پاکستان کی ٹریفک یہاں کی سیاست اور وی آئی پی کلچر ...

پاکستان کی ٹریفک یہاں کی سیاست اور وی آئی پی کلچر ...
آج مذکورہ بالا عنوان کے حوالے سے دو انتہائی دلچسپ اسٹیٹس پڑھنے کو ملے پہلا ہمارے یار اسیر افغانستان ڈیورنڈ لائن کے قیدی فیض الله خان کا ملاحظہ کیجئے
راوی : فیض الله خان
Faizullah Khan
یہ بیتی شب کا سچا واقعہ ہے جو میرے ساتھ شارع فیصل پہ پیش آیا ۔۔۔۔
چوبیس گھنٹوں سے کچھ اوپر پرانی بات ہے کہ بیٹھے بٹھائے سمندر کی ہوا خوری کا من کیا ، لگ بھگ نو بجے کا عمل ہوگا جب میں بیگم اور بچے سمندر کا قصد کئیے گھر سے روانہ ہوئے ، شارع فیصل کے تیز رفتار ٹریک پہ گاڑی خراماں خراماں جارہی تھی کہ اچانک آگے لاہور کی مشہور بیکری والوں کی جانب سے خریدے گئے ایک چینل کی ہائی روف المعروف کیری ڈبہ سست انداز میں سامنے آگیا ۔ آداب ٹریفک کو پیش نظر رکھیں تو کیری والے نے سخت ترین زیادتی کی تھی لیکن پاکستان میں یہ سب معمول کا حصہ ہے ، خیر میں نے ڈبہ ڈرائیور کو بتیاں ھلکی و تیز کرکے جگہ مانگنے کی کوشش کی لیکن نتیجہ ندارد ، عجب مضحکہ خیز صورتحال بن چکی تھی پورا ٹریک متاثر ہو چلا تھا ۔ جب اندازہ ہوگیا کہ بھائی نے قطعی راستہ نہیں دینا تو میں نے لیفٹ سے اوور ٹیک کیا اور اسکے آگے جاکر وہی حرکت کی جو جوانی میں کیا کرتے تھے یعنی کہ تھوڑا سا آگے ہو کر بریک لگایا ، اسکے تو چودہ طبق روشن ہوگئے میں نے پچھلے شیشے میں اسے بڑبڑاتے دیکھا یقیناً میری سات پشتیں یاد کر رہا ہوگا ، جب اسے میں دیکھ رہا تھا تو عین انہی لمحات میں پولیس والوں کی مخصوص سرخ نیلی بتیاں نظر آئیں حیرت اس بات کی تھی کہ زیادہ دور نہ ہونے کے باوجود کسی قسم کی پی پاں سنائی نہیں دی یہ سب چل ہی رہا تھا کہ میں نے ایک موٹر سائیکل سوار کو اپنی الٹی طرف آتے دیکھا سفید یونیفارم سے اندازہ ہوا کہ ٹریفک سارجنٹ ہے لیکن مجھ سے ذرا پیچھے میگا فون پہ ایک مہذب صدا ابھری پلیز راستہ دیجیئے ۔ تیز رفتار ٹریک چھوڑتے ہوئے جب غور کیا تو پتہ چلا کہ موٹر سائیکل سوار ٹریفک پولیس کا نہیں بلکہ نیول پولیس کا اھلکار تھا ، حیرت کا خوشگوار جھٹکا تب لگا جب میگا فون پہ ہی اھلکار نے شکریہ کا جادوئی لفظ نہایت خوش اخلاقی سے ادا کیا اور اسکے فوری بعد نیوی حکام کی دو جیپیں فراٹے بھرتی گزر گئیں ، یقیناً میں کوئی انوکھا نہیں تھا کہ جس کو تھینک یو کہا گیا یہ مشق وہ اہلکار ہوائی اڈے سے کرتا چلا آرہا ہوگا ۔۔۔
حاصل کلام یہ ہے کہ وی آئی پی موومنٹ ہر لمحہ ہی ہوتی رہتی ہے اور بدتمیز گارڈز شہریوں کو دھتکار کر صیب لوگوں کے واسطے راستہ بناتے ہیں لیکن اتنے طویل عرصے میں پہلی بار کسی سرکاری افسر نے احترام کیساتھ راہ مانگی اور شائستگی کیساتھ شکریہ کہا ۔۔۔۔
اس خوشگوار واقعے کی یاد ابھی تک دماغ سے جڑی ہوئی ہے اور اسوقت تک منسلک رہے گی جب کسی وی آئی پی کے گارڈ کا روایتی انداز نہ دیکھ لوں ۔۔۔
نیول حکام کا شکریہ کہ جنہوں نے غیر ضروری ہوٹر سے گریز اور اچھے اطوار کا مظاہرہ کیا ۔۔۔
اور ہاں وہ پہلے والی گاڑی کا تذکرہ تو ماحول بنانے کے لئیے کیا تھا ، پیٹی بھائی تھا اپنا سات خون معاف ہیں اسے .

اور دوسرا واقعہ محترم جناب غلام مصطفیٰ مبشر صاحب کے ساتھ پیش آیا ملاحظہ کیجئے.
راوی : غلام مصطفیٰ مبشر
Ch Ghulam Mustafa Mubashar

میری زندگی کا سب سے بڑا لطیفہ
۔
آج شام قریباً آٹھ بجے میں بائیک پر کچہری چوک راولپنڈی وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے پھنسا ہوا تھا جی ٹی روڈ لاہور کی جانب سے آنے والی ٹریفک جس میں انقلاب کی کوسٹریں تھیں کافی دی سے پھنسی ہوئی تھیں جن کی چھت پر سوار انقلابیوں کا انقلاب پریشر ڈالتا تو مختلف نعرے لگاتے تھے ان کا صبر جواب دے گیا اور شاید انہوں نے سمجھا کہ یہ ٹریفک ان کا انقلاب روکنے کے لیئے پولیس نے روکی ہے ان میں سے ایک لیڈر ٹائپ چیز آگے آئی اور پولیس والے سے کہا راستہ کھول دو تم ہمیں نہیں روک سکتے پولیس والے نے کہا روٹ لگا ہے معذرت۔
اس پر وہ لیڈر نما چیز تلملاتی ہوئی واپس گئی اور چار پانچ منٹ بعد کم از کم پندرہ بیس مشٹنڈوں مسلح بہ ڈنڈا کے ساتھ دوبارہ وارد ہو گئی کہ راستہ کھولو پولیس والے نے اس لیڈر نما مخلوق کو دیکھ کر عافیت اسی میں جانی کہ کہا “اگے جاؤ اوہ راہ دیندے نیں تے لے لو“ بیس تیس میٹر آگے “اوہ“ آرمی والے تھے جو ان کوسٹر والے انقلابیوں نے نہیں دیکھے تھے ان میں سے ایک فرد نے اپنی واسکٹ ٹائٹ کی اور بڑی مشکل سے شاید ذہن پر مکمل زور ڈال کر وہاں کھڑے فوجی سے بڑے اشتیاق سے سوال کیا “سر جی آپ نے ٹیک اور کر لیا ہے؟“ فوجی بھی کوئی میری طرح کا تھا جھٹ بولا ہاں چار گھنٹے ہو گئے ہیں۔
وہ لیڈر نما چیز گولی کی طرح واپس اپنے مشٹنڈوں میں پلٹی جوش اور خوشی کے مارے اس کے الفاظ نہیں نکل رہے تھے اس نے اعلان کیا کہ میں پتہ کر کے آیا ہوں مارشل لاء لگ گیا ہے ٹریفک فوج نے روکی ہے وہ ملک کنٹرول سنبھال رہے ہیں اور بس جشن شروع۔
خیر میں نے عافیت اسی میں جانی کہ ان کی خوشی کا آبگینہ ٹوٹتے نہ دیکھوں اور موٹر سائیکل فٹ پاتھ پر رانگ چڑھا کر واپس نکل آیا۔
ان دو واقعات پر اگر غور کیا جاوے تو ہماری سیاسی نفسیات اور قومی رجحانات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے دوسری جانب مصنفین کی قوت مشاہدہ اور معاملات کو شگفتہ انداز میں لینے اور انکو دلچسپ انداز میں بیان کرنے کی صلاحیت دیکھ کر تعریف کیے بنا رہا نہیں جا سکتا .
"سو جیتے رہئیے مگر زندہ دلی کے ساتھ "
حسیب احمد حسیب
 
Top