پاکستان میں شرح سود تاریخ کی کم ترین سطح پر

پاکستان میں شرح سود تاریخ کی کم ترین سطح پر
حسن کاظمیبی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
150523152316_state_bank_pakistan_624x351_bbc_nocredit.jpg

ان تمام وجوہات کی بناء پر عالمی مانیٹرنگ ایجنسیز کی جانب سے ریٹنگ میں اضافے کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مزید بڑھا ہے پاکستان کے مرکزی بینک نے مالی سال 2014،15 کی آخری مالیاتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں ایک فیصد کی کمی کی ہے جس کے بعد یہ سات فیصد کے ساتھ تاریخ کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ یاد رہے کہ وفاقی بجٹ کا اعلان پانچ جون کو ہوناہےاور اس سے پہلےشرح سود ایک فیصدکم کرنا اہم اقدام تصور جا رہا ہے۔۔ مرکزی بینک کے سربراہ اشرف محمود وتھرا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے میں تقریباً 50 فیصدکمی ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح انتہائی کم ہے جبکہ شرح نمو میں بھی معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ان تمام وجوہات کی بنا پر عالمی مانیٹرنگ ایجنسیز کی جانب سے ریٹنگ میں اضافے کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مزید بڑھا ہے۔دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں اضافہ اس کا سبب ہیں حالانکہ بیرونی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے۔مہنگائی کی شرح جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پرآٹھ اعشاریہ دو فیصد تھی کم ہوکرصرف دواعشاریہ ایک فیصد رہ گئی ہے۔ جس کی وجہ حکومت کی جانب سے مرکزی بینک سے قرض کے حصول میں کمی اور مستحکم زرمبادلہ کی شرح ہے۔جبکہ مرکزی بینک کی جانب سے سخت مالیاتی پالیسی نے بھی مہنگائی کو قابو میں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔آئندہ مہنگائی کے کم سطح پر برقرار رہنے کی عکاسی مئی 2015ء کے آئی بی اے سٹیٹ بینک کے تازہ ترین سروے سے ہوتی ہے جس میں مہنگائی کے کم رہنے کی توقعات ظاہر کی گئی ہیں۔
150523152218_pak_currency_624x351_afp.jpg

جبکہ مرکزی بینک کی جانب سے سخت مالیاتی پالیسی نے بھی مہنگائی کو قابو میں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے تاہم تیل کی عالمی قیمتوں کے بارے میں غیر یقینی کیفیت اور توانائی کی ملکی قیمتوں میں ممکنہ ردوبدل سے مہنگائی کے اس منظر نامے کو بڑے خطرات درپیش ہیں۔معیشت کے تینوں شعبوں یعنی زراعت، اشیا سازی اور خدمات نے سرمایہ حاصل کیا۔اس میں نمایاں کردار سرمایہ کاری کے زمرے میں نجی شعبے کے کاروبار کو مہیا کیے گئے قرضوں کا ہے جو گذشتہ سال کی اسی مدت میں 84.4 ارب روپے سے بڑھ کر جولائی تا مارچ مالی سال 2015 میں 50.3ارب روپے ہوگئے۔ تاہم جاری سرمائے کے زمرے میں قرضے جولائی تا مارچ مالی سال 2015 میں 90.3ارب روپے ہوگئے جبکہ مالی سال سنہ 2014 کی اسی مدت میں 223.8ارب روپے تھے۔ جس کی بڑی وجہ اجناس کی قیمتوں میں کمی ہے۔ آنے والے مہینوں میں توقع ہے کہ سرمایہ کاروں کا بڑھتا ہوا اعتماد، تعمیرات کی بھرپور سرگرمیاں، بینکاری نظام کا مسلسل استحکام اور حالیہ زری نرمی قرضے کے استعمال پرمثبت اثر مرتب کرے گی۔ مارچ 2015 کے زری پالیسی فیصلے کے بعد بازارِ زر کی ریپو شرح اوسطاً سٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ سے 49 بیسزپوائنٹس نیچے رہی جبکہ جنوری 2015 کے فیصلے کے بعد33 بیسزپوائنٹس نیچے تھی۔ یہ حالات پالیسی ریٹ میں تبدیلیوں کی منڈی کی دیگر شرح سود تک ہموار ترسیل کے علاوہ نظر ثانی شدہ شرح سود کوریڈور فریم ورک کے لیے اچھے ہیں ۔اہم معاشی تبدیلیوں کے حالیہ رجحانات کی بنا پر توقع ہے کہ بازارِ زر میں رقم کی فراہمی آئندہ مہینوں میں نرم رہے گی۔سٹیٹ بینک کے عبوری تخمینے کے مطابق حقیقی جی ڈی پی مالی سال 2015 میں 4.2فیصد بڑھ جائے گی جو مالی سال 2014 کے 4.0فیصد سے تھوڑی زیادہ ہے۔مرکزی بینک کے مطابق توقع ہے کہ توانائی کی قلت پر قابو پانے کا عمل اور امن و امان کی بہتر ہوتی ہوئی صورتِ حال سرمایہ کاری کو بحال کرنے اور پیداوار کو بڑھانے میں مزید تحریک فراہم کرے گی۔ توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں مجوزہ سرمایہ کاری آنے سے نمو بہتر ہوجائےگی جس سے امکان ہے کہ نمو زیادہ تیزی سے بحال ہوگی
 
Top