پاکستان میں آب وہوا کی تبدیلی، اربوں ڈالر کا نقصان

mangroves_plantation670.jpg

کراچی میں اسکول کے بچے مینگرووز شچرکاری کے پروگرام میں پودے لگارہے ہیں۔ تصویر حسین افضال

کراچی: جمعرات کے روز مینگرووز فار دی فیوچر کی نیشنل کو آرڈینیشن باڈی (ایم ایف ایف) کے ایک پروگرام میں شرکا نے مینگرووز ( تمر) کے جنگلات کے تحفظ اور دیکھ بھال پر خصوصی زور دیتے ہوئے کہا کہ مینگرووز کے جنگلات نہ صرف زرعی مٹی کے زیاں کو بچاتے ہیں بلکہ ساحلی آبادیوں کو سائیکلون اور سونامی جیسی آفات سے بھی محفوظ رکھتےہیں۔

شرکاء نے کہا کہ مینگرووز تجارتی لحاظ سے موزوں سمندری جانداروں کیلئے ایک اہم نرسری کا کردار ادا کرتےہیں جو ساحلی آبادیوں کیلئے آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مینگرووز بڑی تعداد میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے ماحول کو صحتمند رکھتے ہیں۔
شرکا نے آئی یو سی این کی جانب ایم ایف ایف میٹنگ کے اختتامی اجلاس میں گفتگو کی جس میں تقریباً 310,000 امریکی ڈالر گرانٹ کے لیٹرز مختلف تنظیموں میں تقسیم کئے گئے جو مینگرووز کی کاشت اور اس سے وابستہ دیگر سرگرمیوں کیلئے کام کریں گی۔
آئی یو سی این کے علاقائی ایم ایم ایف کوآرڈنیٹر سٹین کرسچائنسن نے کہا کہ ایم ایم ایف پروگرام کا مقصد پارٹنر شپ کی بنیاد پر صحتمند آبی و ساحلی ماحول کو فروغ دینا ہے جس کا مرکز لوگ ہوں ، وہ پالیسی کے تحت ہو اور اس پر سرمایہ کاری کرکے اس پر معلومات استعمال کی جائے۔ ساتھ ہی کمیونیٹیز اور سٹیک ہولڈرز کو متحرک کرنے آب و ہوا میں تبدیلی اور قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایم ایم ایف ایک علاقائی عمل ہے جسے 2004 کے سونامی کے بعد شروع کیا گیا جس میں کئی ممالک کے ساحلی وسائل بہت تیزی سے ضائع ہوئے تھے۔
پروگرام کے تحت سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک پر سب سے پہلے توجہ دی گئی جن میں ہندوستان، انڈونیشیا، مالدیپ، سری لنکا اور تھائی لینڈ شامل ہیں لیکن بعد میں اس کا دائرہ پاکستان، بنگلہ دیش اور ویت نام تک وسیع کیا گیا۔
کلائمٹ چینج وزارت کے سیکریٹری محمد علی گردیزی نے کہا کہ ہم صوبائی حکومتوں کے تعاون سے جنگلات کے بچاؤ کے پروگرام (آر ای ڈی ڈی) پر کام کررہے ہیں جس کی مدد سے کاربن ٹریڈنگ اور بین الاقوامی زرِ مبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان شدید موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے اور ماہرین کو زور دیا گیا ہے کہ وہ ان کا مکمل طور پر فطری حل پیش کریں۔
آئی یو سی این پاکستان کے سربراہ محمود اختر چیمہ نے کہا کہ پاکستان میں آب و ہوا میں تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کی لاگت بڑھتی جارہی ہے جو ایک اندازے کے مطابق چھ سے چودہ ارب ڈالر سالانہ کےدرمیان ہے۔ صرف 2010 کے سیلاب کے نقصانات کا اندازہ تقریباً دس ارب ڈالر لگایا گیا تھا جس نے پاکستان کو عالمی لحاظ سے شدید متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل کردیا تھا۔
مینگرووز کے افزائشی منصوبوں اور گرانٹس کا ذکر کرتےہوئے انہوں نے کہا کہ اب حکومت بھی ان منصوبوں میں شامل ہوگئی ہے ۔ انڈس ڈیلٹا میں 100,000 ہیکٹرز کی اراضی پر آئی یو سی این کے تعاون سے مینگرووز اُگائے جائیں
انہوں نے کہا کہ 63,000 ڈالر کی مختصر گرانٹس کے پہلے سائیکل کے تحت 2011 اور 2012میں نو منصوبے شروع کئے گئے جن کے تحت پہلے سے موجود مینگرووز کے تحفظ اور آگہی کے پروگرام شروع کئے گئے۔ اب حالیہ دوسرے اور تیسرے سائیکل کے لئے 110,000 کی دس گرانٹس جاری کی گئی ہیں جن کے تحت سندھ اور بلوچستان کی غیر سرکاری تنظیموں کام کریں گے۔ اس کے علاوہ 200,000 ڈالر این این جی او، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان، سندھ لائیوسٹاک اور فشریز ڈپارٹمنٹ اور پاکستان نیوی کو بھی دئے گئے ہیں۔
اس موقع پر سندھ کے نگراں وزیرِ اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ زاہد قربان علوی نے کہا ایم ایم ایف جیسے اقدامات ایک درست قدم ہے یہ منصوبہ مشترکہ ماحولیاتی اور معاشی و معاشرتی حل کیلئے مفید ثابت ہوگا۔

رپورٹ:بھگوان داس
ڈان اردو
 
Top