پاکستان میں جہادیوں، قبائلیوں اور طالبان کے ساتھ معاہدوں کی تاریخ بزبان سلیم صافی۔

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں سلیم صافی نے پاکستان کو درپیش صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں عالمی طاقتوں کا گندہ کھیل جاری ہے جو مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جنرل ضیا کے دور میں جہادی کلچر پروموٹ کیا گیا۔ تجزیہ کرتے ہوئے کہا جو مذاکرات ہونے جا رہے ہیں کیا یہ ایک سنجیدہ کوشش ہے یا پھر ماضی کی طرح یہ بھی مذاکرات کے نام پر سیاسی ڈرامہ بازی ہے ۔ سب جانتے ہیں یو ں تو پاکستان میں سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا لیکن یہ سلسلہ خصوصی طور پرجنرل ضیاء الحق کے دور میں جب امریکا، پاکستان اور عرب ممالک نے مل کر افغانستان میں سوویت یونین کی مزاحمت کا فیصلہ کیا اور اسکے لیے مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک جہادی کلچر اس خطے میں پروموٹ کیا گیا اسکے نتیجے میں جہاد کے متمنی لوگ اور تب امریکی اور پاکستان اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اس پورے عمل کی سرپرستی کی جاتی رہی باقی دنیا سوویت یونین کے انخلاء کے بعد اس چیز سے کافی حد تک پیچھے ہٹ گئی لیکن پاکستانی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے یہ سلسلہ 9/11تک جاری رکھااسکے فوراً بعد امریکا اوراس کے اتحادیوں کے دبائو پر پاکستان کو اپنی پالیسی میں یوٹرن لینا پڑا اور جب افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کارروائیاں شروع کیں تو القاعدہ اور افغان طالبان کے رہنمائوں کی بڑی تعداد پاکستان اور بالخصوص قبائلی علاقوں میں منتقل ہوگئی جب پاکستان نے عالمی برادری کے دبائو پر ان کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو مقامی طالبان نے مولوی نیک محمد کی قیادت میں سیکورٹی فورسز کی مزاحمت شروع کردی،کچھ عرصے کے آپریشن کے بعد جب مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوسکے تو شکئی میں معاہد ہ ہوا ۔ پاکستان سیکورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا اس معاہدے میں حیرت انگیز طور پر نہ تو شریعت کی بالادستی کی بات تھی اور نہ امریکا کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا طالبان کی طرف سے معاہدہ کیا گیا۔گزشتہ دس سال حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدوں اور جنگ بندی میں گزرے۔ حکومت نے طاقت صرف جزو کے خلاف استعمال کی اور معاہدے بھی جزو سے کیے ، کل کے ساتھ نہیں کیے۔ بعد میں ترجمان طالبان احسان اللہ احسان نے مجھے فون پر بتایا کہ عصمت اللہ معاویہ کا مئوقف پورے طالبان کا مئوقف سمجھا جائے۔ اس وقت کی حکوت نے اس خط کا مئوثر انداز میں جواب نہیں دیا۔ لیکن عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس کی جس میں طالبان سے مذاکرات کے بارے میں اتفاق رائے طے پایا ، اس وقت آنے والی حکومت کے لیے مذاکرات کا آپشن پہلے سے ہی سامنے لایا گیا۔حکومت کی جانب سے پہلی بار سنجیدہ خواہش اگست2013میں چوہدری نثار نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں ظاہر کی، اس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے میجر(ر) عامر سے مشاورت کے بعد دس افراد پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی بنانے کی کوشش کی، حکیم اللہ محسود کی جانب سے بھی اپنی تحریر میں لکھا گیا اور بذریعہ خط مذاکراتی کمیٹی کے لیے نام دیئے گئے لیکن بدقسمتی سے حکومت نے اس خواہش پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا یا کچھ لوگوں نے اس کوشش کو ناکام کرنے کی سازش کی جس سے طالبان مایوس ہوئے۔لیکن بعد میں حکومت کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس کرائی گئی اور معاملات آگے بڑھے انھوں نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق حکومت نے مختلف مواقع پر 6افراد کو طالبان سے رابطوں کی ذمہ داری سونپی لیکن کوئی نتیجہ خیز بات نہیں ہو ئی۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=170780
 
Top