پاکستان کا ’مشتعل ہجوم‘

حسان خان

لائبریرین
لاہور کے قدیم علاقے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتی برادری کی وہ پہلی آبادی نہیں جو توہینِ رسالت کے کسی مبینہ واقعے پر ’مشتعل ہجوم‘ کے غیظ و غضب کا نشانہ بنی ہے۔
زیادہ دور نہ بھی جائیں تو دو ہزار نو کے سانحۂ گوجرہ سے دو ہزار تیرہ میں لاہور کی عیسائی بستی کے دو سو کے قریب گھروں کی تباہی کے درمیان توہینِ رسالت یا توہینِ مذہب کے نام پر پاکستان میں ’عوامی انصاف‘ کے مظاہرے کئی بار دیکھنے کو ملے ہیں۔
یہ وہ مشتعل ہجوم ہے جو کبھی توہین آمیز فلم کے خلاف اسلام آباد کی سڑکوں پر گاڑیوں کے شیشے توڑتے دیکھا جا سکتا ہے تو کبھی کراچی میں مبینہ طور پر توہینِ آمیز ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے والے مسیحی لڑکے کے گھر پر حملہ آور ہوتا ہے۔
یہی ہجوم لاہور کے نجی سکول کی استانی کی مبینہ غلطی پر مشتعل ہو کر اس سکول کی تین شاخوں کو تباہ کر دیتا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو دادو یا پھر احمد پور شرقیہ میں قرآن کی مبینہ بےحرمتی کے الزام میں لوگوں کو سرِ عام زندہ یا پھر اس کی لاش جلا دیتا ہے۔
ان تمام واقعات میں قدرِ مشترک تو مشتعل ہجوم ہی ہے لیکن ایک فرق ان افراد میں ہے جن سے مل کر یہ ہجوم تشکیل پاتا ہے۔
جہاں گوجرہ میں منظم طور پر کی جانے والی کارروائی کا الزام مذہبی شدت پسند کالعدم تنظیموں پر عائد کیا گیا تھا تو وہیں کراچی اور لاہور ایسے واقعات کا آغاز تو مذہب کی بنیاد پر اشتعال دلائے جانے سے ہوا لیکن منظرِ عام پر آنے والی تصاویر میں آگ لگاتے اور توڑ پھوڑ کرتے نوجوان اپنے حلیوں سے شدت پسند تنظیم کے رکن یا حمایتی کم اور شترِ بےمہار زیادہ دکھائی دیے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشتعل ہجوم ہے کیا اور وہ کون سے عناصر ہیں جو ان عام نوجوانوں کو ایک ایسے ہجوم کی شکل دے دیتے ہیں کہ جس کے غیظ و غضب کے آگے ہر کوئی لاہور کی اس پولیس کی مانند بےبس دکھائی دیتا ہے جو جوزف کالونی میں مکانات کو جلتے اور وہاں کے رہائشیوں کے سپنوں کو ٹوٹتے دیکھتی تو رہی لیکن ان پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ توڑ پھوڑ پر آمادہ ہجوم میں شامل افراد انفرادی طور پر چاہے اتنے پرتشدد نہ ہوں لیکن جب وہ ایک گروہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو نہ ہی ان میں نتائج کا خوف باقی رہتا ہے اور نہ ہی ضمیر کی خلش انہیں ستاتی ہے اور وہ اپنے اقدامات کے لیے بھی ہجوم کو ذمہ دار ٹھہرا کر بری الذمہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔
ماہرِ علمِ بشریات ندیم عمر تاررڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے واقعات میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں ہی پسے ہوئے طبقات ہیں: ’یہ لوگ خود کو کچلنے والے بالا دست طبقات کو تو کچھ کہہ نہیں سکتے اور ان کا غصہ زیردست پر نکلتا ہے۔‘
ندیم تاررڑ کا کہنا تھا کہ ’بادامی باغ کے واقعے میں ڈنڈے لہراتے ہوئے جو نوجوان نظر آ رہے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس نہ روزگار ہے نہ تعلیم اور ان کے گھر میں بھوک کے ڈیرے ہیں حالانکہ جنھیں وہ مار رہے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ کچلے ہوئے ہیں۔‘
ان کے مطابق اس کی ذمہ داری ہماری حکومت اور ان واقعات پر بیان بازی کرنے والی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے جو ان واقعات کے رونما ہونے کے بعد تو امداد اور اقدامات کے اعلانات کرتی ہے لیکن مسئلے کی بنیاد کی اصلاح کے لیے کام نہیں کرتی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کو بہانے اور عذر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور ملک میں مسیحی برادری پر جتنے بھی حملے ہوئے ہیں ان میں معاشی پہلو ہمیشہ موجود رہا ہے اور بادامی باغ والا واقعہ بھی اس سے الگ نہیں۔
معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی جہاں اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ اس عوامی تشدد کی بڑی وجوہات طبقاتی محرومیاں، ریاست کا جبر اور حکمران طبقے کی جانب سے استحصال ہے وہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار کا انحطاط بھی اس قسم کے واقعات کا ذمہ دار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریاست یا فرد کی ملکیت یا انسانی جان کا احترام ختم ہو چکا ہے اور معاشرے کے محروم طبقات توڑ پھوڑ کر کے انتقام کی خواہش پوری کرتے ہیں۔ ’لوگوں میں احساسِ محرومی ہے، غصہ ہے اور اس کا اظہار وہ تشدد کی شکل میں کرتے ہیں اور کسی دوسرے کے مال و متاع کو آگ لگا کر اپنی محرومیوں کا غصہ اتارتے ہیں‘۔
ڈاکٹر مبارک کے مطابق بنیادی خرابیوں کو دور کیے بغیر تبدیلی ممکن نہیں: ’ہمارے ہاں محض نصیحتوں سے یا وعظ سے لوگوں کی اصلاح نہیں کر سکتے اور انہیں راہِ راست پر نہیں لا سکتے۔ اس کے لیے ان وجوہات کو تلاش کر کے دور کرنا ہوگا جو ان خرابیوں کی وجہ بن رہی ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس قسم کے واقعات میں افواہوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے اور اکثر اوقات افواہیں ہی اس قسم کے واقعات کی بنیاد بنتی ہیں لیکن انتہائی قدم اٹھانے سے قبل سچائی جان لینے کا خیال آپ کو جبھی آ سکتا ہے جب آپ باشعور ہوں اور یہ شعور صرف تعلیم کے عام ہونے سے ہی آ سکتا ہے۔

ربط
 

سید ذیشان

محفلین
پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد ہی اقلیتوں پر بلوے شروع ہو گئے تھے۔ اگر اس وقت اس کا سد باب کیا جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ستم ظریفی یہ ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ملک میں ہی اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک ہوتا آیا ہے۔
اقلیت کو جب اکثریت بنا دیا جائے تو وہ سب کچھ بھول جاتی ہے۔ چاہے وہ خود ہولوکاسٹ کا شکار نہ ہو چکی ہو :)
 

arifkarim

معطل
پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد ہی اقلیتوں پر بلوے شروع ہو گئے تھے۔ اگر اس وقت اس کا سد باب کیا جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
حکومت وقت نے سد باب کیا تھا اور مشتعل حجوم کے سرغنہ مولانا ابو الاعلىٰ مودودی کو موت کی سزا بھی دی تھی جو بعد میں عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ اسکے باوجود انکو بغیر کسی سزا کے جلد ہی رہا کر دیا گیا۔ جس ملک میں اشتعال انگیزی کرنے والوں کے سربراہوں کو سرکاری طور پر عام معافی کا اعلان ہو، وہاں یہ سب ہونا بالکل معمول کی بات ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/1953_Lahore_riots
http://en.wikipedia.org/wiki/Qadiani_Problem
 

arifkarim

معطل
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریاست یا فرد کی ملکیت یا انسانی جان کا احترام ختم ہو چکا ہے اور معاشرے کے محروم طبقات توڑ پھوڑ کر کے انتقام کی خواہش پوری کرتے ہیں۔ ’لوگوں میں احساسِ محرومی ہے، غصہ ہے اور اس کا اظہار وہ تشدد کی شکل میں کرتے ہیں اور کسی دوسرے کے مال و متاع کو آگ لگا کر اپنی محرومیوں کا غصہ اتارتے ہیں۔
ربط
100 فیصد غیر متفق! یہ بالکل بے منطقی سی بات ہے کہ پاکستان ’’آج‘‘ اس انجام کو پہنچا ہے جہاں ریاست یا فرد کی ملکیت یا انسانی جان کا احترام ختم ہو چکا ہے۔ 1953 میں یہی کچھ قادیانی اقلیت کیساتھ لاہور میں کیا گیا تھا اور حکومت وقت کچھ بھی نہیں کر سکی تھی جسکے بعد ملک میں پہلا مارشل لاء لگا کر ماحول کو ’’معمول‘‘ میں لانا پڑا تھا۔
 

ساجد

محفلین
ماہرِ علمِ بشریات ندیم عمر تاررڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے واقعات میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں ہی پسے ہوئے طبقات ہیں: ’یہ لوگ خود کو کچلنے والے بالا دست طبقات کو تو کچھ کہہ نہیں سکتے اور ان کا غصہ زیردست پر نکلتا ہے۔‘
ندیم تاررڑ کا کہنا تھا کہ ’بادامی باغ کے واقعے میں ڈنڈے لہراتے ہوئے جو نوجوان نظر آ رہے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس نہ روزگار ہے نہ تعلیم اور ان کے گھر میں بھوک کے ڈیرے ہیں حالانکہ جنھیں وہ مار رہے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ کچلے ہوئے ہیں۔‘
ان کے مطابق اس کی ذمہ داری ہماری حکومت اور ان واقعات پر بیان بازی کرنے والی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے جو ان واقعات کے رونما ہونے کے بعد تو امداد اور اقدامات کے اعلانات کرتی ہے لیکن مسئلے کی بنیاد کی اصلاح کے لیے کام نہیں کرتی۔
کیا ہمارے حکمرانوں میں اہلیت ہے کہ بالا میں مذکور حقائق سے آنکھیں دو چار کر سکیں؟۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک عوام کو محروم سے محروم تر کرنے کا عمل جاری رہے گا اور طبقہ اشرافیہ خود کو ہر قاعدے قانون سے بالا سمجھتا رہے گا معاشرے میں تشدد بڑھتا جائے گا۔
دیکھئے کہ کچھ عرصہ سے اب عوام وزیروں اور سیاسی رہنماؤں کی مرمت سے بھی نہیں چوک رہی حالانکہ ان کے ساتھ مسلح محافظ ہوتے ہیں۔ خود میرے ساتھ کل مال روڈ پر ایک حادثہ ہوتے ہوتے بچا جب ایسے ہی ایک "سرکاری بدمعاش" کی اندھا دھند بھاگتی اور اشارہ توڑتی گاڑی مجھے کچلنے لگی اور عقب میں آنے والی سیکیورٹی نے حسب معمول "نمک حلالی" دکھائی تو اگلے چوک میں میری ان کے ساتھ بحث ہو گئی۔ پہلے تو گرما گرمی اور پھر مجھ پر دہشت گردی کی کوشش کا الزام لگانے کی کوشش کی گئی تو جھگڑے کی وجہ سے ٹریفک میں پھنسے لوگ میری حمایت میں اپنی اپنی گاڑیوں سے اتر کر "محافظوں" اور "سرکاری بدمعاش" کی طرف بڑھے جو کمال بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاڑی میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔ ، تو حالات کو بھانپتے ہوئےان کا لہجہ یکدم بدل گیا اور تو تڑاخ سے بات جناب تک آ گئی۔ اور سوری کہہ کر معاملہ ختم کیا گیا۔ واقعی صرف قوم ہی نہیں ہماری اشرافیہ اور اس کے ضرورت سے زیادہ نمک حلال ادارے بھی ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
حکومت وقت نے سد باب کیا تھا اور مشتعل حجوم کے سرغنہ مولانا ابو الاعلىٰ مودودی کو موت کی سزا بھی دی تھی جو بعد میں عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ اسکے باوجود انکو بغیر کسی سزا کے جلد ہی رہا کر دیا گیا۔ جس ملک میں اشتعال انگیزی کرنے والوں کے سربراہوں کو سرکاری طور پر عام معافی کا اعلان ہو، وہاں یہ سب ہونا بالکل معمول کی بات ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/1953_Lahore_riots
http://en.wikipedia.org/wiki/Qadiani_Problem

حکومت نے بالکل بھی سدباب نہیں کیا تھا۔ آپ ایک نظر جسٹس منیر کمیشن رپورٹ دیکھ لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ حکومت کا رسپانس بہت ہی تھوڑا اور بہت دیر سے تھا۔ جس کی وجہ سے حالات کافی خراب ہوئے اور پنجاب میں ایمرجنسی لگانی پڑی تھی۔ پاکستان میں فوجی حکومت کی بنیاد بھی یہی سے پڑی تھی۔
 
ساجد بھائی بجا فرمایا آپ نے۔
واقعی گورے انگریزوں کے جدی پشتی زر خرید ،بے حس مردہ ضمیرغلام شروع سے اہل پاکستان کے وسائل پر قابض ہیں؛جب تک ہم بیدار نہیں ہوں گے؛ متحد و منظم ہو کر رعونت وتکبر کے ان مجسموں کو پاش پاش نہیں کریں گے ؛اس وقت تک ہم اپنے بنیادی حقوق مثلا جان ومال و آبرو کے تحفظ اور صحت روزگار تعلیم کےحصول سے محروم رہیں گےاور یہ بد مست ہاتھی دولت وطاقت کے نشے میں مدہوش ہمیں چیونٹیاں سمجھ کر کچلتے رہیں گے ؛لیکن چیونٹوں کا اتحاد ان ہاتھیوں کو خاک کا ڈھیر بنا سکتا ہے ۔
 
Top