور اس کے ہاسٹل کا تجربہ کار ہے۔ کینیڈا میں اس نے بہت اچھا وقت گذارا اور آج کل لاہور ہی میں کاروبار کا انتظام سنبھال رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ایچی سن کالج کو مزید ترقی دے اور پاکستان کے دیگر تعلیمی اداروں کو بھی اس جیسا بنائے اور وہ تمام لوگ جو ایچی سن کالج یا اس جیسے دیگر معیاری تعلیمی اداروں کے خواہشمند ہیں ان کی نیک خواہشات پوری کرے۔ آمین!

بہت عمدہ!

بلاشبہ اچھے لوگ جہاں جاتے ہیں ، اپنے تعلیمی اداروں کا نام روشن کرتے ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پرانا پاکستان
حبیب اکرم

''میں ایسے سکول میں داخل ہوا جو اپنے مزاج میں ہی انگریزی تھا، یعنی ایچی سن کالج۔ آپ اسے برطانیہ کے ایٹن سکول کا چربہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سکول میں پڑھنے والے دیگر بچوں کی طرح میں بھی خود کو ان بچوں سے برتر سمجھتا تھا جو اردو میڈیم سرکاری سکولوں میں جاتے تھے۔ انگریزی میڈیم سکولوں میں سب کچھ انگریزی میں پڑھایا جاتا تھا بلکہ بچوں کو انگریزی بولنے پر بھی مجبور کیا جاتا تھا۔ اس معاملے میں سختی کا عالم یہ تھا سکول کے اوقات میں اردو بولنا منع تھا اور اگر کوئی لڑکا اردو بولتا پکڑا جاتا تو اسے جرمانہ بھی کیا جاتا۔ ہمارا مسلم معاشرہ اور اس کی روایات سکول میں کہیں نظر نہیں آتی تھیں کیونکہ ہمیں یہ سکھایا جاتا تھا کہ اگر زندگی میں ترقی کرنی ہے تو انگریزوں کی نقالی کرنا ہو گی۔ ہماری مسلم شناخت گھروں تک محدود تھی۔ سکول کا کام ہمیں برطانیہ کے پبلک سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی گھٹیا سی نقالی کے لیے تیار کرنا تھا۔ قدرتی طور پر اس طرح کی تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے لیے انگریزوں کے کھلاڑی، اداکار اور گلوکار ہی قابل تقلید ٹھہرے۔

ہم سے پہلے والی نسل کا المیہ یہ تھا کہ وہ انگریزوں کو ناپسند کرنے کے باوجود ان کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ مجھے بہت بعد میں یہ ادراک ہوا کہ ہمارا نظام تعلیم ہی ہمیں ایک قوم بننے سے روکے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ سے ہم اپنی قومی شناخت کھوتے جا رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے انگریزی میڈیم سکولوں کی یہی حالت ہے۔ میری نسل کے لیے برطانیہ ہماری جنتِ گم گشتہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ آج ان سکولوں کے بچے امریکا کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ میں امریکا اتنا سرایت کر چکا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے بچے بیس بال کی ٹوپی بھی بالکل امریکنوں کی طرح اوڑھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کبھی امریکا نہیں گیا۔

جب پاکستان بنا تو ہمیں ان انگریزی میڈیم سکولوں سے جان چھڑا لینی چاہیے تھی اور ایک یکساں نصابِ تعلیم نافذ کرنا چاہیے تھا جیسا کہ سنگا پور، بھارت اور ملائیشیا نے کیا بھی۔ ہمارے ہاں سکول ابھی برطانوی کتابیں درآمد کر کے مقامی طلبہ کو پڑھاتے ہیں اور یہی طلبہ اپنی انگریزی بولنے کی صلاحیت کی بنیاد پر سول سروس میں چلے جاتے ہیں۔ ملک کی بہترین نوکریوں کے دروازے ایسے طلبہ پر کھل جاتے ہیں اور یہی بچے بڑے ہو کر اپنی ثقافت سے نفرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آج بھی ملک میں خود کر پڑھا لکھا ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی گفتگو میں انگریزی الفاظ بکثرت آئیں، بصورت دیگر آپ کی تعلیم ہی مشکوک ٹھہرے گی۔

ایچی سن کالج میں جو جتنا زیادہ انگریز ہو جاتا ، وہ اتنا ہی قابل تعریف سمجھا جاتا۔ ہم انگریزی تاریخ، انگریزی فلموں، انگریزی کھیلوں ، انگریزی ناولوں اور انگریزی لباس سے حد درجہ متاثر ہوتے چلے گئے۔ ہر وہ شخص مذاق کا نشانہ بنتا جو درست انگریزی نہیں بول سکتا تھا؛ البتہ بہت سارے انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہوئے اردو بولنا اس وقت کا فیشن تھا۔ ہمیں شلوار قمیض پہننا بھی مناسب نہیں لگتا تھا؛ البتہ عید وغیرہ کے موقع پر یہ لباس پہن لیا جاتا۔

جب میں سولہ سال کی عمر میں لاہور کی کرکٹ ٹیم میں آیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں تو ٹیم کے زیادہ تر لوگوں سے بات ہی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اردو بولتے تھے اور میں انگریزی۔ وہ لڑکے اکٹھے ہو کر میرا مذاق اڑاتے۔ مجھے لگتا تھا کہ میں اس ٹیم کا حصہ ہی نہیں ہوں۔ ان کے اور میرے درمیان کلچر اور طبقاتی فرق کی اتنی بڑی خلیج حائل تھی جو خود برطانیہ میں نظر نہیں آتی۔ ان کے لطیفے، ان کا مزاح، ان کی پسندیدہ فلمیں، حتٰی کہ دنیا کے بارے میں ان کے خیالات، سب کچھ مختلف تھا۔ اسی وقت مجھے احساس ہوا کہ اردو میڈیم سکولوں میں پڑھے ہوئے بچوں کے اندر انگریزی میڈیم کے بچوں کے خلاف کتنی نفرت بھری ہوئی ہے۔ یہ سوال بھی ذہن میں اٹھا کہ ایچی سن کالج کے بہترین میدانوں میں کرکٹ کھیلنے والے جب باہر آ کر ان غریب لوگوں سے مقابلہ کرتے ہیں تو ہار کیوں جاتے ہیں؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ غریب لڑکے بہت محنتی ہوتے ہیں، کامیابی کی تڑپ انہیں مزید محنت پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ کرکٹ کی طرح ہاکی اور سکواش کو ہی دیکھ لیجیے، ان کھیلوں کے بہترین کھلاڑی بھی اردو میڈیم سکولوں سے نکلے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب یہ واقعی کچھ بن جاتے ہیں تو مغرب کے رنگ میں رنگنے لگتے ہیں۔ انگریزی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، مغربی کپڑے پہننے لگتے ہیں حتٰی کہ کچھ تو شراب وغیرہ بھی پینا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ اعلیٰ طبقے کا ہونے کی نشانی ہے۔

قومی لباس ہماری شناخت تھی‘ لیکن وہ بھی غلامانہ ذہنیت کے ہتھے چڑھ کر برباد ہو گئی۔ جب میں چھوٹا تھا تو مجھے یاد ہے کہ میرے کزن نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی تو میرے ایک عزیز بزرگ نے ان سے پوچھا ''یہ تم نوکروں والا لباس کیوں پہنے ہوئے ہو؟‘‘۔ اسی طرح اپنی والدہ کی ایک دوست کو کہتے سنا کہ فلاں کے حالات اب بہتر ہیں کیونکہ اس نے بھی مغربی لباس پہننا شروع کر دیا ہے۔ اس واقعے کے دس برس بعد انیس سو اٹھاسی میں اپنے کچھ انگریز دوستوں کو قراقرم لے کر گیا تو وہاں مجھے احساس ہوا کہ میرے ارد گرد تمام لوگوں نے پاکستانی لباس پہن رکھا ہے۔ اسی لمحے دل میں کوندے کی طرح یہ خیال لپکا کہ میں اس ملک کا ایک مشہور شخص ہوں، جہاں جاتا ہوں مجھے دیکھنے کے لیے لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور میری حالت یہ ہے کہ میرے اور غیر ملکیوں کے لباس میں کوئی فرق سرے سے ہے ہی نہیں۔ کچھ عرصے بعد میں پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان گیا تو وہاں ایک بزرگ مجھ سے پشتو میں بات کرنے پر اصرار کر رہے تھے حالانکہ مجھے زیادہ پشتو نہیں آتی۔ اس بزرگ نے مجھ پر واضح کیا کہ انہیں اپنی قومی شناخت پر فخر ہے۔ یہ صرف قبائلی علاقے میں ہی دیکھا جہاں لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ کبھی انگریز کے غلام نہیں رہے اس لیے انہیں کسی دوسری قوم سے کچھ لینے کی ضرورت بھی نہیں۔ اسی روز یہ نکتہ بھی کھلا کہ غلامی صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو خود کو کمتر اور غلام بنانے والے کو برتر سمجھنے لگیں۔

پاکستان کا نظام تعلیم مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے‘ کیونکہ یہاں کوئی ایک نہیں، تین تین نظامِ تعلیم متوازی طور پر چل رہے ہیں۔ یہاں ایک طرف برطانیہ اور امریکا سے درآمد شدہ نصاب پر مبنی نظام ہے تو دوسری طرف حکومت کے قائم کردہ اردو میڈیم سرکاری سکول ہیں اور اس پر مستزاد دینی مدارس۔ ہمارے ملک کے حکمران طبقے کو اسے درست کرنے کی کوئی خواہش بھی نہیں۔ ان تین مختلف طرح کے نظام ہائے تعلیم کا اثر ہے کہ ملک میں مختلف طبقات پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ فرق اتنا بڑھ چکا ہے کہ پاکستان کے انگریزی اور اردو اخبارات ہی دیکھ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دو مختلف ملکوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ نجی شعبے کے سکولوں نے ان حالات میں بھی اپنا معیار برقرار رکھا ہوا ہے لیکن سرکاری نظام تعلیم مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور یہیں سے ایسے نوجوانوں کی فوج پیدا ہو رہی ہے جن کے پاس کوئی کارآمد ہنر نہیں ہے۔ مدرسوں کی حالت یہ ہے کہ یہاں کے تعلیم یافتہ مسجد کی امامت یا کسی مدرسے میں پڑھانے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے۔ بعض حالات میں تو مدرسے کے تعلیم یافتہ لوگوں کو رویہ یہ ہے کہ وہ ہر مغربی چیز کو غیر اسلامی قرار دے کر رد کر دیتے ہیں۔ ان تینوں نظامِ تعلیم کے درمیان کسی ربط اور آہنگ کا نہ ہونا ہی ہماری نوجوان نسل کو راستے سے بھٹکائے چلا جا رہا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں ان تینوں اقسام کے تعلیمی اداروں کے درمیان مشترک نکات ڈھونڈنا ہوں گے‘‘۔

پرانے پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پر اوپر دیے ہوئے خیالات خاکسار کے نہیں بلکہ مستقبل کے وزیر اعظم جناب عمران خان کے ہیں جو ان کی اپنی کتاب Pakistan: A personal History میں درج ہیں۔ میں نے صرف اس کتاب کے چند صفحات کا ترجمہ کر دیا ہے تاکہ سند رہے اور نئے پاکستان میں بوقت ضرورت کام آئے۔

بشکریہ روزنامہ دُنیا
یہ عمران خان کے خیالات ہیں؟
پاکستان کے نظام تعلیم کو کسی حد تک بدلنے کی تو ضرورت ہے جو کہ ہر نظام تعلیم کے لیے ضروری ہے۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تعلیم پر تبصرہ کرنے والے کو بنیاد پر ایسا کرتے ہیں۔
پاکستان میں جو امریکہ برطانیہ کے درآمد شدہ نصاب کی بات کرتے ہیں انھیں یہ معلوم ہونے کی ضرورت یے کہ یہ نصاب انھی انٹرنیشنل ڈگریاں کے لیے پڑھائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ طلبا کو اس بات کی آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے مضامین اور پڑھائی کے طریقے کا انتخاب کریں۔ تمام بڑے ملکوں/تعلیمی نظاموں میں دو سے تین parallel نظام چلتے ہیں۔
اسی طرح خان صاحب کو یہ بھی بتا نے کی ضرورت ہے کہ سرکاری سکولوں اردو میڈیم انگریزی میڈیم والا تفاوت بھی ایک عرصے سے پرانے پاکستان میں ختم ہو چکا ہے۔ یہ بھی طلبا کی چوائس ہونی چاہئے کہ وہ اردو یا انگریزی زبان کا خود انتخاب کریں۔
نظام تعلیم کو اپ ڈیٹ کرنا اور اس کی مانیٹرنگ کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے۔ امید ہے اگر عمران خان تعلیم کے معاملے میں اتنے سنجیدہ ہیں تو کے پی میں یہ کام ہوا ہو گا۔ اب اگر باقی صوبوں میں بھی وہ اقتدار میں آتے ہیں تو انتظار ہے کہ کیا اصلاحات سامنے آتی ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اسی طرح خان صاحب کو یہ بھی بتا نے کی ضرورت ہے کہ سرکاری سکولوں اردو میڈیم انگریزی میڈیم والا تفاوت بھی ایک عرصے سے پرانے پاکستان میں ختم ہو چکا ہے۔ یہ بھی طلبا کی چوائس ہونی چاہئے کہ وہ اردو یا انگریزی زبان کا خود انتخاب کریں۔

یہ کب کی بات ہے؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پی ٹی بی کی تمام کتابیں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ یہی کتابیں فیڈرل بورڈ اور دیگر صوبوں کے پرائیویٹ سکولوں میں بھی استعمال ہو رہی ہیں جہاں بچوں کو فیڈرل یا پنجاب لوکل بورڈز کے ساتھ میٹرک کے امتحان دینے ہوتے ہیں۔ فیڈرل سکولوں میں بھی سکول ابتدائی درجوں سے انگریزی میڈیم بنائے جا چکے ہیں۔ کے پی میں بھی تقریبا ایسا ہی ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ اگر ہمیں بچوں کو ایسے تیار کرنا ہے کہ ان کا علم صرف کتاب تک محدود نہ رہے تو انگریزی کا ذریعہ تعلیم ہونا ہی فی الوقت ہمارے لیے بہتر آپشن ہے تا وقتیکہ ہم اردو میں ایسا مواد فراہم کر سکیں جو کہ جدید تحقیق و طریقوں پر مبنی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمیں انگریزی ثانوی زبان کے طور پر پڑھاتے ہوئے خصوصی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ انگریزی میں مواد کو پڑھنا اور پڑھانا دونوں آسان ہوں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پی ٹی بی کی تمام کتابیں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ یہی کتابیں فیڈرل بورڈ اور دیگر صوبوں کے پرائیویٹ سکولوں میں بھی استعمال ہو رہی ہیں جہاں بچوں کو فیڈرل یا پنجاب لوکل بورڈز کے ساتھ میٹرک کے امتحان دینے ہوتے ہیں۔ فیڈرل سکولوں میں بھی سکول ابتدائی درجوں سے انگریزی میڈیم بنائے جا چکے ہیں۔ کے پی میں بھی تقریبا ایسا ہی ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ اگر ہمیں بچوں کو ایسے تیار کرنا ہے کہ ان کا علم صرف کتاب تک محدود نہ رہے تو انگریزی کا ذریعہ تعلیم ہونا ہی فی الوقت ہمارے لیے بہتر آپشن ہے تا وقتیکہ ہم اردو میں ایسا مواد فراہم کر سکیں جو کہ جدید تحقیق و طریقوں پر مبنی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمیں انگریزی ثانوی زبان کے طور پر پڑھاتے ہوئے خصوصی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ انگریزی میں مواد کو پڑھنا اور پڑھانا دونوں آسان ہوں۔

یہاں تک تو ٹھیک ہے۔

لیکن بات وہی ہے کہ کیمبرج سسٹم میں پڑھنے والے ہمارے نظام سے پڑھے ہوئے لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اور ہمارے لوگ کیمبرج سسٹم تک پہنچنے کی وسعت نہیں رکھتے سو یکساں مواقع کی بات عبث ہو کر رہ جاتی ہے۔ طبقاتی تفاوت اور کسے کہتے ہیں۔

مزید یہ کہ تمام تر اصلاحات کے باوجود حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ادارے تعلیمی معیار میں روز بروز بد تر ہوتے جا رہے ہیں اور والدین انتہائی مجبوری کی حالت میں ہی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں۔
 
Top