پاکستان کا آئس برگ کوئٹہ‘تونے دیکھا نہیں دوبارہ دیکھ

آئس برگ جتنا پانی سے باہر نظر آتا ہے اس سے بہت زیادہ پانی کے اندر ہوتا ہے نظر آنے وا لے حصّے سے پورے آئس برگ کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، جرائم کی کہانی بھی کچھ اس طرح ہوتی ہے جو نظر آتا ہے اُس سے بہت زیادہ پوشیدہ ہوتا ہے،آپ جیل جاکر قیدیوں کا انٹرویو کریں انتظامیہ بتائے گی یہ منشات کا اسمگلر ہے دبئی سے پکڑا یہ اغوا برائے تاوان کا ملزم ہے ،اس نے قتل کیا ہے لیکن سارے قیدی ایک ہی جملہ کہتے ہیں ،،ہم بے قصور ہیں،، لہذا ن معاملات پر اظہار خیال پُر خطر ہے، ہر دن نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں۔کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے ساتھ ہونے والے مسلسل واقعات سے کچھ جاننے کا تجسس ہوالہذا کوئٹہ میں مقیم ہزارہ شیعہ اور دوسرے مسلک کے افراد اور کراچی میں واقفان حال سے جو کچھ معلوم ہوا وہ آپ سے بانٹ رہا ہوں۔
کہرام بپاہو جاتا دنیا میں،اگر اتنی تعداد میں درخت کاٹ دیے جاتے یا جانوروںکو شکار کرلیا جاتا یا بے جان بت گر دیے جاتے، ہزارہ برادری کے 1000 سے زیادہ افراد قتل کردیئے گئے لیکن گلوبل ویلیج کے دعوے دار دم سادھے تماشا دیکھ رہے ہیں یااسے شیعہ سنی فساد بنانے پرتُلے ہوئے ہیں، ا صل ذمہ داروں سے چشم پوشی کررہے ہیں، سوال یہ ہے ہزارہ کون ہیں؟اور نشانے پر کیوں ہیں؟ ہزارہ برادری 19 ویں صدی میں وسطی افغانستان کے علاقے ہزارہ جات سے منتقل ہو کر کوئٹہ میں آباد ہوئی ، اپنے مختلف خدوخال کی وجہ سے دور سے پہچانے جاتے ہیں ،سرخ و سفیدرنگت ، شکل سے چینی لگتے ہیں،اس وقت کوئٹہ میں 6 لاکھ ہزارہ جات ہیں، علمدار روڈ کے گرد نواح اور ہزارہ ٹاون کیرانی روڈ پر ان کی کثیر تعداد آباد ہے، برادری کی آٹھ شاخیںہیں چار شیعہ اور چار سنی ہیں، شیعہ اکثریت اور سنی اقلیت میںہیں۔ ہزارہ برادری ،دری، پشو ،بلوچ ،ترکی اورفارسی زبان بولتے ہیں ،ان کی خواتین نہایت سلیقہ شعار، ہنر مندہیں مرد و خواتین دونوں تعلیم یافتہ ہیں ، دینی تعلیم ،ادب و آرٹ سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں ، ہزارہ برادری کی بڑی تعداد سرکاری ملازم ہے، تجارت، قالین بافی، ہنڈی، منی ایکسچینج،کھیپ سے بھی متعلق ہیں، حصول روزگار اور تعلیم کیلئے آسٹریلیا اور شمالی امریکہ کا رخ کرتے ہیں اس وقت ساٹھ ہزار سے زائد آسٹریلیا میں آبادہیں موجودہ بدامنی نے انہیں مزید بیرون ملک جانے پر مجبور کردیا ہے کم وسائل رکھنے والے لوگ زمینی راستے سے آسٹریلیا جاتے ہیں یہ سفر ان کے لیے موت کا سفرہوتاہے ۔
ہزارہ کیوں نشانے پر ہیں اور اُنہیں کون مار رہا ہے؟ اس کا جواب ہزارہ برادری کے پاس نہیں یا وہ بیان نہیں کررہے اور نہ حکومت کچھ بتا رہی ہے،ہزارہ اگر شیعہ ہونے پر مارے جا رہے ہیں اور لشکر جھنگوی اس قتل عام کا ذمہ دار ہے اوراگر یہ شیعہ سنی فساد ہے تو شیعہ تو پورے پاکستان میں آباد ہیں اور کہیں ایسا کچھ کیوں نہیں ہورہا ؟ لشکر جھنگوی اگر یہ سب کچھ کررہی ہے تو لشکر جھنگوی بھی پورے پاکستان میں موجود ہے وہ دوسری جگہوںپر ایسی کارروائیاں کیوں نہیں کررہے؟ لشکر جھنگوی کے خلاف حکومت کاروائی کیوں نہیں کرتی؟ لشکر جھنگوی نے موجودہ سانحہ ہزارہ ٹائون کا ایسا دو ٹوک، تیر رفتار اعترا ف کیا کہ سب کچھ پلان کا حصہ محسوس ہوتا ہے، پلان کیا ہے ؟جب یقینی علم نہ ہو تو اندازہسے کام لیا جاتا ہے ۔ ہزارہ برادری ماضی قریب سے نشانے پر ہے جبکہ کوئٹہ میں قتل عام کا یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے پہلے پنجابی نشانے پر تھے ،پنجابی جو 1935ء میں زلزلے سے تباہ ہونے والے کوئٹہ کی تعمیر کیلئے بلوچستان آئے، شہر کو بنایا سنوارا اور یہیں کے ہورہے کئی نسلیں کوئٹہ میں ہی پلی بڑھیں لیکن چند سال پہلے یہ اجنبی ہوگئے چن چن کر قتل کردیئے گئے بڑی تعداد میں پنجابی اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ گئے جو چند ایک کوئٹہ میں ہیں وہ ہر لمحہ موت کے خطرے میں ہیں ان کا کیا قصورہے، کوئٹہ کو آباد کرنا؟ پنجابی ہونا؟ آج تک معلوم نہ ہوسکا۔ دنیا چیخ اُٹھتی ا گر زبان کی بنیاد پر کسی اور خطہ زمین پراس طرح لوگ مارے جاتے۔
اصل مسئلہ کیا ہے ؟ ہمیں حتمی معلومات نہیں جنہیں معلوم ہے وہ کًھل کر بتاتے نہیں، ہمارے وزیر داخلہ رحمان ملک نجومیوں اور کی طرح بتاتے ہیںکراچی اورکوئٹہ میں مزید ہولناک خون ریزی ہونے والی ہے۔ وزیر داخلہ اگر صرف اطلاع دینے پر اکتفا کریں گے تو عام پاکستانی کیا کرے گا؟ غضب ہوجاتا اگر جدید دنیا کے وزیر داخلہ نے ایسا طرز عمل اختیارکیا ہوتا ۔زرداری صاحب نے ایران سے گیس لائن منصوبہ حتمی کردیا، گوادر بندرگاہ چین کے حوالے کردی ،انکے یہ اقدامات بہت مثبت ہیں لیکن شک کی نگاہ سے دیکھے جارہے ہیں کوئی کہتا ہے آئندہ حکومت کو مشکل میں ڈالنے کیلئے ایسا کیا گیا ہے دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، بہرحال وجہ کچھ بھی ہودنیا کے نقشہ گروں کو پاکستان کا چین اور ایران سے ہر تعلق ناگوار ہے چین کاگوادر بندرگاہ کے ذریعے وسطی ایشیا تک رسائی حاصل کرنا عالمی نقشہ گروںکو ناگوار ہے، پاکستانیوں کو اس آمد و رفت سے کچھ روزگار مل جائے کچھ خوشحالی مل جائے سود پر قرضہ دینے والے عالمی اداروں کو یہ کیسے گوارہ ہوسکتا ہے۔ عالمی نقشہ گر اپنے مفاد کے مطابق کام کرنے کیلئے آزاد ہیں ہماری حکومت کو ہرسازش سے ہوشیار ہونا چاہئے اور عوام کو بھی بتاتے رہنا چاہئے کہ پاکستان کے دشمن کون ہیں؟ دشمنوں کے ہمارے ملک میں کیا مفادات ہیں؟ ہمیں کس طرح ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے۔؟لیکن ہمارے وزیرداخلہ کا ہلاکت خیز رویہ ہے صرف خبر دے رہے ہیں کوئٹہ اور کراچی میں قتل عام ہونے والا ہے ، اگرجناب رحمان ملک دشمنوں کی نشاندہی کردیں،دہشت گردوں کو دوٹوک بتا دیں کہ وہ محض آلہ کار بن رہے ہیں سازشیوں کے مقاصد پورے ہوں تو سب غیر متعلق ہو جائیں گے قتل کرنے والے بھی اور قتل عام کی اطلاع دینے والے بھی،اگر ہمارے وزیر داخلہ دو ٹوک الفاظ میں دشمن کا تعین کردیں تو عوام تو آپس کے فساد سے بچ جائیں گے، شیعہ سنی کو دشمن قرار دے کر قتل نہیں کریں گے سنی شیعہ کودشمن سمجھ کر قتل کرنے سے بچ جائیں گے۔
پاکستان کے سرحدی محافظ عجیب خوف میں مبتلا ہیں محض تماشا دیکھ رہے ہیں خود غلط فہمی میں رہنا چاہتے ہیں یا اُنہیں سبق پڑھا دیا ہے کہ پاکستان کو بچانے کیلئے کچھ بھی کروگے تو جمہوریت کا قتل ہوجائے گا یا انہیں دھمکا دیا گیا ہے خبردار پاکستان میں خون کی ندیاں بہنے دو چپ چاپ تماشا دیکھتے رہو، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ فوج منتخب حکومت کے ماتحت رہ کر کارروائی کرے۔
بلوچ علیحدگی پسند بھی غور کریں کیا پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش میں خوشحالی کا راج ہے؟ جب پاکستان کے ساتھ رہتے ہوئے ہمارے بلوچ بھائی خود کو محروم سمجھ رہے ہیں تو غیر انہیں کیا حقوق دیں گے اگر بلوچ علیحدگی پسندوں کو کہیں سے کوئی یقین دہانی ہے تو یاد رکھیں طاقتور اور کمزور کے درمیان معاہدوں کی کوئی وقعت نہیںہوتی، آج بلوچ پاکستان کے ساتھ کو محض اپنی کمزوری کی وجہ سے برداشت کررہے ہیں تو جب اسلام آباد سے زیادہ طاقتور لوگ مسلط ہو جائیںگے تو کیسا عہد کیسا ایفاء عہد۔ بلوچ اپنی پس ماندگی کا ملبہ کسی پر ڈالنے کے بجائے اپنے اندر خامیوں کو تلاش کریں کوئی پنجاب سے آتا ہے اور خوشحال ہوجاتا ہے ،کوئی افغانستان سے آتا ہے اور ترقی پاتا ہے، آپ مقامی ہیں اور ہمیشہ سے یہیں آباد ہیں لیکن نہ تجارت میں آپ کا حصّہ ہے نہ سرکاری ملازمتوں میں آپ کا غلبہ نہ تعلیمی میدان میں کوئی مقام پاکستانیوں نے دنیا کے کونے کونے میں نام کمایا ہے دولت کمائی ہے لیکن آپ اپنے شہر اپنے صوبے سے باہر نہ نکلے سردار کی چاکری پر آپ را ضی ہیں ، آپ کو اپنے سردار کی دشمنی کا معلوم ہوا اور آپ نے دشمنی کی وجوہات جانے بغیر اپنا تمام مال واسباب فروخت کیا اور اپنے اوپر جنگ طاری کرلی نہ حق دیکھا نہ نا حق دیکھا۔ یہ منفی رویہ چھوڑیے ،آپکا وزیر اعلیٰ بلوچ اُن کوترقیاتی کام کرنے سے کس نے روکا ہے ؟ موجودہ دور حکومت میں آپ کوبھاری مالی امداد ملی لیکن آپکے صوبے میں زمین پر کوئی کام نظر نہیں آیا۔ آپ کی ساری اسمبلی حکومت میں شامل ہے سب مفادات کیلئے یکجا ہیں کوئی حزب اختلاف نہیں۔ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات ہوئے سروس کمیشن کی سربراہی بلوچ کررہا تھا ساری تقرریاں میرٹ کے بجائے رشتہ داروں کی ہوگئیں کسی صوبے میں ایسا جھرلو نہیں چلایا گیا زیادتی کرنے والے بلوچ زیادتی کا شکار بھی بلوچ صوبہ جل رہا ہے اور وزیراعلی کو اسلام آباد جانے کیلئے پر تعیش نیا جہاز چاہئے چیف سیکرٹری اورفنانس سیکرٹری نئے جہاز میں سامان تعیش کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ تشریف لے گئے ۔ صوبے کے عوام لاشیں رکھے سخت سردی میں سڑک پر دھرنا دئیے ہوئے تھے اور وزیراعلیٰ اپنے رشتہ دار کے یونیورسٹی میں داخلے کیلئے برطانیہ میں بیٹھے فرمارہے تھے کہ متاثرین کیلئے ٹشوپیپر کے دو ٹرک بھیج رہا ہوں تاکہ وہ اپنے آنسو خشک کرلیں، ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے لیا ہے کرایہ پورا ہونے پر واپس آئوںگا۔ کہرام بپاہو جاتا اگر دنیا کے کسی وزیر اعلی نے ایسا کیا ہوتا۔
انگریزی میڈیاکی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے ،جس کی اردو میڈیا نے تردید کردی ،،اسلام آباد :آسٹریلیا نے بلوچستان کے 2500 ہزارہ خاندانوں یا 7000ہزار افراد کو سیاسی پناہ دینے کی پیش کش کی ہے،آسٹریلوی سفارت خانے کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ان کی حکومت نے اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین یو این ایچ سی آرپر زور دیا ہے کہ فرقہ وارنہ تشدد کا سامنا کرنے والی ہزارہ برادری کی پاکستان سے منتقلی کے لیے ضروری اقدامات اور سہولیات فراہم کی جائیں،،۔تاہم آسٹریلوی سفارتخانے نے اس کی تردید کردی کہ ایسی کوئی پیشکش نہیں کی گئی۔
بد امنی سارے پاکستان میں ہے پشاور دھماکوں سے لرز رہا ہے کراچی میں روزانہ درجن بھر قتل ہورہے ہیں کیا سب کو بیرون ملک سیاسی پناہ ملے گی؟ یا عالمی محافظ پاکستان کے تحفظ کے لیے پاکستان میں گھس بیٹھیں گے؟ حکمران ہوش میں آئیں اس سے پہلے کہ سب کے ہوش اُڑ جائیں۔
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/46451
 
یہ سب کچھ ایک "گریٹر گیم" کا حصہ ہے۔
اور ہم "ہائرڈ گن" ہیں۔
اپنے ہی اعضاء کاٹنے میں مصروف۔
جس کسی کو ناعاقبت اندیشی کی انتہا دیکھنی ہو وہ پاکستان کو دیکھ لے:ROFLMAO:
بلوچوں کی یہی بات مجھے بھی سخت ناپسند ہے کہ وہ اپنے سرداروں کا کبھی محاسبہ نہیں کرتے:mad:
 
یہ سب کچھ ایک "گریٹر گیم" کا حصہ ہے۔
اور ہم "ہائرڈ گن" ہیں۔
اپنے ہی اعضاء کاٹنے میں مصروف۔
جس کسی کو ناعاقبت اندیشی کی انتہا دیکھنی ہو وہ پاکستان کو دیکھ لے:ROFLMAO:
بلوچوں کی یہی بات مجھے بھی سخت ناپسند ہے کہ وہ اپنے سرداروں کا کبھی محاسبہ نہیں کرتے:mad:
اپنا خون نہ جلا کاکے ورنہ وہ ہی حال ہو گا جو ہمارا ہوا ہے
 
Top