پروف ریڈ اول پاکستان ہماری منزل تھا : صفحہ 8

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
AAPBeeti009.gif
 

شکاری

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد


ریاستی فوج کا ایک مسلح دستہ ان کے ساتھ تھا۔ یہ ریاست مالیر کوٹلہ ایک چھوٹی سی مسلم ریاست تھی جو ہر طرف سے پٹیالہ اور نابھہ جیسی سکھ ریاستوں میں گھری ہوئی تھی مگر سکھ اس ریاست کا بہت احترام کرتے تھے۔ سکھوں کے دسویں گورو کو جب بغاوت کرنے پر مغل فوجوں نے شکست دے کر قتل کر دیا تو اس کے دو بیٹے پناہ کے لیے نواب مالیر کوٹلہ کے پاس پہنچ گئے۔ نواب نے انہیں‌ پناہ دی اور کی جان بچائی تھی۔ اس وجہ سے سکھ اس ریاست کا احترام کرتے تھے۔ مشرقی پنجاب میں جس قدر قتل وغارت، ظلم اور فساد ان دنوں ہوا، مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ ان کی مال، جان، عزت، حرمت کوئی چیز محفوظ نہ رہی اور ظلم وبربریت، وحشت و درندگی کی وہ قیامت برپا کی گئی کہ شیطان نے بھی پناہ مانگی ہوگی۔ اس میں زیادہ تر حصہ سکھوں کا تھا۔ سکھ کی باقاعدہ فوج نے پوری حیوانیت کا مظاہرہ کیا اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ اس عرصہ میں بھی مالیر کوٹلہ کے بارے میں سکھوں نے اپنے مذہبی عہد کا پاس کیا اور اس ریاست کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ بلکہ یہ ریاست اردگرد کے مسلمانوں کے لیے ایک طرح پناہ گاہ بن گئی جو اس کی سرحد کے اندر پہنچ گیا وہ محفوظ ہوگیا، بعد میں یہاں ایک کیمپ قائم کردیا گیا۔ پناہ کی تلاش میں مسلمان وہاں پہنچ جاتے تھے اور ایک معاہدہ کے تحت پاکستان سے آنے والی بسیں اور ٹرک انہیں‌ لے جاتے تھے۔
مولوی حمید حسن صاحب کے ساتھ میرے مرشد بزرگوار تایا جی کے اس قدر مخلصانہ تعلقات تھے کہ مولوی سجادگی کی دستاربندی کے لیے بطور خاص تشریف لائے تھے کہ میری دستار بندی ان کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ اللہ تعالٰی ان بزرگوں کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی محفلوں‌، مجلسوں، نمازوں، مسجدوں، مدرسوں، صحبتوں میں بھی کبھی شائبہ تک نہیں ہوا کہ مسلکی اختلافات بھی کوئی چیز ہوتے ہیں۔ مولوی حمید حسن صاحب کے آنے کی خبر ملی تو میرے تایا جی ان سے ملنے کے لیے گئے اور یہیں سے میرے پاکستان آنے کا ذریعہ اللہ تعالٰی نے پیدا فرما دیا۔ ان کے ساتھ فوج کا حفاظتی دستہ تھا۔ ایک ہفتہ کے بعد انہیں واپس مالیر کوٹلہ پہنچنا تھا۔ مالیر کوٹلہ سے پاکستان پہنچنا اس طرح‌ ممکن تھا کہ وہاں کے کیمپ سے ہفتہ دو ہفتہ بعد کوئی نہ کوئی قافلہ پاکستان آتا رہتا تھا۔ بزرگوار تایا جی نے وہیں یہ طے کردیا تھا کہ وہ مجھے ساتہ لے جائیں گے اور روڑکی مدرسہ میں آکر مجھے اس کی اطلاع دے دی۔ میرا کورس مکمل ہوچکا تھا۔ مدرسہ کے مہتمم سے امتحان جلد دینے کی اجازت لی۔ ایک دن کے نوٹس پر امتحان دیا اور میرے لیے تو گویا سوکھے دھانوں‌ پر پانی پڑ گیا تھا۔ مجھے تو گمان بھی نہیں‌ تھا کہ اس قدر آسان اور محفوظ راستہ پاکستان آنے کا مل جائے گا۔ میری خوشی اور شوق کا ٹھکانہ نہیں‌ تھا۔ مدرسہ سے سرٹیفکیٹ حاصل کئے۔ سامان سمیٹنا، بچا کھچا سامان طالب علموں میں تقسیم کیا۔ سب سے بڑی گرمجوشی سے ساتھ رخصت ہوا اور گاؤں پہنچ گیا۔ وہاں‌ سفر میں ساتھ لے جانے کا سامان باندھا۔ ایک چھوٹا سا بستر اور ایک چھوٹا سا جستی ٹرنک۔ یہ میرا کل اسباب تھا تاکہ ضرورت پڑنے پر اسے خود اٹھا سکوں اور سفر میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بزرگوار قبلہ تایا جی مجھے رخصت کرنے پور قاضی تک آئے۔ وہاں مولوی حمید حسن کے سپرد کیا۔ مولوی صاحب کو ایک شادی میں دیوبند شرکت کرنی تھی اس لیے مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ تایا جی سے رخصت ہوکر میں ان کے ساتھ دیوبند چلا گیا۔ ان دنوں پور قاضی سے دیوبند تک کچا راستہ تھا۔ بیل تانگوں میں یہ سفر طے کیا۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔ راستہ کا گردوغبار اس پر مستزاد سفر کافی سخت محسوس ہوا۔ البتہ دوسرے دن وہاں سے مظفر نگر تک ریل گاڑی کا سفر تھا۔ مظفر نگر سے 21 جون کو شام چار بجے کی گاڑی سے روانہ ہوئے۔ حفاظتی
 

ابو کاشان

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
پروف ریڈنگ : ابو کاشان


ریاستی فوج کا ایک مسلح دستہ ان کے ساتھ تھا۔ یہ ریاست مالیر کوٹلہ ایک چھوٹی سی مسلم ریاست تھی جو ہر طرف سے پٹیالہ اور نابھہ جیسی سکھ ریاستوں میں گھری ہوئی تھی مگر سکھ اس ریاست کا بہت احترام کرتے تھے۔ سکھوں کے دسویں گورو کو جب بغاوت کرنے پر مغل فوجوں نے شکست دے کر قتل کر دیا تو اس کے دو بیٹے پناہ کے لیے نواب مالیر کوٹلہ کے پاس پہنچ گئے۔ نواب نے انہیں‌ پناہ دی اور ان کی جان بچائی تھی۔ اس وجہ سے سکھ اس ریاست کا احترام کرتے تھے۔ مشرقی پنجاب میں جس قدر قتل و غارت، ظلم اور فساد ان دنوں ہوا، مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ ان کی مال، جان، عزت، حرمت کوئی چیز محفوظ نہ رہی اور ظلم و بربریت، وحشت و درندگی کی وہ قیامت برپا کی گئی کہ شیطان نے بھی پناہ مانگی ہوگی۔ اس میں زیادہ تر حصہ سکھوں کا تھا۔ سکھ کی باقاعدہ فوج نے پوری حیوانیت کا مظاہرہ کیا اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ اس عرصہ میں بھی مالیر کوٹلہ کے بارے میں سکھوں نے اپنے مذہبی عہد کا پاس کیا اور اس ریاست کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ بلکہ یہ ریاست اردگرد کے مسلمانوں کے لیے ایک طرح پناہ گاہ بن گئی جو اس کی سرحد کے اندر پہنچ گیا وہ محفوظ ہوگیا، بعد میں یہاں ایک کیمپ قائم کردیا گیا۔ پناہ کی تلاش میں مسلمان وہاں پہنچ جاتے تھے اور ایک معاہدہ کے تحت پاکستان سے آنے والی بسیں اور ٹرک انہیں‌ لے جاتے تھے۔

مولوی حمید حسن صاحب کے ساتھ میرے مرشد بزرگوار تایا جی کے اس قدر مخلصانہ اور محبت و یگانگت کے تعلقات تھے کہ میری سجادگی کی دستاربندی کے لیے بطور خاص تشریف لائے تھے اور میری دستار بندی ان کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ اللہ تعالٰی ان بزرگوں کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی محفلوں‌، مجلسوں، نمازوں، مسجدوں، مدرسوں، صحبتوں میں بھی کبھی شائبہ تک نہیں ہوا کہ مسلکی اختلافات بھی کوئی چیز ہوتے ہیں۔ مولوی حمید حسن صاحب کے آنے کی خبر ملی تو میرے تایا جی ان سے ملنے کے لیے گئے اور یہیں سے میرے پاکستان آنے کا ذریعہ اللہ تعالٰی نے پیدا فرما دیا۔ ان کے ساتھ فوج کا حفاظتی دستہ تھا۔ ایک ہفتہ کے بعد انہیں واپس مالیر کوٹلہ پہنچنا تھا۔ مالیر کوٹلہ سے پاکستان پہنچنا اس طرح‌ ممکن تھا کہ وہاں کے کیمپ سے ہفتہ دو ہفتہ بعد کوئی نہ کوئی قافلہ پاکستان آتا رہتا تھا۔ بزرگوار تایا جی نے وہیں یہ طے کر دیا تھا کہ وہ مجھے ساتھ لے جائیں گے اور روڑکی مدرسہ میں آ کر مجھے اس کی اطلاع دے دی۔ میرا کورس مکمل ہوچکا تھا۔ مدرسہ کے مہتمم سے امتحان جلد دینے کی اجازت لی۔ ایک دن کے نوٹس پر امتحان دیا اور میرے لیے تو گویا سوکھے دھانوں‌ پر پانی پڑ گیا تھا۔ مجھے تو گمان بھی نہیں‌ تھا کہ اس قدر آسان اور محفوظ راستہ پاکستان آنے کا مل جائے گا۔ میری خوشی اور شوق کا ٹھکانہ نہیں‌ تھا۔ مدرسہ سے سرٹیفکیٹ حاصل کئے۔ سامان سمیٹا، بچا کھچا سامان طالب علموں میں تقسیم کیا۔ سب سے بڑی گرمجوشی کے ساتھ رخصت ہوا اور گاؤں پہنچ گیا۔ وہاں‌ سفر میں ساتھ لے جانے کا سامان باندھا۔ ایک چھوٹا سا بستر اور ایک چھوٹا سا جستی ٹرنک۔ یہ میرا کل اسباب تھا تاکہ ضرورت پڑنے پر اسے خود اٹھا سکوں اور سفر میں دقّت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

بزرگوار قبلہ تایا جی مجھے رخصت کرنے پور قاضی تک آئے۔ وہاں مولوی حمید حسن کے سپرد کیا۔ مولوی صاحب کو ایک شادی میں دیوبند شرکت کرنی تھی اس لیے مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ تایا جی سے رخصت ہو کر میں ان کے ساتھ دیوبند چلا گیا۔ ان دنوں پور قاضی سے دیوبند تک کچا راستہ تھا۔ بیل تانگوں میں یہ سفر طے کیا۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔ راستہ کا گرد و غبار اس پر مستزاد۔ سفر کافی سخت محسوس ہوا۔ البتہ دوسرے دن وہاں سے مظفر نگر تک ریل گاڑی کا سفر تھا۔ مظفر نگر سے 21 جون کو شام چار بجے کی گاڑی سے روانہ ہوئے۔ حفاظتی
 
Top