پاکستان کی قومی زبان اردو ہے!

ہر ملک اپنے قومی نشانوں کا شایانِ شان احترام کرتا ہے کیونکہ قومی نشانات اجتماعی فخر کی علامت ہوتے ہیں۔ مگر پاکستان میں جسے بھی قومی درجہ ملا سمجھو جان سے گیا۔

مثلاً اقبال آج سے نہیں پاکستان بننے سے پہلے سے قومی شاعر ہیں مگر ان کا عملی مصرف ماسوائے کچھ نہیں کہ جب کسی سڑک کا مناسب نام سمجھ میں نہ آرہا ہو تو جھٹ شاہراہ اقبال رکھ دیا جائے یا ریڈیو پاکستان سات سے ساڑھے سات بجانے کے لیے کلامِ اقبال استعمال کر لے یا شارٹ کٹ پی ایچ ڈی کے لیے اقبالیات کے کسی ایسے پہلو پر تحقیق کی جائے جو شاعرِ مشرق کے تصور سے بھی بالا رہا ہو۔ جیسے میں اور اقبال ، اقبال کا نظریہِ اڑان ، مسلمانانِ تمل ناڈو اور اقبال، اقبال کی ژولیدگی و رجعتِ قہقری کا پسِ ساختیاتی مطالعہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ کیونکہ یہ زبان صاحب لوگوں اور چوکیدار، ڈرائیور، خانساماں، مالی، دودھ والے، قصائی، پنواڑی، ماسی، مستری، دھوبی اور گریڈ سولہ سے نیچے کے ملازمین کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔

پاکستان کا قومی پھول چنبیلی عرف یاسمین بتایا جاتا ہے۔ مگر اس پھول کی توقیر کا عالم یہ ہے کہ ٹریفک سگنلز پر یاسمین کے گجرے فروخت کرتے غیر سکولی بچے صاحبوں کی ٹھنڈی گاڑی کے بند شیشے کھٹکا کے رہ جاتے ہیں اور مایوس ہو کر اگلی گاڑی کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ آپ کسی بھی منتخب و غیر منتخب نمائندے سے پوچھ لیں گلِ یاسیمن کی توقیر کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا؟ ننانوے فیصد جواب ملے گا ہمارے لیے تو سب مائیں بہنیں بیٹیاں ایک سی ہیں۔۔۔

پاکستان کا قومی جانور مار خور اور قومی درخت دیودار ہے۔ جس زمانے میں ان دونوں کو قومی قرار دیا گیا تب مارخور35 تا 40 ہزار اور دیودار ایک ملین تھے۔آج مارخور لگ بھگ ایک ہزار اور دیودار لگ بھگ ایک لاکھ بچے ہیں۔ کاش ان کے بجائے آوارہ کتے اور سفیدے کو قومی درجہ مل جاتا تو دونوں سے نجات ہو چکی ہوتی۔

اور جناب پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے۔ جب تک واقعی ایسا تھا تب تک قومی ٹیم تین اولمپکس، چار ورلڈ کپ، تین چیمپیئنز ٹرافیاں، آٹھ ایشین گیمز، تین ایشیا کپ، تین ازلان شاہ کپ اور دو ایشین چیمپیئنز ٹرافیاں جیت کے قوم کے قدموں میں رکھتی رہی۔ سب بچوں کو سب کھلاڑیوں کے نام ازبر تھے۔ سب جانتے تھے فلائنگ ہارس سمیع اللہ کون ہے اور سب سے زیادہ گول کرنے والا عالمی ریکارڈ ہولڈر سہیل عباس کون۔ لیکن آج ہاکی ویسے ہی پاکستان کا قومی کھیل ہے جیسے بہادر شاہ ظفر مغل شہنشاہ تھا۔
وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
  • 5 اپريل 2015 کے کالم سے اقتباس
 
Top