پاکستان کی سمت درست نہیں - انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ سروے

جوش

محفلین
سروے کے نتایج بی بی سی کی سایٹ سے لیے گیے ہیں،


انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ (آئی آر آئی) کے تازہ سروے کے مطابق اٹھاسی فیصد پاکستانیوں کے خیال میں ملک غلط سمت میں جا رہا ہے اور اکثر لوگ پیپلز پارٹی حکومت کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔

امریکی ادارے نے یہ سروے رواں سال پندرہ سے تیس اکتوبر کے درمیان کیا جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے پچاس اضلاع کے ساڑھے تین ہزار افراد سے ملکی صورتحال پر رائے معلوم کی گئی۔

سروے کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت ناامیدی اور عدم اطمینان کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ تاہم معاشی مستقبل کے بارے میں لوگوں کی ناامیدی میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

انسٹھ فیصد افراد کے خیال میں آئندہ برس ان کی اقتصادی حالت مزید خراب ہوگی۔ رواں سال جون میں یہ تناسب چھیالیس جبکہ جنوری میں اڑتالیس فیصد تھا۔ اکتوبر میں اٹھہتر فیصد اپنے آپ کو زیادہ غیرمحفوظ بھی قرار دیتے ہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد اس سال جنوری میں یہ تناسب پچاسی فیصد تھا۔

تازہ سروے میں پیپلز پارٹی حکومت کی مقبولیت میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔ محض اکیس فیصد کا جواب مثبت تھا جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آیا ان کے خیال میں نئی حکومت کی اہم مسائل پر کارکردگی کیسی رہی۔ چھہتر فیصد کے خیال میں حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔

جمہوری حکومت اور منتخب پارلیمان کی موجودگی میں حالات کی بہتری سے متعلق ستاسٹھ فیصد پرامید نہیں جبکہ پندرہ فیصد کو امید دکھائی دے رہی تھی۔ محض اٹھائیس فیصد کے خیال میں ملک نے صدر اور فوجی سربراہ کے عہدے علیحدہ ہونے اور صدر مشرف کے مستعفی ہونے سے جمہوریت کے جانب پیش رفت کی ہے جبکہ باون فیصد اس سے متفق نہیں تھے

یس فیصد لوگ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے اتحاد کو بحال ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تاہم ساٹھ فیصد نے ان کی علیحدگی کی ذمہ داری صدر آصف علی زرداری پر ڈالی۔ ستائیس فیصد لوگوں کے خیال میں پیپلز پارٹی اب مسلم لیگ (قاف) کے ساتھ اتحاد استوار کرے گی۔

دہشت گردی کے زمرے میں ساٹھ فیصد افراد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے مذہبی انتہا پسندی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس رائے عامہ میں دس فیصد افراد نے خودکش حملوں کو سب سے اہم مسئلہ قرار دیا۔

زیادہ تر افراد اس حق میں تھے کہ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں تاہم یہ رائے رکھنے والوں میں دس فیصد کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ صرف چون فیصد افراد نے مذاکرات کے حق میں رائے دی۔ جبکہ پینتیس فیصد افراد مذاکرات کے خلاف ہیں۔ مذاکرات کے خلاف رائے رکھنے والے افراد میں جون سے سترہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔

صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے حوالے سے اڑتیس فیصد اس آپریشن کے حق میں تھے جبکہ پچاس فیصد اس کے خلاف تھے۔

خصوص سوال کہ آیا فوجی آپریشن کے حق میں ہیں کیونکہ شدت پسند پاکستانیوں پر خودکش حملے کر رہے تھے تو تریسٹھ فیصد نے ہاں میں جبکہ پچیس فیصد نے نفی میں جواب دیا۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے حلیف ہونے کے حوالے سے اٹھائیس فیصد افراد اس کے حق میں تھے جبکہ تریسٹھ فیصد افراد حریف ہونے کے خلاف تھے۔

معیشت کے شعبے میں اٹھاون فیصد کے خیال میں افراط زر سب سے بڑا مسئلہ ہے جبکہ ستتر فیصد نے کہا کہ پٹرول، قدرتی گیس، گندم اور بجلی کی کمی بھی بڑے مسائل میں شامل ہیں۔

معزول ججوں کے قضیے کے بارے میں اڑتیس فیصد صدر مشرف کی جانب سے نکالے گئے چونٹسھ میں سے اٹھاون کی بحالی سے مطمئن نہیں تھے۔ تاہم تیس فیصد ان اقدامات سے خوش تھے۔

ساٹھ فیصد افراد کے خیال میں اب عدلیہ سے بڑھ کر معیشت اور سکیورٹی کے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اکتیس فیصد تمام ججوں کی بحالی کے لیے احتجاج جاری رکھنے کے حق میں تھے۔

سروے میں شامل تہتر فیصد افراد قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں کے مخالف ہیں البتہ تیرہ فیصد اس کے حق میں بھی تھے۔ تاہم جب ان افراد سے دریافت کیا گیا کہ آیا وہ امریکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کو پہلے اطلاع دینے اور پاکستانی فوج کے تعاون سے ایسی کارروائی کریں تو وہ ان کی حمایت کریں گے تو انچاس فیصد اس کے حق جبکہ پینتیس فیصد اس کے بھی مخالف تھے۔

افغانستان کے رہنما حامد کرزئی کی حکومت کے بارے میں چون فیصد افراد کی رائے تھی کہ وہ بھارت نواز ہیں۔

اسلام آباد میں میریئٹ ہوٹل پر حملے کی بابت پچاس فیصد کا کہنا تھا انہیں نہیں معلوم کہ اس کے پیچھے کون ہے جبکہ بیس فیصد کا شک امریکہ، تیرہ فیصد پاکستان، پانچ فیصد طالبان اور دو فیصد کا دہشت گردوں پر تھا۔

پاکستان میں سیاسی عدم اطمینان سیاستدانوں کی مقبولیت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ تریسٹھ فیصد صدر آصف علی زرداری کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کی مقبولیت اس سروے میں بیس فیصد ہے جبکہ جون کے سروے میں ان کی مقبولیت پینتالیس فیصد تھی۔

تاہم جون کے جائزے میں مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف سب سے مقبول رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ صدر مشرف کے جانے سے ان کی حمایت بڑھی ہے تاہم مقبولیت میں کمی دیکھی گئی ہے۔ جون میں ان کی مقبولیت بیاسی فیصد تھی اور حالیہ سروے میں ان کی مقبولیت اب ساٹھ فیصد پر آگئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لیے بہترین شخصیت کون ہے تو اکتیس فیصد نے نواز شریف جبکہ محض آٹھ فیصد نے زرداری کے حق میں ووٹ دیا۔ بطور صدر انسٹھ فیصد نواز شریف جبکہ انیس فیصد زرداری کے حق میں تھے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے مستقبل کے بارے میں بائیس فیصد انہیں معاف کرنے، اکیس فیصد کوئی سزا دینے جبکہ انسٹھ فیصد کو نہیں معلوم تھا ان کے ساتھ کیا کیا جانا چاہیے۔

دو بڑی سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی کی حمایت میں کافی کمی آئی ہے۔ جون میں بتیس فیصد کے مقابلے میں اب اسے صرف انیس فیصد کی حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حمایت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

موجودہ پاکستانی قانون کے مقابلے میں شریعت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں باسٹھ فیصد شریعت کے حق میں جبکہ چودہ فیصد شریعت کے کردار میں کمی کے خواہاں تھے۔ اڑتالیس فیصد صدر مشرف کی جانب سے پارلیمان سے لیے گئے اختیارات واپس لینے کے حق میں تھے۔ تاہم اڑتیس فیصد صدر کے پاس انہیں رہنے دینا چاہتے تھے۔

پاکستانی اداروں میں میڈیا کے بعد فوج سب سے مقبول ادارہ بن کر سامنے آیا ہے۔ فوج کے حق میں اڑسٹھ فیصد جبکہ میڈیا بہتر فیصد کی حمایت کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

چھبیس فیصد کے خیال میں سویلین حکومت کا فوج پر مکمل کنٹرول ہونا چاہیے جبکہ اڑتالیس فیصد کچھ کنٹرول کے حق میں تھے۔ چھپن فیصد صرف ہنگامی حالات میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے حق میں تھے۔ پینتالیس فیصد کے خیال میں فوج کا اختیار صدر جبکہ چالیس فیصد وزیر اعظم کے پاس ہونے کے حق میں تھے۔

ماضی میں سابق صدر پرویز مشرف نے اس تنظیم کے سروے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حقیقی عوامی رائے کی ترجمانی نہیں کرتے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے خیال میں تازہ سروے کے نتائج کوئی زیادہ حیرت انگیز نہیں ہیں۔

اپنے آپ کو غیرسیاسی اور غیرمنافع بخش قرار دینے والے آئی آر آئی سنہ دو ہزار دو سے اس قسم کے سروے کر رہی ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد دنیا میں آزادی اور جمہوریت کا فروغ ہے جس کے لیے وہ سیاسی جماعتوں اور سول اداروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
 

arifkarim

معطل
خیر حقیقت جاننے کیلئے عوامی رائے لینا بہت ضروری ہے۔ یہاں یورپ میں اسی رائے شماری کے بعد اہم فیصلہ کیے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے ملک میں فیصلہ کرنے کے بعد رائے شماری کروائی جاتی ہے :(
 

جوش

محفلین
اس سروے پر عرفان صدیقی کا روزنامہ جنگ میں کالم ملاحظہ فرمایں۔۔۔

امریکی ادارے، انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹیٹیوٹ (iri) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 88فیصد عوام کا خیال ہے کہ پاکستان درست سمت میں نہیں جارہا۔ 75فیصد حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں، 42فیصد کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو حکومتی کولیشن میں شامل ہوجانا چاہئے۔ 52فیصد کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) ضم ہوجائیں، 52فیصد کا خیال ہے کہ صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے الگ ہوجانے کے باوجود جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکی۔ 31فیصد کا خیال ہے کہ پاکستان کو درپیش مسائل نواز شریف ہی حل کرسکتا ہے، دوسرے نمبر پر آصف زرداری ہیں جنہیں 8فیصد مسیحا خیال کرتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر اگلے ہفتے انتخابات ہوں تو وہ کس جماعت کو ووٹ دیں گے، 35فیصد نے مسلم لیگ (ن) 19فیصد نے پیپلز پارٹی، 3فیصد نے مسلم لیگ (ق) تحریک انصاف اور ایم کیو ایم اور ایک فیصد (ہر ایک کے لئے) نے اے این پی، جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام کے حق میں رائے دی۔
اس طرح کی سروے رپورٹس کلی طور پر قابل اعتماد نہیں ہوتیں۔ انہیں مرتب کرنے والے اداروں کی اپنی سوچ کا رنگ بھی کسی نہ کسی طور ان میں جھلکتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود ان میں عوامی سوچ اور رجحانات کے اشارے بڑے واضح ہوتے ہیں۔ چونکہ انہی رپورٹس کو بنیاد بناکر امریکی تھنک ٹینکس اور حکومتیں اپنا لائحہ عمل مرتب کرتی اور ہمارے مقدر کی صورت گری کے زائچے بناتی ہیں اس لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نتائج، حقائق کے زیادہ سے زیادہ قریب ہوں۔ اگر ان اعداد و شمار کو پوری طرح درست اور حقیقی عوامی سوچ کا عکاس نہ سمجھا جائے تو بھی ان سے راہنمائی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔
سب سے اہم اور توجہ طلب اشارہ یہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت پاکستان کو بے سمتی کا شکار خیال کرتی ہے۔ اس بے سمتی کا سلسلہ برس ہا برس پر محیط ہے اور اس کی بھاری ذمہ داری فوجی آمریتوں پر عائد ہوتی ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ سویلین حکومتیں بھی عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکیں۔ آج جو بیزاری اور بے قراری نظر آتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی عمدہ حکمرانی، بہتر منصوبہ بندی، اچھی حکمت عملی اور ترجیحات کی دانشمندانہ درجہ بندی نہیں کرسکی۔ 18فروری کے انتخابات میں اس کی کامیابی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے ساتھ ساتھ اس کے منشور اور اس کے روایتی عوامی پن کا بڑا ہاتھ تھا۔ این آر او کے باوجود اسے اپوزیشن کی جماعت اور مشرف کا مخالف خیال کیا جاتا تھا۔ خاص طور پر محترمہ کی پاکستان آمد کے بعد یہ تاثر گہرا ہوتا چلا گیا۔ بھٹو کی بیٹی ہونے کے ناتے بے نظیر عوامی جذبہ و احساس کی بہترین نباض تھیں۔ یہاں آتے ہی ان کے استقبالی جلوس میں بم دھماکوں اور پھر عوام سے براہ راست رابطوں کے دوران احساس ہوا کہ آمریت کا عفریت کس طرح کا کھیل کھیل رہا ہے اور مشرف کے بارے میں عوامی نفرت کی شدت کس درجے کو پہنچی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کھل کر آمرانہ پالیسیوں کو چیلنج گیا۔ ایک موقع پر انہوں نے جسٹس افتخار چوہدری اور دیگر جج صاحبان کی بحالی کے مطالبے کو آزاد عدلیہ کے موقف میں بدلنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ یہ نقطہ نظر عوامی امنگوں سے متصادم ہے اور پیپلز پارٹی عوامی احساسات سے انحراف نہیں کرسکتی سو انہوں نے جسٹس افتخار چوہدری کی رہائش گاہ جانے کی کوشش کی۔ پولیس کی بھاری جمعیت نے انہیں روکا۔ کارکنوں پر تشدد بھی ہوا۔ اس کے باوجود محترمہ ججز کالونی پہنچیں۔ جہاں ان کی راہ میں خار دار تاریں بچھا دی گئیں۔ یہیں پر انہوں نے غیر مبہم الفاظ میں اعلان کیا کہ ”میرا چیف جسٹس، افتخار محمد چوہدری ہے۔ ہم اس کے گھر پر پاکستان کا پرچم لہرائیں گے“۔ پاکستانی عوام اور پی پی پی کے حامیوں کی بھاری اکثریت کو یقین ہے کہ اگر محترمہ زندہ ہوتیں تو اپنے وعدے کا پاس کرتیں اور یہ معاملہ احسن طریقے سے حل ہوچکا ہوتا۔ پلوں کے نیچے سے جتنا بھی پانی نکل جائے، یہ تصور بھی غلط ہوگا کہ بے نظیر بھٹو مقبول عوامی جذبات کے دھارے کے متوازی یا مخالف سمت میں چلتیں۔
اگر 88فیصد عوام سوچتے ہیں کہ پاکستان بے سمتی کا شکار ہے اور 75فیصد کے نزدیک حکومتی کارکردگی اطمینان بخش نہیں تو اسے دوسروں کا پروپیگنڈہ یا عوام کے دشمنوں کی سازش قرار دینے کے بجائے پیپلز پارٹی کو ٹھنڈے دل و دماغ سے صورت حال کا جائزہ لینا چاہئے۔ چند سوال بڑے واضح ہیں۔ کیا بہتر نہ ہوتا کہ اعلان بھوربن کے مطابق پارلیمینٹ کی قرارداد کے ذریعے تمام معزول جج بحال کردیئے جاتے؟ اگر ایسا ممکن نہ تھا تو کیا اچھا نہ ہوتا کہ پیپلزپارٹی ایک ہی بار اپنا دو ٹوک موقف واضح کردیتی؟ اگر ججوں کی بحالی ایک بھاری پتھر تھا تو کیا درست نہ ہوتا کہ 7اگست کو ایک اور معاہدے سے گریز کیا جاتا؟ کیا یہ بیان ضروری تھا کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے؟ کیا بہتر نہ ہوتا کہ میثاق جمہوریت پر عمل درآمد کے لئے ابتدا ہی میں ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دے دی جاتی اور خلوص دل کے ساتھ سترہویں ترمیم کے خاتمے کا اہتمام کیا جاتا؟ کیا مناسب نہ ہوتا کہ مشرف دور کے چاروں گورنر تبدیل کرکے متعلقہ صوبوں کی مشاورت سے نئے گورنروں کا تقرر کیا جاتا؟ کیا مناسب نہ ہوتا کہ ہر قیمت پر پی سی او عدلیہ کی حمایت کے بجائے کولیشن برقرار رکھنے کو ترجیح دی جاتی؟ کیا اب بھی ضروری ہے کہ ہر آن الاؤ بھڑکانے اور صدر آصف زرداری کے لئے مشکلات پیدا کرنے والے سلمان تاثیر کو گورنر پنجاب کے عہدے پر برقرار رکھا جائے؟
عوام کی مایوسی کا سبب یہ ہے کہ ان کے سارے خواب ایک ایک کرکے دم توڑ رہے ہیں۔ جمہوری حکومت وہ تبدیلیاں نہیں لاسکی جن کے لئے آٹھ ماہ کا عرصہ کافی ہونا چاہئے تھا۔ نہ صرف لا نہیں سکی، ان تبدیلیوں کے لئے کوئی ابتدائی کاوش یا پیش رفت بھی نہیں کرسکی۔ اس کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے چھوٹے بڑے بحرانوں کے بارے میں بھی اس کا ردعمل اور کارکردگی اطمینان بخش نہیں رہی۔ جسٹس ڈوگر کی بیٹی کے معاملے پر حکومت کو کامل غیر جانبداری کی راہ پر چلتے ہوئے اعلان کرناچاہئے تھا کہ معاملہ آئین و قانون کے مطابق طے ہوگا۔ اس کے برعکس وہ خم ٹھونک کر جسٹس ڈوگر کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور خود پارلیمینٹ کی اتھارٹی پر ضربیں لگانے لگی۔ اس کے وزراء ایک شرمناک قانون شکنی کی وکالت کرنے لگے یہاں تک کہ انتہائی نیک نام اور غیرمتنازع اسپیکر صاحبہ بھی زیر بحث آگئیں۔ ممبئی دھماکوں کے بعد پے درپے ایسے تماشے ہوئے جن سے گمان گزرا کہ حکومت اپنے اعصاب پر قابو نہیں رکھ سکی اور اونچے ایوانوں میں فیصلہ سازی کا کوئی ادارہ جاتی نظام موجود نہیں۔ اب ایک اور لرزہ خیز انکشاف ہوا ہے کہ سلامتی کونسل کی طرف سے جماعت الدعوة ،الرشید ٹرسٹ، الاختر ٹرسٹ اور کچھ شخصیات پر پابندی والی قرارداد کی منظوری میں خود ہماری مرضی و منشا بھی شامل تھی۔
میں نے تو موجودہ حکومت کی حکمت کاری اور جرأت و بہادری کے تناظر میں لکھا تھا کہ اگر پاکستان سلامتی کونسل کی متعلقہ کمیٹی کا رکن ہوتا تو وہ بڑھ چڑھ کر اس کی حمایت کرتا۔ خبر کا یہ پہلو کتنا شرمناک ہے کہ چین کو ویٹو نہ کرنے پر خود اسلام آباد نے قائل کیا۔ اس سے قبل امریکی ذرائع ابلاغ کئی رپورٹیں شائع کرچکے ہیں کہ قبائلی علاقوں پر ڈرونز حملے بھی ہماری خوشدلانہ خفیہ رضا مندی کے ساتھ ہورہے ہیں۔
عوام بے سمتی کا گلہ نہ کریں تو کیا کریں؟ بے اعتباری کی ایسی فتنہ ساماں رُت پہلے تو کبھی نہ آئی تھی۔
 
جھوٹ کا پلندہ ہے امریکی ادارے پھیلارہے ہیں
مثلا یہ بات ہی دیکھ لیں‌کہ الطاف کو 70 فی صدافراد نے مسترد کیا ہے۔ یہ کون 30 فی صدلوگ ہیں‌جو الطاف کو پسند کرتے ہیں۔
سب غلط ہے۔
الطاف کو 98 فیصد افراد مسترد کرتے ہیں۔
 
سروے پر ہلکا پھلکا تبصرہ

تازہ سروے میں پیپلز پارٹی حکومت کی مقبولیت میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔ محض اکیس فیصد کا جواب مثبت تھا جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آیا ان کے خیال میں نئی حکومت کی اہم مسائل پر کارکردگی کیسی رہی۔ چھہتر فیصد کے خیال میں حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔

یہ اکیس فی صد شاید پی پی پی کی اندھادھند حمایت کرنے والے جیالے ہی ہوں گے۔ :grin:

جمہوری حکومت اور منتخب پارلیمان کی موجودگی میں حالات کی بہتری سے متعلق ستاسٹھ فیصد پرامید نہیں جبکہ پندرہ فیصد کو امید دکھائی دے رہی تھی۔

یہ پندرہ فیصدی ہمارے حکومتی وزراء ہوں گے جو ہر وقت "امید سے" رہتے ہیں۔

محض اٹھائیس فیصد کے خیال میں ملک نے صدر اور فوجی سربراہ کے عہدے علیحدہ ہونے اور صدر مشرف کے مستعفی ہونے سے جمہوریت کے جانب پیش رفت کی ہے جبکہ باون فیصد اس سے متفق نہیں تھے۔

اللہ اکبر! باون فیصد کو یہ ادراک ہوگیا کہ صدر مشرف کے مستعفی ہونے کے باوجود جمہوریت کی جانب پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔۔۔ عوام کا کافی حصہ جاگ گیا ہے ماشاء اللہ

لوگ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے اتحاد کو بحال ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تاہم ساٹھ فیصد نے ان کی علیحدگی کی ذمہ داری صدر آصف علی زرداری پر ڈالی۔

غلط بات۔۔۔ آصف زرداری نے تو ہر ممکن کوشش کی تھی اتحاد برقرار رکھنے کی، یہ نواز شریف ہی کو پتا نہیں کیوں اصولوں کی سیاست کا بھوت سوار ہوا تھا۔ :boxing:

پاکستان میں سیاسی عدم اطمینان سیاستدانوں کی مقبولیت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ تریسٹھ فیصد صدر آصف علی زرداری کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کی مقبولیت اس سروے میں بیس فیصد ہے جبکہ جون کے سروے میں ان کی مقبولیت پینتالیس فیصد تھی۔

بے چارے زرداری۔۔۔ :cool:

پاکستانی اداروں میں میڈیا کے بعد فوج سب سے مقبول ادارہ بن کر سامنے آیا ہے۔ فوج کے حق میں اڑسٹھ فیصد جبکہ میڈیا بہتر فیصد کی حمایت کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

ہائےےےے۔۔۔ یہ تو غضب ہی ہوگیا ہمت علی۔ :grin:

:hatoff:
 
یہ اکیس فی صد شاید پی پی پی کی اندھادھند حمایت کرنے والے جیالے ہی ہوں گے۔ :grin:



یہ پندرہ فیصدی ہمارے حکومتی وزراء ہوں گے جو ہر وقت "امید سے" رہتے ہیں۔



اللہ اکبر! باون فیصد کو یہ ادراک ہوگیا کہ صدر مشرف کے مستعفی ہونے کے باوجود جمہوریت کی جانب پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔۔۔ عوام کا کافی حصہ جاگ گیا ہے ماشاء اللہ



غلط بات۔۔۔ آصف زرداری نے تو ہر ممکن کوشش کی تھی اتحاد برقرار رکھنے کی، یہ نواز شریف ہی کو پتا نہیں کیوں اصولوں کی سیاست کا بھوت سوار ہوا تھا۔ :boxing:



بے چارے زرداری۔۔۔ :cool:



ہائےےےے۔۔۔ یہ تو غضب ہی ہوگیا ہمت علی۔ :grin:

:hatoff:
بیٹے غضب تو جب ہوگا جب اپ اس پر کلمہ پڑھ کر ایمان لے ائیں گے
 

جوش

محفلین
یہ تو ہے۔ اسی لیے الطاف کراچی نہیں ارہا۔ لندن میں ہی دبک گیا ہے

الطاف حسین ایک گھاگ سیاست داں ہے اس لیے دبکا ہوا یے، ہماری ایک اور سیاست داں بھی دببی اور لندن میں دبکیں ہوی تھیں سالوں سال ، اور جب تک امریکی آشیوات نہیں ملا، آنے کا نام نہیں لیا، جب اقتدار کا لالچ حد سے زیادہ بڑھ گیا اور امریکی آشیوات کا ہاتھ سر پر پڑھ گیا تب "عوام کا درد" ان کو پاکستاں لے آیا۔

الطاف حسیں نے بزرگوں کی یہ نصیحت پلے سے باندھی ہوی ہے، "لالچ بری بلا ہے"
 

جوش

محفلین
پپلز پارٹی والے اگر الطاف کی حفاظت اور اس کے دشمنوں کی فکر میں گھلنے کے بجاے محترمہ بھٹو کی حفاظت پر سوچ بچار کرتے تو آج کم از کم صورت حال مختلف ہوتی۔۔۔
 
Top