پاکستان کے پوشیدہ تفریحی مقامات۔۔۔

بابا خرواری Baba Kharwari,زیارت، بلوچستان۔
بابا خرواری کے نام سے منسوب قدرتی حسن سے مالا مال یہ علاقہ زیارت سے 8 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔
mam_2866.jpg


dsc_3102.jpg
 

وجی

لائبریرین
گڈانی کو بھی آج کل کے حالات کے حساب سے اس فہرست میں شامل سمجھیے۔۔ نیز گورکھ ہل کے اطراف ڈاکوں اور پیشہ ور اغوا کنندگان کی محفوظ پناہ گاہیں ہے ان پناہ گاہوں تک پہنچنے کے لئے بھی کسی وڈیرے کا سایہ چاہیے:eek: لیکن واپس آنے کے لئے بہت سا پیسا۔۔۔ :rolleyes:

ایسی بات نہیں گدانی جانے کے لیئے اگر فیملی بس کر والیں تو ٹھیک رہے گا بس ڈرائیور اگر بلوچ یا مکرانی ہو تو کافی ہے
کوئی خاص مسلہ نہیں ہوتا باقی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ حالات اتنے اچھے نہیں تو پھر خطرہ مول لینے کی ضرور نہیں ۔۔۔ اور خوش رہیں
 
بابا خرواری Baba Kharwari زیارت، بلوچستان۔۔
بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر156 کلو میٹر دور زیارت کا صحت افزائ، خوبصورت اور انتہائی سرد مقام واقع ہے، جہاں بانیءپاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے۔ زیارت کی پُرفضا، خوبصورت اور پہاڑی پر واقع یہ وادی قائداعظمؒ کو بہت پسند تھی۔ وہ اکثر اس وادی میں آتے تھے۔زیارت کی وادی بلوچستان کا انتہائی سرد مقام ہے۔ موسم سرما، یعنی اکتوبر تا مارچ تک لوگ یہاں نہیں رہتے۔ سرکاری ریسٹ ہاو¿سز اور بنگلوں میں صرف ملازمین اور چوکیدار نظر آتے ہیں۔ یہ علاقہ اپنے قدرتی حسن کی بناءپر انیسویں صدی کے وسط میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی نظر میں آگیا اور اسے گرمائی مقام تجویز کیا گیا۔ 1882ءمیں یہاں ریذیڈنسی بنا دی گئی۔ 1887ءمیں اسے برطانوی حکومت نے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ دوسرے عہدیداروں کے مکانات اور دفاتر بنا دئیے گئے۔ زیارت کا قدیم نام کو شکی تھا۔ اٹھارہویں صدی میں یہاں ایک بزرگ بابا خرواری رہے تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو ان کو جنوب میں 9 کلومیٹر دور دفن کر کے مزار تعمیر کیا گیا ۔لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے، جس کی وجہ سے اس کا نام زیارت پڑ گیا۔ 1886ءمیں اسے باقاعدہ زیارت کا نام دے دیا گیا۔ 1903ءمیں ضلع سبی کا گرمائی صدر مقام قرار دیا گیا۔1974ءمیں اسے تحصیل کا درجہ دے دیا گیا اور 1986ءمیں ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ ۔ زیارت جہاں دنیا کا دوسرا بڑا صنوبر کا جنگل بھی ہے اور جو کہ دو لاکھ سینتالیس ہزار ایکڑ کے رقبے پرپھیلا ہوا ہے۔ اگرچہ یہ کوئی گھنا جنگل نہیں ہے مگر صنوبر کے درخت کی لمبی عمر کے حساب سے اور اس کے طبّی فوائد کے حوالہ سے اس جنگل اور اس مقام کی مقبولیت بہت زیادہ ہے۔
بابا خرواری کے مزار کے اطراف کا علاقہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔۔
بابا خرواری کے مزار کی طرف جانے والا روڈ

خرواری بابا کے مزار سے وادی کا منظر

ایک اور منظر
 
پیر غائب،ضلع بولان، بلوچستان Pir Ghaib
سبی سےبذریعہ بولان روڈ کوئٹہ جاتے ہوئے مچھ شہر سے پندرہ بیس کلومیٹر پہلے ایک راستہ پیر غائب کے علاقے کی طرف جاتا ہے۔ پیر غائب کاسر سبز و شاداب سیاحتی مقام اس سنگلاخ پہاڑی علاقے صحرا میں نخلستان کی مانند دکھتا ہے، تاہم بد امنی کی وجہ سے اب یہاں بیرونی سیاحوں کی آمد ورفت بہت کم ہوگئی ہے اور صرف مقامی اورقریب وجوار کے لوگ ہی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
23734748.jpg

گوگل میپ سے
8718735857_8623849d6e_b.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان پاکستان کے پوشیدہ تفریحی مقامات۔۔۔ کی بجائے پاکستان کے غیر معروف تفریحی مقامات۔۔۔ ہو جائے تو زیادہ اچھا رہے گا۔
 
اروڑ نزد روہڑی ، سندھ (Arorr)
سکھر سے دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد(روہڑی کے بعد) یکدم ایک صحرا نما علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اروڑ کا قدیم علاقہ ہے جہاں سےپچاس ہزار سال پرانے پتھر کے اوزار دریافت ہوئے ہیں۔ یہ چُونے کے پہاڑ اور چقماق کی کانیں راجہ داہر کی راجدھانی ہے جہاں محمد بِن قاسم نےمسجد بھی بنوائی۔ کہاجاتا ہے یہاں سکندرِاعظم نے بھی پڑاؤ کیا۔
8299213745_8f89b9cd3c_b.jpg
تاریخی اہمیت کی حامل یہ جگہ کبھی بھی سیاحتیHot Spot نہیں سمجھی گئی لیکن اس جگہ کچھ ایسی کشش یا پراسراریت یقیناہے جو پہلی نظر میں ہی دیکھنے والے کو اپنے قدرتی حسن کا اثیر کرلیتی ہے۔ نیز قومی شاہراہ اور روہڑی بائی پاس کے انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے ایڈونچر کے شوقین مسافر یہاں کے قدرتی مناظر سے ضرور استفادہ کرتے ہیں۔
یہاں جانے کا اتفاق ہوا ﴿جب رہائش سکھر میں تھی﴾، لیکن بدقسمتی سے اس دور میں موبائیل اور ڈیجیٹل کیمرے کی سہولیات میسر نہیں تھی، لیکن ہمارے چھوٹے بھائی صاحب کے پاس انکے ایک دورے کی تصاویر ﴿ڈیولیپڈ حالت میں﴾ محفوظ ہیں ، اسکین کرکے شریک محفل کرنے کوشش کروں گا۔ انشا اللہ۔۔
51277721.jpg

پہاڑی کے اوپر سے ایک تصویر ﴿نا جانے یہ صاحب کون ہیں﴾
محمد بن قاسم رحمتہ اللہ علیہ کے دور کی مساجد کے آثار آج بھی یہاں موجود ہیں لیکن انکی حالت۔۔
Bin-Qasim-Masjid-Sindh.jpg

Bin-Qasim-Masjid-Ruins.jpg

گوگل میپ میں دیکھیں
8720080328_66c6b778df_b.jpg
 
اورماڑہ بیچ اور اورماڑہ کی ساحلی چٹانیں
تحصیل اورماڑہ بلوچستان (پاکستان) کے ضلع گوادر کی ایک تحصیل ہے۔ کراچی سے 240 کلومیٹر دور گوادر ﴿بذریعہ کوسٹل ہائی وے﴾ کے راستے میں واقع ہے۔ اس کا مرکزی شہر اورماڑہ کہلاتا ہے۔ 99 فی صد لوگ مسلمان ہیں۔ یہاں ایک چھوٹی بندرگاہ ہے اورپاکستان کی بحریہ کا ایک اڈہ جناح نیول بیس کے نام سے موجود ہے۔ بعض جغرافیہ دانوں اور مورخین نے اورماڑہ کو یار کنوائی اور اس کی بندرگاہ کو وباجیرا کے نام سے یاد کیا ہے۔ یہاں سے زیادہ ترخشک مچھلیاں اور چٹائیاں باہر بھیجی جاتی تھیں جبکہ بیرون ممالک سے یہاں تجارتی سامان آتا تھا۔سنہ 1945ءمیں یہاں شدید زلزلے کے باعث متعدد جانیں، مچھلیاں پکڑنے کا سامان اور کشتیاں تباہ ہو گئی تھیں۔
اورماڑہ کا ساحل ﴿تصاویر بشکریہ لنک
2528042206_659d4d8fac_b.jpg

اورماڑہ کے راستے میں پیٹرول کی "دوکان"
2528055258_4d11991ea4_b.jpg

اورماڑہ کا ساحل
2527239429_1148dc48f9_b.jpg

اورماڑہ پہاڑی سے تصویر بشکریہ لنک

2355267696_ccb06175fb_o.jpg

اورماڑہ بیچ پہاڑی سے ایک منظر
2354629086_eefa672713_o.jpg

2354629544_2258c07fd1_o.jpg
 
وادیِ مولہ، خضدار، بلوچستان
وادی مولہ میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جو کسی بھی سیاحتی مقام کا خاصہ ہوتی ہیں، تھوڑی سی توجہ اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ وطن عزیز کا یہ خوبصورت اور تاریخی گوشہ نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ارض پاک کے ایک خوبصورت تفریحی اسپاٹ کے طور پر متعارف کرایا جاسکتا ہے۔ صاف اور شفاف چشمے بڑی بڑی چٹانوں اور بلند و بالا پہاڑوں سے نکل کر بل کھاتے ہوئے راستے بناتے ہوئے بڑے بڑے پتھروں سے اٹھکیلیاں کرتے اللہ کی بڑائی کا ورد کرتے ہوئے قدم بہ قدم لہلہاتی ہوئی فصلوں کی صورت میں زمین کو سبز چادر پہنا کر خلق خدا کے لئے سامان حیات پیدا کردیتے ہیں ایسے ہی مناظر وادی مولہ میں قدم قدم پر نظر آتے ہین۔
3216653309_3bf6a80cc7_z.jpg

تصاویر بشکریہ شکیل بلوچ
3173973600_6d9a161156_b.jpg


3216667035_1f657cc2c1_z.jpg
 
بنجوسہ جھیل Banjosa Lake راولاکوٹ،
راولاکوٹ، آزاد کشمیر سے 20 کلو میٹر کی مسافت پر موجودیہ مقام سطح سمندر سے 2000 میڑ بلند ہے۔
تصاویر بشکریہ لنک

3762244032_e9cb7d03bb_b.jpg

گوگل میپ میں دیکھیں
8722720366_d976cdc6f2_b.jpg

مزید تصاویر

3762243544_3d8e8bcdc1_b.jpg



3762242752_54c88ca1dd_b.jpg
 
فورٹ منرو، ڈیرہ غازی خان، پنجاب

فورٹ منرو ڈیرہ غازیخان کا ایک خوبصورت تفریحی مقام ہے۔ اسے ایک انگریز جنرل منرو نے متعارف کرایا تھا۔ یہ علاقہ اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے لیکن اس پر تھوڑی سی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس کا مقابلہ مری سے کیاجاسکتا ہے۔ پانچ سال بعد مسلسل دو تین سالوں سے یہاں برفباری ہورہی ہے۔
8050991274_c5aa3ba9d6_b.jpg


2662370257_4135f2b8b2_b.jpg
 

nida ali

محفلین
جی ہاں کم معروف یا "عوام الناس" کی نظروں سے پوشیدہ کہہ سکتے ہیں۔ اور بقول امجد میانداد بھائی قدرت کی ان چھوئی خوبصورتی۔۔۔​
 
Top