ٹائپنگ مکمل پاکستان ہماری منزل تھا : صفحہ 3

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
AAPBeeti004.gif
 

شکاری

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد


زمانہ میں فرقہ بندی اور عقیدہ کے اختلافات کی یہ صورت نہ تھی جواب ہوگئی ہے۔ چنانچہ مجھے تعلیم کے لیے مدرسہ رحمانیہ میں داخل کرایا گیا جو دارلعلوم دیوبند کی شان تھی۔ وہاں دیوبند کا نصاب پڑھایا جاتا تھا اور دیوبند سے ہی ممتحن آیا کرتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی(رح) سے میری ملاقات اسی جگہ ہوئی جب ممتحن کی حثیت سے ہمارے مدرسہ میں تشریف لائے۔ میں امتحان کے لیے پیش ہوا تو ہمارے استاد نے حسب دستور میرا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ
“یہ طالب علم ہماری ایک نزدیکی خانقاہ کا سجادہ ہے۔ دوسرے طالب علموں کی طرح مدرسہ سے کوئی مدد یا وظیفہ نہیں لیتا ہے اور اپنے کھانے کا انتظام بھی خود کیا ہوا ہے۔“
اس پر انہوں نے مجھ پر بہت شفقت فرمائی۔ امتحانی سوالات کے علاوہ ذاتی حالات بھی پوچھتے رہے اور پیران کلیر سے عقیدت اور وابستگی کا اظہار کیا۔ یہ اس لیے تھا کہ اہم دیوبند تمام کے تمام چشتی صابری سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس موقع پر کسی شخص کو یہ حیرانی نہیں ہوئی کہ ایک خانقاہ سے تعلق والا لڑکا دیوبند کے مدرسہ میں تعلیم پارہا ہے۔ بلکہ میں نے تو اس دوران دونوں مسلکوں سے تعلق رکھنے والے اکابر کے درمیان محبت، خلوص اور یگانگت کے جو مظاہر مشاہدہ کئے وہ میری طبیعت اور مزاج کی بنیاد کا حصہ ہیں۔ اسی لیے آج ان دونوں مسالک سے پیروکار جس طرح ایک دوسرے سے الگ اور دور ہوگئے ہیں اسے اسلامی اخلاق کی حدود سے بہت بعید تصور کرتا ہوں۔
مدرسہ رحمانیہ میں میرے سوا تمام طلباء دیوبندی مسلک کے حامل تھے۔ ان کے ساتھ میرا اختلاف صرف سیاسی تھا۔ وہ کانگریس کے حامی تھے اور میں مسلم لیگ کی حمایت کرتا تھا۔ دینی لحاظ سے ان دنوں کا کوئی اختلاف مجھے یاد نہیں ہے۔ اذان اور نماز کی ادائیگی کے طریقہ میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ کسی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے وقت ایس کوئی بات نمایاں نہیں ہوتی تھی جس سے مسلک کا پتہ چل سکے۔ سیاسی اختلاف بھی زبانی کلامی، گفتگو اور بحث کی حد تک تھا۔ ورنہ ہم اکٹھے رہتے تھے اور اکٹھے پڑھتے تھے اور ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔ البتہ ایک واقع ایسا ہوا جو ناخوشگوار تھا۔ بجنور کا ایک طالب علم عبدالرشید اصولی بحث کرتے کرتے ذاتیات پر اتر آیا اور سیدھا سرسید پر حملہ آور ہوا۔
“اسے مسلمان کون کہتا ہے۔ محض‌ انگریزوں کا پٹھو تھا۔ گلے میں رسولی تھی اس چھپانے کے لیے داڑھی بڑھالی تھی۔“ اس پر ظاہر ہے مجھے بھی طیش آگیا ہوگا اور کچھ نامناسب بات کہہ دی ہوگی کہ اسی عبدالرشید نے صدر معلم کے نام ایک لمبی چوڑی درخواست لکھی۔
اس کا خلاصہ یہ تھا:
“ یہ رافضی بچہ ہمارے اکابر کو گالیاں دیتا ہے۔“
حالانکہ گالی سے اللہ تعالٰی نے میری زبان اور قلم کو ہمیشہ بچائے رکھا ہے۔
صدر معلم مولانا عبدالرؤف بہت مشفق استاد تھے۔ انہوں نے یہ درخواست ملنے پر پہلے تو مجھ سے ساری کہانی سنی، اس کے بعد عبدالرشید کی روداد سنی۔ اس کے بعد تمام طالب علموں کو اکٹھا کرکے صلح صفائی کرادی اور ہم پھر پہلے کی طرح مل جل کر رہنے لگے۔ اور 3 جون 1947ء کو قیام پاکستان کا اعلان ہم سب نے ایک جگہ بیٹھ کر سنا۔ ایک مسلمان کتابوں والے کی دوکان پر ریڈیو تھا۔ ہم سب طالب علم مل کر شام کو یہ اعلان سننے کے لیے وہاں گئے۔ جواہر لال نہرو نے اپنی تقریر کے آخر میں “جئے ہند “ کا نعرہ لگایا اور قائد اعظم نے ریڈیو پر اپنی پہلی تقریر کے آخر میں “پاکستان زندہ باد: کہا تو گویا میرے ہم خیال مسلمانوں کو نئی زندگی مل گئی۔
3 جون کے اعلان کی توجیہات ہم اپنی اپنی پسند اور اپنے اپنے تعصبات کے تحت کرتے رہے اور سیاسی موضوعات پر ہماری گفتگو اور بحث مباحثہ کچھ زیادہ وقت پر حاوی ہوگیا۔ ادھر شہر کی فضا کچھ بدلی بدلی سی لگنے لگی۔
 

ابو کاشان

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
پروف ریڈنگ : ابو کاشان


زمانہ میں فرقہ بندی اور عقیدہ کے اختلافات کی یہ صورت نہ تھی جواب ہوگئی ہے۔ چنانچہ مجھے تعلیم کے لیے مدرسہ رحمانیہ میں داخل کرایا گیا جو دارلعلوم دیوبند کی شان تھی۔ وہاں دیوبند کا نصاب پڑھایا جاتا تھا اور دیوبند سے ہی ممتحن آیا کرتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے میری ملاقات اسی جگہ ہوئی جب ممتحن کی حثیت سے ہمارے مدرسہ میں تشریف لائے۔ میں امتحان کے لیے پیش ہوا تو ہمارے استاد نے حسب دستور میرا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ
"یہ طالب علم ہماری ایک نزدیکی خانقاہ کا سجادہ ہے۔ دوسرے طالب علموں کی طرح مدرسہ سے کوئی مدد یا وظیفہ نہیں لیتا ہے اور اپنے کھانے کا انتظام بھی خود کیا ہوا ہے۔"
اس پر انہوں نے مجھ پر بہت شفقت فرمائی۔ امتحانی سوالات کے علاوہ ذاتی حالات بھی پوچھتے رہے اور پیران کلیر سے عقیدت اور وابستگی کا اظہار کیا۔ یہ اس لیے تھا کہ اہلِ دیوبند تمام کے تمام چشتی صابری سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس موقع پر کسی شخص کو یہ حیرانی نہیں ہوئی کہ ایک خانقاہ سے تعلق والا لڑکا دیوبند کے مدرسہ میں تعلیم پا رہا ہے۔ بلکہ میں نے تو اس دوران دونوں مسلکوں سے تعلق رکھنے والے اکابر کے درمیان محبت، خلوص اور یگانگت کے جو مظاہر مشاہدہ کئے وہ میری طبیعت اور مزاج کی بنیاد کا حصہ ہیں۔ اسی لیے آج ان دونوں مسالک سے پیروکار جس طرح ایک دوسرے سے الگ اور دور ہوگئے ہیں اسے اسلامی اخلاق کی حدود سے بہت بعید تصور کرتا ہوں۔
مدرسہ رحمانیہ میں میرے سوا تمام طلباء دیوبندی مسلک کے حامل تھے۔ ان کے ساتھ میرا اختلاف صرف سیاسی تھا۔ وہ کانگریس کے حامی تھے اور میں مسلم لیگ کی حمایت کرتا تھا۔ دینی لحاظ سے ان دنوں کا کوئی اختلاف مجھے یاد نہیں ہے۔ اذان اور نماز کی ادائیگی کے طریقہ میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ کسی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے وقت ایسی کوئی بات نمایاں نہیں ہوتی تھی جس سے مسلک کا پتہ چل سکے۔ سیاسی اختلاف بھی زبانی کلامی، گفتگو اور بحث کی حد تک تھا۔ ورنہ ہم اکٹھے رہتے تھے اور اکٹھے پڑھتے تھے اور ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔ البتہ ایک واقعہ ایسا ہوا جو ناخوشگوار تھا۔ بجنور کا ایک طالب علم عبدالرشید اصولی بحث کرتے کرتے ذاتیات پر اتر آیا اور سیدھا سرسید پر حملہ آور ہوا۔

"اسے مسلمان کون کہتا ہے۔ محض‌ انگریزوں کا پٹھو تھا۔ گلے میں رسولی تھی اسے چھپانے کے لیے داڑھی بڑھا لی تھی۔“ اس پر ظاہر ہے مجھے بھی طیش آ گیا ہوگا اور کچھ نامناسب بات کہہ دی ہوگی کہ اسی عبدالرشید نے صدر معلم کے نام ایک لمبی چوڑی درخواست لکھی۔
اس کا خلاصہ یہ تھا:
"یہ رافضی بچہ ہمارے اکابر کو گالیاں دیتا ہے۔"
حالانکہ گالی سے اللہ تعالٰی نے میری زبان اور قلم کو ہمیشہ بچائے رکھا ہے۔
صدر معلم مولانا عبدالرؤف بہت مشفق استاد تھے۔ انہوں نے یہ درخواست ملنے پر پہلے تو مجھ سے ساری کہانی سنی، اس کے بعد عبدالرشید کی روداد سنی۔ اس کے بعد تمام طالب علموں کو اکٹھا کر کے صلح صفائی کرا دی اور ہم پھر پہلے کی طرح مل جل کر رہنے لگے۔ اور 3 جون 1947ء کو قیام پاکستان کا اعلان ہم سب نے ایک جگہ بیٹھ کر سنا۔ ایک مسلمان کتابوں والے کی دوکان پر ریڈیو تھا۔ ہم سب طالب علم مل کر شام کو یہ اعلان سننے کے لیے وہاں گئے۔ جواہر لال نہرو نے اپنی تقریر کے آخر میں “جئے ہند “ کا نعرہ لگایا اور قائد اعظم نے ریڈیو پر اپنی پہلی تقریر کے آخر میں “پاکستان زندہ باد: کہا تو گویا میرے ہم خیال مسلمانوں کو نئی زندگی مل گئی۔

3 جون کے اعلان کی توجیہات ہم اپنی اپنی پسند اور اپنے اپنے تعصبات کے تحت کرتے رہے اور سیاسی موضوعات پر ہماری گفتگو اور بحث مباحثہ کچھ زیادہ وقت پر حاوی ہوگیا۔ ادھر شہر کی فضا کچھ بدلی بدلی سی لگنے لگی۔
 
Top