پاکستانی!

علی ذاکر

محفلین
کیا متاثرین مالاکنڈ و سوات کے شہری پاکستانی نہیں ہیں؟اگر ہیں اور یقینآ ہیں تو 25 لاکھ میں سے تین،چار ہزار افراد جن کی امثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل تھی،انہیں سندھ میں داخل ہونے سے کیوں روکا گیا۔25 لاکھ افراد کو دربدر کرنے سے پہلے حکومت کو ان کے سر چھپانے،اور عزت سے جینے کا بندوبست کرنا چاہیئے تھا۔اب اگر وہ اس میں ناکام ہے تو اسے کوئ حق نہیں پہنچتا کہ وہ محض خدشات کی بناء پر انہیں اپنے ہی وطن مین ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے سے روکے۔حکومت کا خیال ہے کہ وہ مشتبہ افراد جن کے سندھ میں داخل ہونے کا خدشہ ہے وہ اب دس بارہ روز بعد جاکر "چھپنے" کی جگہیں تلاش کریں گے؟جناب!وہ تو اسی وقت ملک بھر میں‌پھیل گئے ہونگے۔جب نقل مکانی شروع ہوئ تھی ۔ اب تو وہ اپنی پناہ گاہوں اس وقت تک چھپ کر بیٹھیں گے جب تک آپریشن ختم نہیں ہو جاتا اور جونہی آپریشن ختم ہوگا وہ پھر اپنی ڈگر پر چلنے کیلئے تیار ہونگے ۔اور پھر ایک ایسے شہر میں جہاں پہلے ہی "طالبان" کے نام پر بے گناہوں کو ماراجا چکا ہو وہاں طالبان کیوں آنے لگے؟۔
یہ 25 لاکھ افراد اپنے بال بچوں کے ہمراہ اپنی زندگیوں کی جنگ لر رہے ہیں ۔ وہ اپنا آج تباہ کر کے پاکستان کا کل محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔انہیں آپ کی امدادو تعاوں سے زیادہ ہمدردی محبت کے بول چاہیئں لیکن یہاں‌تو ان کی تذلیل کی جارہی ہے- مفروضوں کی بنیاد پر ان لٹے پٹے افراد سے نارواسلوک کیا جارہا ہے ۔ یہ باتیں نازک احساسات کو ٹھیس پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں ۔قربانی دینے والوں کو اپنی قربانیوں کے ضائع ہونے کا احساس دلا سکتی ہیں ۔مٹھی بھر شرپسند ان کے کان بھرنے میں ذرا دیر نہیں‌لگائیں گے ۔انہیں میٹھے زہر کے ذریعے باور کرایا جا سکتا ہے کہ وہ تنہا ہیں اور تنہائ کا احساس کسی دشمن کو اپنا دوست بنانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
پاکستان 18 کروڑ افراد کا ملک ہے،اس میں بسنے والے کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتے ہوں،کوئ بھی زبان بولتے ہوں،کسی بھی ثقافت سے تعلق رکھتے ہوں، وہ ہیں تو پاکستانی ۔پاکستان کا آئین اپنے تمامشہریوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ رہائش،روزگار،صحت،سیرو تفریح یا دیگر کسی بھی وجہ یا ضرورت کے تحت ملک کے چاروں صوبوں کے کسی بھی شہر،گاؤں،گوٹھ،دیہات،یاکونے میں رہائش حاصل کر سکتے ہیں ۔مگر یہ کیا کہ تین ہزار سے زائد لتےپتے پاکستانیوں کو سندھ کی سرحد پر روک دیا گیا ۔یہ وہ پاکستانی تھے جن کے مالاکنڈ ڈویژن میں اپنے گھر ہیں ،زمینیں ہیں،مویشی ہیں مگر آپریشن کے بعد ان کے پاس رہنے کو ہی ٹھکانہ نہیں ۔ان میں وہ محنت کش بھی تھے جو پہاڑ کا سینہ چیر کر اپنا حق حلال رزق حاصل کرتے تھے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے علاقے میں آنے والے مہمانوں کو اللہ کی رحمت و برکت قرار دیتے ہیں ۔ وہ اپنے بچوں کو تو بھوکا سلا دیتے ہیں مگر مہمان کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتے ہیں ۔ ان محب وطن،محنت کش اور مہمان نواز قوم کے چند ہزار افراد کو واپس بھیج کر اللہ کی رحمت کو ٹھکرایا گیا ہے۔ جبکہ یہ عمل اٹھارہ کرور عوام کو ایک لری میں پرونے میں رکاوٹ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
صرف سندھ ہی نہیں متاثریں کو ایبٹ آباد میں داخل ہونے سے بھی روکا جا رہا ہے ۔دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ سوات اور ایبٹ آباد کا موسم ایک جیسا ہے لہذا متاثریں بعد میں اپنے علاقوں واپس نہیں جائیں گے ۔بھلا کوئ اپنی زمین،اپنا گھر بھی ہمیشہ کے لیئے چھورتا ہے - یہ متاثرین کوئ خانہ بدوش تو نہیں کہ آج یہاں اور کل وہاں ۔یا جہاں‌کی زمیںاور موسم پسند آگیا وہیں پر رہ گئے ۔یہ مصیبت کے مارے لوگ ہیں ۔جو عزت سے رہنے کی جگہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔پیپلز پارٹی سوات کے رہنما افضل شاہ سخت دل برداشتہ ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ "حیرت ہے کہ ہمیں اس وقت کیوں نہیں روکا گیا جب ہم زلزلہ متاثرین کے لیئے امداد لے کر اسی علاقے میں آئے تھے"۔ یہ جملہ اہلیان ہزارہ پر قرض کی سی ھیچیت رکھتا ہے۔
اہلیان سندھ اور ہزارہ کو سوچنا ہو گا کہ 25 لاکھ افراد کا بوجھ پشاور،صوابی یا مردان اٹھا سکتے ہیں؟۔وہاں کے رہنے والے چاہیں بھی تو یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے ۔ویسے بھی انہوں نے اپنے حق سے بڑھ کر قربانی دی ہے اور ان کی قربانی و مہمان نوازی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ۔اب یہ کام پورے پاکستان کو کرنا ہوگا ۔متاثرین کے گم میں آنسو بہانے والون کو اپنے آنسوؤں کی سچائ کو ثابت کرنا ہو گا ۔

مع السلام
 
شرم کی بات ہے وہ لوگ جو آپریشن کی حمایت کرتے تھکتے نہیں تھے، وہی اس آپریشن کے متاثرین کو دیکھنا تک نہیں چاہتے۔
 

arifkarim

معطل
طالبان اب "فوجی آپریشن" کے بعد متاثرین سوات کیلئے چندہ مانگنے پر مجبور ہیں:(
 
Top