پاکستان پر 2 سال میں 27 ارب ڈالر کا بیرونی قرض واجب الادا، آئی ایم ایف

جاسم محمد

محفلین
پاکستان پر 2 سال میں 27 ارب ڈالر کا بیرونی قرض واجب الادا، آئی ایم ایف
شہباز رانا / ارشاد انصاری 3 گھنٹے پہلے
آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع، معاہدہ 10 مئی کو طے پانے کا امکان ، پاکستان نے600ارب کے نئے ٹیکسزلگانے پرآمادگی ظاہرکردی۔ فوٹو: فائل
1651027-imf-1556574249-212-640x480.jpg


اسلام آباد: آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان پر 2سال میں 27 ارب ڈالر کا بیرونی قرض واجب الادا ہوجائے گا جب کہ قرض کا یہ حجم پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضوں کا 27 فیصد ہے۔

حکومت اور کچھ نجی سیکٹر کے ماہرین کے جائزوں کے مطابق جاری کھاتوں کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے درکار رقم کو شامل کرنے کے بعد پاکستان کو اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے اگلے دو برسوں میں 46 سے 50 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ 27 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا ذکر پیر کو جاری کردہ آئی ایم ایف کی نئی ریجنل آؤٹ لُک رپورٹ اپ ڈیٹ میں کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان واحد علاقائی ملک ہے جسے سب سے زیادہ غیرملکی قرضہ ادا کرنا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق رواں برس جون تک قرض کا تناسب جی ڈی پی کے 77 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ سابقہ دور حکومت کے اختتام پر یہ تناسب 72.5 فیصد تھا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے یہ رپورٹ اسی دن جاری کی گئی ہے جس روز پاکستان کے ساتھ ممکنہ بیل آؤٹ پیکیج پر مذاکرات شروع ہوئے ہیں۔

قبل ازیں گذشتہ برس نومبر میں بہت اہم معاملات پر اختلافات کے باعث مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔ تاہم اس بار حکام کو توقع ہے کہ اختلافات دور کرلیے جائیں گے اور 6.5 ارب ڈالر قرض کے معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔

پاکستان کو یہ قرض 3 سال میں ادا کرنا ہوگا۔ بیجنگ میں جمعے کو بیلٹ اینڈ روڈ فورم کی سائیڈلائن پر وزیراعظم پاکستان کی ملاقات آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹائن لوگارڈ سے ہوئی تھی۔

ایوان وزیراعظم سے جاری کردہ بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے فنڈ پروگرام کی اہمیت اور معاہدے کی جانب پیش قدمی پر اتفاق کیا تھا۔ پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی سطح کے مذاکرات شروع ہوگئے ہیں، پیرکو ہونے والے مذاکرات کے پہلے روزپاکستان نے آئی ایم ایف کو 600 ارب روپے سے زائدکے نئے ٹیکسزلگانے پرآمادگی ظاہرکردی۔

پاکستان نے ٹیکس اصلاحات، توانائی کے شعبہ میں تجاویز تیارکرلی ہیں جبکہ آئی ایم ایف سے 3 سالہ پروگرام کے تحت ساڑھے 6 ارب ڈالرکے لگ بھگ قرضے کا معاہدہ 10مئی کوطے پانے کا امکان ہے، مذاکرات میں آئی ایم ایف جائزہ مشن کی سربراہی ارنستو ریگوکرہے ہیں جبکہ پاکستانی ٹیم کی قیادت سیکریٹری خزانہ نے کی، وفد نے پہلے روز وزارت خزانہ ، ایف بی آر اور وزارت توانائی کے حکام سے مذاکرات کیے۔

پاکستان نے 600ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کی یقین دہانی کرادی، آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ نئے بجٹ میں ایف بی آرکا ہدف 4500 ارب روپے سے زائد مقررکیا جائے گا، رواں سال ایف بی آر 4100 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرے گا، مذاکرات میںچیئرمین ایف بی آر اور ٹیکس حکام نے ٹیکس اصلاحات پر بھی آئی ایم ایف کو بریفنگ دی اورٹیکس کی چھوٹ محدود کرنے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔

آئی ایم ایف جائزہ مشن کے ساتھ مذاکرات میں رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے اقتصادی اعدادوشمار پر مشتمل مرتب کردہ ڈیٹا شیئرکیاگیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف جائزہ مشن کے ساتھ آئندہ مالی سال 2019-20 کے وفاقی بجٹ کے لیے تیارکردہ تجاویز اور بجٹ اسٹریٹجی پیپراورمڈٹرم اکنامک فریم ورک بارے بھی تفصیلی تبادلہ ہوا ہے اور بجٹ اسٹریٹجی پیپر کے مجوزہ اہداف کو حتمی شکل دینے پرتبادلہ خیال ہواہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایے کے ساتھ مالیاتی خسارہ اور ادئیگیوںکے توازن سمیت دیگر اہداف پر بھی بات چیت ہورہی ہے او مالیاتی خسارہ رواں مالی سال کے آخر تک 7 فیصدکے لگ بھگ جبکہ پروگرام کے تحت اس میں بتدریج کمی لائی جائیگی اور 5.6 فیصد تک اگلے سال لایا جائے گا۔

آئی ایم ایف پاکستان کی ٹیکس آمدنی جی ڈی پی کے 13.2 فیصد تک بڑھانے کا مطالبہ کررہا ہے لیکن حکومت پاکستان نے 12.7 فیصد تک بڑھانے کی یقین دہانی کرائی ہے، ذرائع کاکہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات میں ریونیو فریم ورک کے بارے میں بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں چین سے لیے جانے والے قرضوں کے بارے میں آگاہی سے متعلق آئی ایم ایف کو آگاہی دینے میں بھی پیشرفت ہوئی ہے، قرضوں کی تفصیلات پاکستان کے مجموعی قرضوں میں ظاہرہے، وہی آئی ایم ایف کو دی جائے گی۔

آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان آمدن بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، تجارتی خسارے میں کمی ہو رہی ہے جبکہ درآمدات کو روکا جا رہا ہے، امید ہے رواں سال جاری کھاتوں کا خسارہ کم ہوگا، پاکستان نے ٹیکس اصلاحات، توانائی کے شعبہ میں تجاویزتیارکرلی ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اب آپ کا امتحان ہے۔ آپ اتنے معصوم کیوں بن رہے ہیں؟ اقتدار میں آنے سے قبل ہوم ورک مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہنی منی پیریڈ ختم ہوا چاہتا ہے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
اب آپ کا امتحان ہے۔ آپ اتنے معصوم کیوں بن رہے ہیں؟ اقتدار میں آنے سے قبل ہوم ورک مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
حکومت آنی جانی چیز ہے۔ ریاست اور عوام مستقل ہے۔ریاست کی بقا کی خاطر سابقہ حکومتوں کا لیا گیا غیر یقینی قرضہ بالآخر غریب عوام کو ہی شدید مہنگائی کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
حکومت آنی جانی چیز ہے۔ ریاست اور عوام مستقل ہے۔ریاست کی بقا کی خاطر سابقہ حکومتوں کا لیا گیا غیر یقینی قرضہ بالآخر غریب عوام کو ہی شدید مہنگائی کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔
آپ اقتدار میں کیوں آئے، اگر آپ کو ان مسائل کا ادراک نہیں تھا۔ آپ نے بڑے بڑے دعوے کیوں کیے؟ دیکھیے، رونا دھونا اپوزیشن کا کام ہے ۔۔۔! آئیے، ہمارے ساتھ مل کر آٹھ گھنٹے رویے، آٹھ گھنٹے چیخنے کی مشق کیجیے اور آٹھ گھنٹے لمبی تان کر سو جائیے ۔۔۔! :) ارے بھئی، اب آپ اقتدار میں ہیں، اگر آپ سے یہ ملک نہیں سنبھل رہا ہے تو ایسے گروہ اور جماعتیں اب بھی موجود ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ ہم کشتی کو بھنور میں سے نکال لیں گے ۔۔۔! ملک اُن کے حوالے کر دیجیے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
دیکھیے، رونا دھونا اپوزیشن کا کام ہے ۔
مگر مچھ کے آنسو ہیں۔ جو قرضہ اپوزیشن نے اپنے دور حکومتوں میں ملک و قوم پر چڑھایا ہےاسے موجودہ حکومت کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور ساتھ میں ان کی بے سروپا تنقید بھی سننی کو مل رہی ہے۔ اپوزیشن نے جو بویا وہ کاٹا جار ہا ہے۔ اس میں حکومت وقت قصور وار نہیں۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
مگر مچھ کے آنسو ہیں۔ جو قرضہ اپوزیشن نے اپنے دو حکومتوں میں ملک و قوم پر چڑھایا اسے موجودہ حکومت کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور ساتھ میں ان کی بے سروپا تنقید بھی سننی کو مل رہی ہے۔ اپوزیشن نے جو بویا وہ کاٹا جار ہا ہے۔ اس میں حکومت وقت قصور وار نہیں۔
گزشتہ حکومتوں نے بھی یہی کچھ کہا تھا؛ اُن کے بھی یہی گلے شکوے تھے ۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
گزشتہ حکومتوں نے بھی یہی کچھ کہا تھا؛ اُن کے بھی یہی گلے شکوے تھے ۔۔۔! :)
زرداری اور نواز شریف کو سالانہ دس ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی مد میں ادا کرنے کا ٹاسک نہیں ملا تھا۔ یہ ذمہ داری تقدیر نے اعصاب کے مضبوط کھلاڑی عمران خان کےسر دھری ہے۔ کرپشن کیس میں گھر کر بیمار ہو جانے والے "لیڈروں" کو یہ سعادت نہیں مل سکتی تھی۔
 

فرقان احمد

محفلین
زرداری اور نواز شریف کو سالانہ دس ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی مد میں ادا کرنے کا ٹاسک نہیں ملا تھا۔ یہ ذمہ داری تقدیر نے اعصاب کے مضبوط کھلاڑی عمران خان کےسر دھری ہے۔ کرپشن کیس میں گھر کر بیمار ہو جانے والوں کو یہ سعادت نہیں مل سکتی تھی۔
دیکھیے جناب، گھبرانا نہیں ہے ۔۔۔! :)

یہ تو نہ کہیے نا،

کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی ۔۔۔!

پچھلوں کو بھی بہتیرے مسائل درپیش تھے۔ آپ کو ملٹری اسٹیبلشیہ کی بھرپور تائید حاصل ہے۔ آپ کے اعصاب بھی مضبوط ہیں۔ اپوزیشن پر لرزہ طاری ہے۔ سرمایہ کار بھی سہمے دبکے بیٹھے ہیں۔ کر گزریے، جو کرنا ہے ۔۔۔! :)
 
Top