پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آسکتے، بھارتی وزیراعظم

حسان خان

لائبریرین
دھیرج میرے بھائی۔۔۔
اس محفل کے لوگ آپ ہی کو لبرل سمجھتے ہیں! :)

عثمان بھائی، طنز سمجھیے۔ انسان کا روشن خیال ہونا میرے نزدیک بھی خوبیوں میں شامل ہے۔ لیکن لبرلزززز ایک پل بھی برداشت نہیں ہوتے۔ یہاں وہی مشار الیہ ہیں۔ روشن خیال اور لبرلززز کے فرق سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ :)

جنگ کے طبل سے امن کی بین بہتر ہے چاہے کتنی ہی سڑی ہو اور کتنی ہی دفعہ بجائی جائے۔ :)

امن اور جیو گروپ والوں کی امن کی آشا دو الگ چیزیں ہیں۔ ورنہ امن سے کون انکاری ہے؟ :)
 

طالوت

محفلین
فوج اور آشا والے اپنے اپنے مفاد سے وابستہ ہیں، عوام کی حالت اصل میں سب سے زیادہ خراب ہے ، بمبئی حملوں کے بعد وہاں کی مڈل کلاس نے جنگ کے حق میں جو مظاہرے کئے گئے اور ہمارا جو عوامی مزاج ہے وہ کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ خلیج بلاشبہ محض گانے بجانے یا بارڈروں پہ ناچنےسے پاٹی نہیں جا سکتی۔
 

عثمان

محفلین
عثمان بھائی، طنز سمجھیے۔ انسان کا روشن خیال ہونا میرے نزدیک بھی خوبیوں میں شامل ہے۔ لیکن لبرلزززز ایک پل بھی برداشت نہیں ہوتے۔ یہاں وہی مشار الیہ ہیں۔ روشن خیال اور لبرلززز کے فرق سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ :)

میری رائے میں تو یہ ہم معنی ہیں۔ بہرحال آپ بتائیے کہ کیا فرق ہے ؟ :)
ویسے میں "روشن خیال" کی مصنوعی اصطلاح کی بجائے "لبرل" کی معروف اصطلاح زیادہ پسند کرتا ہوں۔ :)
 

ساجد

محفلین
دونوں ممالک میں باہمی اعتماد کا شدید فقدان ہے اور اس پر مستزاد کہ دونوں اطراف میں شدت پسندی بھی موجود ہے۔ دونوں ممالک جب تک سیاسی مسائل کو افواج کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اب جبکہ دونوں ہی ایٹمی طاقت رکھتے ہیں انہیں معاملات کو سدھارنے کے لئے ذمہ داری دکھانا چاہئیے کیونکہ دونوں ممالک میں سے کوئی بھی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا البتہ اس قسم کی جھڑپوں سے بیرونی طاقتوں کو اس خطے میں مزید پاؤں پسارنے کے مواقع ملیں گے اوربھارت کی طرف سے شروع کردہ حالیہ کشیدگی کا وقت اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
بھارت ،پاکستان کے اندرونی حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے اور بغل میں چھری منہ میں رام رام کے مصداق موقع ملتے ہی کھسیانا ہو جاتا ہے۔ امن قائم کرنے کی ذمہ داری صرف پاکستان پر ہی نہیں بھارت پر بھی ہے لیکن اگر بھارتی حکومت جارحیت پر اترتی ہے تو پاکستان کے لئے امن کا کوئی مطلب باقی نہیں بچتا ۔
 

عسکری

معطل
پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آسکتے، بھارتی وزیراعظم
ویسے کونسا تم ہمیں دال روٹی دیتے تھے جو ہم بھوکے مر جائیں گے ؟ عسکری
 

باباجی

محفلین
impossible
جو بھی یہ کہتاہے کہ ہم تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں
وہ بکواس کرتے ہیں بس
مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں
وہاں کے ہندوؤں کو صرف اپنے آباء کی پرانی رہائشگاہیں دیکھنے میں دلچسپی ہے کسی کا کوئی رشتہ دار یہاں نہیں ہے
جبکہ یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے رشتہ دار ہیں وہاں پر
وہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے تعلقات کی بحالی
 

حسان خان

لائبریرین
ویسے میں "روشن خیال" کی مصنوعی اصطلاح کی بجائے "لبرل" کی معروف اصطلاح زیادہ پسند کرتا ہوں۔ :)

دیکھئے لبرلزم کی اصطلاح سب سے پہلے مغرب میں فرانس میں ڈھالی گئی تھی۔ اس کے مقابلے میں مشرقی زبانوں کی اصطلاحات مصنوعی تر ہی ہوں گی، لیکن چونکہ روشن خیالی سے پاکستان میں لبرلزم ہی مراد لی جاتی ہے، اور یہ فورم بھی اردو محفل ہے، اس لیے یہاں میں روشن خیالی کو جدید لبرلزم کی جگہ پر استعمال کر رہا ہوں۔

میری رائے میں تو یہ ہم معنی ہیں۔ بہرحال آپ بتائیے کہ کیا فرق ہے ؟ :)

روشن خیالی کی اگر مختصر ترین لفظوں میں وضاحت کی جائے تو یہ تنگ نظری کی ضد ہے۔ یعنی انسان کا وسیع القلب ہونا، وسیع المشرب ہونا، اپنے تنگ سانچوں سے نکل کر دنیا کی وسعتوں کو جاننا، کثرت کا احترام کرنا، وغیرہ سب روشن خیالی کے اجزاء ہیں، جنہیں میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
اب اس کے مقابلے میں ہمارے ملک کا ایک طبقہ ہے، جو روشن خیالی کا لبادہ اوڑھ کر، تنگ نظروں سے بھی بڑھ کر تنگ نظری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ان کی روشن خیالی، حقیقی روشن خیالی نہیں، بلکہ ایک طرح کا ذہنی مرض ہے۔ منفرد نظر آنے کا مرض، عوام الناس کو حقیر جاننے کا مرض، خود کو اُن سے برتر سمجھنے اور ظاہر کرنے کا مرض۔ اس طبقے نے چند خود ساختہ روشن خیالی کے کلیے بنا لیے ہیں، اور ان کلیوں کو ماننے والوں کو ہی یہ روشن خیالی کی سند عطا کرتے ہیں۔ بقیہ سب کو جہلاء کا لقب ملتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کو لیجئے۔ چونکہ پاکستان کی عوام الناس پاکستان کو عزیز رکھتی ہے، اس لیے دیسی لبرلززز کا طبقہ عوام الناس سے خود کو منفرد، رفیع، اور مترقی ثابت کرنے کے لیے پاکستان پر بے جا تنقید کرتی ہے۔ پاکستان پر تنقید کرنا غلط نہیں، بڑے بڑے دانشوروں نے اس پر کتب لکھی ہیں، لیکن ان کتب کی علمی اساس ہوتی ہے اور وہ سالوں کی کنجکاوی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جبکہ ہمارے دیسی لبرلزز کا طبقہ صرف فیشن کے مارے ملک و قوم پر گھسی پٹی تنقید کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔
اب امن پر بھی ان کی سطحیت ملاحظہ کیجئے۔ امن ایک لمبے دورانیے کے تدریجی عمل کا نام ہے، جس کے لیے باہمی اعتماد، بڑے مسئلوں کا منصفانہ حل، ماضی کو سمجھنے کے لیے باہمی مکالمہ، افکارِ عامہ میں مثبت تبدیلی اور اس قبیل کی دیگر چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ جبکہ اس مذکورہ بالا کی سطحی سوچ میں امن کے لیے صرف یہ درکار ہے کہ ہم امن کی آشا جیسی بے وقوفیوں میں مگن رہیں، وہاں سے چند اداکار یہاں لے آئیں، یہاں سے چند اداکار اور گلوکار وہاں بھیج دیں، دبئی میں گانے بجانے کا پروگرام ہو جائے، یہاں سنیما گھروں میں بھارتی فلمیں چل جائیں، ہم تقسیمِ ہند کو غلط ثابت کر دیں، اور یوں امن کی چڑیا کو قفس میں قید کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
میں نے اپنے مراسلے میں اسی لیے لربل کے آگے انگریزی زدہ لہجے کی نقالی میں زززز کا اضافہ کر دیا تھا، تاکہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ میری نظر میں روشن خیالی بالذات کوئی مذموم چیز ہے، بلکہ میں یہاں کی اشرافیہ میں پائے جانے والے دیسی لبرلوں کے طبقے کو تضحیک کا نشانہ بنا رہا تھا۔
 
Top