.
آٹوسجیشن
سعدیہ بہت دنو ں سے کیلیفورنیا سائنس سینٹر جانا چاہتی تھی تاکہ وہ انسان کا اندرونی جسم3 ڈی فلم ایمیکس کے تھیٹرمیں دیکھے۔ ہم دونوں نے ہفتہ کو جانے کا پروگرام بنایا۔ امی اور اباجان کو ایکfund raising میں جانا تھا۔ ہم سب نے دوپہر کے کھانے پر ملنے کا پروگرام بنایا۔
یہ فلم زندگی کی حیرت انگیز کہانی دکھاتی ہے۔ جو اندرونی کام ، بلا ارادہ انسانی جسم میں ہر وقت جاری رہتے ہیں ان کی تفصیل عجیب اور خوبصورت انداز سے دکھاتی ہے۔
explotorium میں سینکڑوںexhibits دیکھنے کے قابل ہیں۔کھانے کا وقت قریب ہو رہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد دو بارہ آکر دیکھیں گے۔ لیکن ایک اکزی بیٹ پر میری نظر پڑی اور میں نے سعدیہ کی توجہ اس طرف کی۔ دو اسپیکر پر دو مختلف گانے ایک ہی وقت میں بج رہے تھے اور گانے کی آواز ایک سیدھے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی اوردوسرے گانے کی آواز اُلٹے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی۔ جب آپ سیدھے ہاتھ کے اسپیکر کی طرف دیکھتے تو الٹے ہاتھ والے اسپیکر کا گانا پس منظر میں چلاجاتا۔ جب آپ الٹے ہاتھ والے اسپیکر کو دیکھتے تونے کی آواز اُلٹے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی۔
” بھیایہ جادو کی طرح ہے نا“۔ سعدیہ نے حیرت سے کہا۔
میں نے سعدیہ سے مذاق میں کہا۔ " یہاں اگر کوئ میرا دوست اتفاق سے مل جائے تو اس کو کو مت بتانا کہ تو میری بہن ہے“ ۔
” وہ کیوں بھائ جان“۔ سعدیہ نے بڑی مصومیت سے پوچھا۔
دل نے کہا خاموش، دماغ نے کہا موقع اچھا ہے۔ میں نے سعدیہ کے ہاتھ کے پہنچ سے دور ہوکر کہا۔
” کیوں کہ تو بیوقوف اور ایک گدھی ہے“ ۔
سعدیہ نے چٹکی بھرنے کے لیے ہاتھ بڑایا۔ لیکن ہاتھ میری کمرتک نہیں پہونچ سکا۔
” آپ بالکل الّو ہیں۔ میں گھر چل کر ایک ایسی چٹکی ماروں گی کہ آپ کوزندگی بھر یاد رہے گی“۔
میں نے قہقہہ لگا کر کہا۔ جب اتوار کو سب خاندان کے لوگ جمع ہوتے ہیں توہر شخص ایک دوسرے سے باتیں کررہا ہوتا ہے۔جب تم کزِن عایشہ سے ’ فیوزن’ بینڈ کے متعلق باتیں کر رہی ہوتی ہو تو کیا تم کو پتہ ہے کہ تمارے دوسری طرف کھڑے کزِن عمران اور کزِن سونیا کیا باتیں کررہے ہیں؟
” اگر میں ان کی طرف دیکھوں تو بتا سکتی ہوں۔ بھائ وہ تو یہی بات ہوئ جو ہم یہاں اسپیکر پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئ سمجھانے والا تو جواب نہیں ہوا۔ اب نہ صرف آپ الّو ہیں لیکن اب یہ بھی ثابت ہوگیا کی آپ گدھے بھی ہیں۔ یہاں اگر اتفاق سے میر ی کوئ سیہلی مل جائے تو دور چلے جایےگا۔ ورنہ مجھے تعارف کرانا پڑجائےگا“۔
” کیوں کیا تم اپنی سیہلی کا دنیا کے سب سے شکیل و جمیل، چنچل، فیاض، میٹھی باتیں کرنے والا اور ابھی تک غیرشادی شدہ بندے سے تعارف نہیں کراوگی؟“
” جی میں ان کو یہ سب بتاؤں گی اوراس تعریف کو اس طرح مکمل کروں گی کہ میرا بھائ نہ صرف الّو ہے بلکہ گدھا بھی ہے“۔ سعدیہ نے پیار سے کہا۔
” میری پگلی، دماغ ان آوازوں کو علیحدہ کرتا ہے۔ کان نہیں۔ لیکن سائنس نےاس کی میکانیت کو اب تک مکمل طور پر نہیں جانا ہے“۔
سعدیہ نے کہا”۔ بھیا۔ سچ بتائیں کیا آپ کو یہ جواب پتہ تھا؟“۔
میں نے ہنس کر کہا”۔ نہیں ، میں یہاں آنے سے پہلے اس نمائش کے بارے میں پڑھا تھا“۔
” بھائ جان آپ نہ صرف الّو اور گدھے ہیں لیکن بدھو بھی ہیں“۔
” وہ کیوں“۔ میں نےحیرت سے کہا۔
” اس لیے کہ میں آپ کی قابلیت سے متاثر ہوچکی تھی“۔
” میں نے کہامجھے یہ پتہ ہے تجھ کو متاثر کرنے کے لیے مجھےکچھ بھی نہں چاہیے اگر میں دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف انسان بھی ہوتا تب بھی تو مجھ سے یہی کہتی کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئ نہیں“۔
” بھائ جان۔ آپ کے خوابوں میں“۔ سعدیہ نے زبان د کھا کرکہا اور مجھ سے لپٹ گئ۔
میں سینکڑوں لوگوں کے درمیان منہ کھولے کھڑا تھا۔
اچانک اماں جان کی آواز آئ ۔ اب اس بھائی بہن کی محبت کو ختم کرو۔ تم لوگوں کو بھوک نہں لگی“؟
اباجان نے کھانا منگواتے ہوئے کہا”۔ آنکھیں ذہنی تصویر بناتی ہیں۔ دماغ سمعی حرکت کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ اور ناک سے سونگھنا، منہ سے چکھنا اور ہاتھوں سے چھونا سب دماغ کے کام ہیں۔ حواسِ خمسہ سے دماغ کو ہدایات ملتی ہیں اور دماغ ان پر عمل کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ اس کوخود بھی اس طرح کی ہدایات دے سکتے ہیں۔ آٹوسجیشن یا خود کو دئ ہوئ ہدایات بھی دماغ کے اسی حصے میں پہنچتی ہیں جہاں تحت الشعور کے خیالات پر دماغ عمل کرتا ہے“۔
” وہ غلبہ کرنے والے خیالات جن کو آپ شعور(consciousness) میں رہنے کی جان کر اجازت دیتے ہیں خواہ نفیہ (negative) ہوں یا اثباتی (positive)، آٹوسجیشن (خود کو ہدایت دینا) کی میکانیت اُن خیالات کو رضا کارانہ طور پرتحت الشعور (sub-consciousness) میں جانے دیتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو ان خیالات پرمکمل اختیار دیا ہے۔ یہ انسان پر ہے کہ انسان اس کو اچھے کاموں کے لیے یا بُرے کاموں کے لیے استعمال کرے۔ اگر آپ کی کوئ خواہش ہے توانتظار نہ کریں کہ جب میرے پاس مکمل معلومات اور ذرائع ہوں گے تب ہی میں اس کام کو شروع کروں گا۔ اس کے حل کو تحت الشعور سے طلب کریں اور امید رکھیں کہ جواب آپ کے ذہن میں ایک بجلی کی طرح چھٹی حس کی وجہ سے چمکے گا۔ اس کو شاعر آمد، صوفی روحانی خیال اور خدا پرست آوازِ غیب کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر بدبختی، کم بختی ، آفت ، مصیبت ، نحوست کا علاج اس کے ساتھ بھیجا ہے“۔
اباجان نے ہم سے سوال کیا۔” اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوکتنے دماغ عطا کیے ہیں“؟
سعدیہ نے کہا۔” ایک۔ اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوایک دماغ دیا ہے“۔
میں بولا۔ ” لیکن دماغ کو علمِ نفسیات میں کاموں کے لحاظ سے تین حصوں میں بانٹاگیا ہے۔
شعور، تحت الشعور اور لا شعور“۔
” تو ہم ان دماغ کے مختلف حصوں کو کس طرح اپنی کامیابی لیے استعمال کرتے ہیں؟“
” سوچ + مقرر مقصد + قائم مزاجی + شدیدخواہش = کامیابئ مکمل”سعدیہ نے جواب دیا۔
” آٹوسجیشن کے استعمال سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟” اباجان نے مجھ سے پوچھا۔
آٹوسجیشن کا استعمال ان خیالوں جن کو آپ شدت سے چاہتے ہیں، شعور سے تحت الشعور میں رضاکارانہ طور پر پہہنچا دیتا ہے“
خواہش ِ < -- شدت < -- شدیدخواہش
(شعور) < -- (آٹوسجیشن) < -- (تحت الشعور)
.