پاکستانی فوج کے کاروباری مفادات

مہوش علی

لائبریرین
ساجداقبال نے کہا:
1100198789-1.gif

محترمہ عائشہ صديقہ جان بوجھ کر ان فلاحي اداروں کو سياست سے منسلک کر رہي ہيں جبکہ يہ فلاحي ادارے سختي سے غير سياسي ادارے ہيں اور آج تک کسي نے ان پر سياست ميں ملوث ہونے کا الزام نہيں لگايا ہے (يعني يہ صرف عائشہ صاحبہ کا يہ صرف ايک قياس ہے ، انہوں نے ايک شوشہ چھوڑ ديا ہے اور فوج مخالف حلقے نہ صرف سوچے سمجھے بغير اس پر يقين کر ليں گے بلکہ آگے پھيلاتے جائيں گے)

اور ايسے فوجي فلاحي ادارے بہت سے ممالک ميں کام کر رہے ہيں، مثال کے طور پر ايران ميں "بنياد فاؤنڈيشن" کام کر رہي ہے جس نے ايران عراق جنگ کے شہيدوں و معذوروں کے ليے بے تحاشہ کام کيا ہے


تو ڈاکٹر عائشہ صديقہ کا يہ شوشہ بہت کامياب ہے اور انہيں ديکھنا چاہيے کہ اگر امريکہ کيا يورپ کي کوئي کمپني پاکستان آ کر سرمايہ کاري کرتي ہے تو کيا وہ امريکہ کا سياست ميں اثر رسوخ بڑھانے کے ليے ايسا کر رہي ہے؟
نہيں جي، ايسي تمام غير ملکي کمپنيوں پر تو اعتماد ہے، ليکن اگر توپوں کا نشانہ ہے تو فوجي فاؤنڈيشن جيسي رفاحي تنظيميں

فوج سے اگر اختلاف ہے تو اسے اعتدال ميں رکھئيے اور ہر قسم کے شوشوں ميں رنگ بھرنا بند کريں تو يہ صحيح محب الوطني ہو گي


فوجي فاؤنڈيشن کا تھوڑا مزيد تعارف (ڈيفنس فورم کے ايک رکن کے قلم سے)

[align=left:e9c0bd9992]
Fauji Foundation

What she has tried to portray in her book is that the Army is milking these corporate bodies and that too inefficiently. What she does not know is that THESE are welfare bodies being run independently and very efficiently by both retired persons and civilians.

Her comments are totally a politically motivated allegations. In her book, she has quoted wrong figures at least on more than 250 occasions.

These are mere rhetoric. These facts and figures are not correct. Fauji Foundation is one of the most successful organizations, which has assigned to itself the noble task of providing welfare for families of Shaheeds and veteran soldiers in terms of health and education.


Fauji Foundation was established in 1954 as a charitable organisation. It now provides welfare services to approximately 10 million individuals through its 294 welfare projects.

It is the BIGGEST taxpayer organisation in the country. Unlike other manufacturing and business concerns it does not evade taxes. It declares its total income and profits exactly as those are. And it is contributing positively towards national industrial sector and exchequer.
It has been operating on a completely self sustaining basis. It channels approximately 80% of the profits from commercial ventures into social protection programmes that serve a beneficiary population representing approximately 7% of the country's population.


Over 2.1 million patients are treated each year through the FF Healthcare System; approximately 38,000 students are enrolled in the FF Education System, approximately 70,000 educational stipends are dispersed each year. Over 6,000 individuals are trained annually through the vocational and technical training centers. [/align:e9c0bd9992]

تو اگر فوجي فاؤنڈيشن يہ تجارتي ادارے نہيں چلائے گي تو ملک کي کچھ امير خاندان ان شعبوں ميں چھا جائيں گے (يا پھر غير ملکي کمپنياں) اور يہ امير خاندان يہ پيسا چيريٹي ميں لگانے کي بجائے اپنے آپ کو مزيد امير کرنے پر صرف کر رہے ہوں گے
 

زیک

مسافر
واقعی فوجی فاؤنڈیشن کو اپنا کاروبار جاری رکھنا چاہیئے ورنہ میں کارن فلیکس کیسے کھاؤں گا :p
 

ابوشامل

محفلین
تاریخ میں فوج کی کاروباری معاملات میں مداخلت کی ایک بڑی مثال سلطنت عثمانیہ کی فوج "ینی چری" ہے۔ 14 ویں صدی میں قائم کی جانے والی یہ فوج دنیا کی پہلی منظم فوج تھی اور سب سے پہلے بارود کا اسلحہ اورتوپ خانہ بھی استعمال کرنے کا اعزاز بھی اسے ہی حاصل ہے۔ یہ فوج ان غلاموں پر مشتمل ہوتی تھی جو مفتوحہ علاقوں سے پکڑے جاتے تھے اور بعد از قبولِ اسلام وہ سلطان کے اس ذاتی محافظ دستے میں شامل کیے جاتے تھے جو "ینی چری" یعنی "نئی فوج" کہلایا۔

ابتدا میں اس فوج کے اہلکاروں کو شادی تک کرنے کی اجازت نہ تھی لیکن بعد ازاں یہ پابندیاں آہستہ آہستہ نرم پڑ گئیں اور بعد ازاں غلاموں کی شرط بھی ختم کر دی گئی۔ ان فوجیوں کو باقاعدہ تنخواہیں اور مراعات دی جاتی تھیں اور زمانۂ امن میں یہ شہری دفاع اور فائر بریگیڈ کا کام بھی انجام دیتے تھے۔ لیکن جب اسے کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی تو تاریخ بتاتی ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے ہر متمول گھرانے کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کا بیٹا ینی چری میں جائے۔

بالآخر کاروباری سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور مراعات پر مراعات ملنے کا نقصان یہ ہوا کہ ینی چری اتنی خود سر ہو گئی کہ انہوں نے بادشاہوں پر اپنی مرضی چلانا شروع کر دی اور حکم نہ ماننے پر ایک سلطان کو قتل کرکے اپنی مرضی کا سلطان بٹھا دیا۔ سہل پسندی اس کے علاوہ تھی اور جنگوں میں دشمنوں کے دلوں پر بیٹھی اس فوج کی دھاک ختم ہو گئی۔

فوج کی ملک کے سیاسی و کاروباری معاملات میں بد ترین مداخلت کا انجام یہ ہوا کہ سلطنت عثمانیہ کئی علاقوں سے محروم ہو گئی جن میں ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، مصر، تیونس، الجزائر، لیبیا، سربیا، بوسنیا اور دیگر کئی ممالک شامل تھے۔ اور یہ وہ سب سے بڑا نقصان تھا جو فوج کے کاروباری و ملکی سیاسی معاملات میں مداخلت کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کو اٹھانا پڑا۔

بعد ازاں سلطان محمود ثانی نے اس فوج کا خاتمہ کر دیا تھا۔

نوٹ: یہ میں نے صرف تاریخ بیان کی ہے اسے پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں میری جانب سے کوئی فیصلہ یا تجویز نہ سمجھا جائے بلکہ میرا مقصد صرف فوج کے کاروباری معاملات میں مداخلت کے نتیجے میں ملک کو پہنچنے والے نقصانات سے آگاہ کرنا تھا۔
 

ساجداقبال

محفلین
برا نہ منائیے مہوش لیکن آپ کے حوالے دیکھ کر لگتا ہے کہ پاک ڈیفنس فورم کو آپ نے اس موضوع پر صحیح بخاری سمجھ لیا ہے۔ :)
میرا اندازہ ہے کہ آپ پاکستان میں نہیں ہیں اسی لئے صرف انٹرنیٹ پر دئیے گئے حوالوں پر انحصار کرتی ہیں۔ میرا جواب صرف اتنا ہی ہے کہ قبر کا حال مردہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اور اس قبر(پاکستان) کی مُردے فی الحال ہم ہی ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
بھائي جي،
ان ويلفئير اداروں ميں پروفيشنل سپاہي کام نہيں کر رہے، بلکہ سول ملازمين يا زيادہ سے زيادہ ريٹائرڈ افراد چلا رہے ہيں
تو ميں بھي اس مسئلے پر زيادہ نہيں کہنا چاہتي مگر چاہتي تھي کہ يہ بات کلئير رہے
 

مہوش علی

لائبریرین
جنگ اخبار ميں آج اکرم سہگل کا کالم


ساکھ کا مسئلہ ,,,,اکرام سہگل



اگرچہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ آغا کی کتاب "Military Inc" پر تفصیلی تنقیدی تبصرہ کتاب کے مکمل مطالعے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے، سرسری مطالعہ اس کے مسلح افواج پر خالصتاً من گھڑت باتوں سے مدغم، حقائق میں حاشیہ آرائی کے ساتھ مخصوص مفادات کے تابع حملے کا انکشاف کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو سازشی نظریات کی تائید نہیں کرتے ، یہ کتاب ان کے لئے ایک بڑے منصوبے کے ایک حصے کے بطور سامنے آئی ہے۔ مجھ سے منسوب چند باتیں ایسی بے تکی غلط بیانی ہے جو پوری کتاب کی ساکھ کو مشتبہ بناتی ہے۔ چار ویلفیئر اداروں فوجی فاؤنڈیشن ، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ ، بحریہ فاؤنڈیشن اور شاہین فاؤنڈیشن کے علاوہ کاروبار میں ملٹری عمل دخل کے حوالے سے میرے نظریات تحریر شدہ … میں موجود ہیں۔ یہ ادارے اپنے محصولات ادا کرتے ہیں اور کسی بھی کاروبار میں مصروف ادارے کی طرح کامیابی اور ناکامی رکھتے ہیں۔ میں نے لیفٹیننٹ جنرل ضرار عظیم کے حوالے سے منفی تبصرہ نہیں کیا، اس غیر معمولی فوجی کے بارے میں میرے خیالات 1971ء میں چھور سیکٹر میں ایک ساتھ خدمات انجام دینے کے بعد سے اب تک گزرے 36 برس میں تبدیل نہیں ہوئے۔ (وہ گائیڈز کیولری میں تھے اور میں 44۔ پنجاب (اب 4۔ سندھ) میں ایک کمپنی کی کمانڈ کر رہا تھا)۔ میرے الفاظ کو توڑ موڑ کر انہیں اس قدر بدنام کرنا منصفانہ بات نہیں ہے۔ 2۔ اگست 2003ء کو اپنے ایک مضمون میں جب دونوں ہی طاقتور کور کمانڈر تھے، میں نے مشورہ دیا تھا کہ ”چیف آف آرمی اسٹاف کور کمانڈر لاہور اور کراچی کو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سے الگ کریں کہ اس طرح وہ اپنے لئے اور فوج کے تاثر کے لئے بلاوجہ بدنامی حاصل کر رہے ہیں۔ دونوں کور کمانڈر (اس وقت کے کور کمانڈر کراچی طارق وسیم غازی، اس فوج کے ایک اور بہترین آفیسر تھے) پروفیشنل سولجر تھے جو ڈی ایچ اے سے اپنی وابستگی کے باعث غیر ضروری طور پر بدنام ہوئے ڈی ایچ اے کے معاملات میں لازمی طور پر زمینی قطعات اور املاک کے بروکروں سے ربط شامل ہوتا ہے چند قابل احترام استثنیٰ کے علاوہ یہ زیادہ تر مشتبہ ہیں، حتیٰ کہ خالصتاً غیرفوجی شعبے میں بھی۔ ڈاکٹر آغا مجھ سے گفتگو میں ٹیپ ریکارڈ استعمال کر رہی تھیں وہ ٹیپ کی دستیابی یقینی بنائیں۔ میں جو حقیقت ہو بیان کرنے میں فخر محسوس کرتا ہوں خود کوئی اسے پسند کرنا ہو یا نہیں، خواہ اس سے مجھے ضرر ہی کیوں نہ پہنچے۔چاروں سروس فاؤنڈیشنوں کے مداح ہونے کے باوجود میں یہ موقف بھی رکھتا ہوں کو نہیں ہونا چاہئے۔ ماسوائے اس کے کہ انہیں گاہے بگاہے اس مقصد کے لئے استعمال کیا جائے جس کے لئے انہیں بنایا گیا۔ ان میں سے بعض نے اپنے خصوصی شعبوں میں اچھا کام کیا لیکن ان کے کاروباری مفادات کی حد اور وردی سے ربط نے فوج کے لئے منفی تاثر پیدا کیا۔ فوج کے لئے ساکھ کے یہ خودساختہ مسائل، فاؤنڈیشنز میں بھی شامل ہوئے۔ عوامی تصور کے برعکس ان کا مستند چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کے ذریعے آڈٹ ہونا چاہئے کہ ان کا منافع انفرادی جیبوں میں نہیں جارہا ہے۔ میرا 3 مئی 1997ء کے مضمون ”ملٹری انڈسٹریل ویلفیئر کمپلیکس“ کے مطابق جس کی ایک کاپی ڈاکٹر آغا کو بھی دی گئی تھی۔“ فوجی فاؤنڈیشن کا سب سے بڑا مقصد سابق ملازمین اور ان کے گھرانوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ کیونکہ ویلفیئر سرگرمیوں پر اخراجات کے لے فنڈز مطلوب ہیں اور تمام ضروریات اس کے صنعتی اور کاروباری منصوبوں سے حاصل کردہ فنڈز کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔ ہر سال حاصل شدہ سرمائے کا بڑا حصہ (کم از کم 65 سے 75 فی صد) ویلفیئر کیلیے مخصوص ہے جبکہ بقیہ حصہ منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری یا لیکونڈ لیزور کے بطور رکھنے میں صرف ہوتا ہے ویلفیئر بنیادی طور پر طب، تعلیم اور تکنیکی فیلڈ کے لئے ہے۔ اگر فوجی فاؤنڈیشن منافع ویلفیئر کے علاوہ دوسری مدوں میں خرچ کرنے والا محض ایک فوجی انڈسٹریل کمپلیکس ہوتا تو سچ یہ ہے کہ کسی کو اس کے ارادوں کے حوالے سے فکرمند ہونا چاہئے۔ تاہم اس فاؤنڈیشن نے اپنی اصل 18 ملین روپے کی فنڈنگ کے علاوہ کسی اور ذریعے سے سرمایہ حاصل نہیں کیا۔ اس نے خود اپنے بل بوتے پر ترقی کی ہے (اپنی موجود 80 بلین روپے سے 500 … گنا) فاؤنڈیشن صرف اپنے واجب ٹیکس اور ڈیوٹیاں (گزشتہ برس 7۔ بلین روپے) ہی ادا نہیں کر رہی ہے بلکہ اس کے منافع کا بیش تر حصہ واضح طور پر ویلفیئر مقاصد کے لئے صرف ہو رہا ہے۔ حقیقت میں فوجی فاؤنڈیشن ایمپلائز سوشل سیکورٹی اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کے لئے ایک انتہائی موٴثر مثال ہے ، جس کے یہ ادارے سابق ملازمین کی ویلفیئر ضروریات پورے کرنے کے عمل میں تقلید کرسکتے ہیں خواہ یہ پبلک سیکٹر کے ہوں یا پرائیویٹ کے۔ برسراقتدار رہتے ہوئے اپنی داستان حیات لکھنا ہمیشہ پرخطر ہوتا ہے۔ ان دا لائن آف فائر نے جنرل پرویز مشرف (اور توسیع میں پاکستانی فوج) کو ہم آہنگ حملے کا ہدف بنا دیا۔اس نے ان کے منحرفین کو توجہ کے لئے ایک مرکز دیا۔ 2006ء کی ابتداء میں بین الاقوامی میڈیا میں مشرف مخالف / پاکستان مخالف مضامین کی شدت سامنے آئی ہم ان کے زوال کا سبب بننے والی فیلڈ مارشل ایوب خان کی کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ کی مثال بھی رکھتے ہیں، جس میں عشرہ ترقی کی تقریبات نے کئی گنا شدت پیداکی۔ ایوب کے خلاف مہم کے دوران فوج ہدف نہیں بنی تھی۔ ار عشرے بعد مشترکہ اپوزیشن جنرل مشرف اور پاکستان آرمی کو ہدف بنا رہی ہے بدقسمتی سے یہ مقصد ان لوگوں سے ہم آہنگ ہے جو پاکستان کے کٹر دشمن ہیں۔ کوئی بھی اپوزیشن کی حب الوطنی پر شبہ نہ کرے، ان کے مقاصد، ہمارے دشمنوں کے مقاصد سے یکسر مختلف ہیں۔ سیاستدان چاہتے ہیں کہ جنرل مشرف حکومت چھوڑ دیں اور فوج بیرکوں میں واپس چلی جائے۔پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں کہ ملک کا وجود نہ رہے یا یہ قائم رہے تو ایک علاقائی سپر پاور کی کلائنٹ اسٹیٹ کی حیثیت سے اور وہ جانتے ہیں کہ ایسا صرف فوج کو تباہ کر کے ہی ہوسکتا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے انہیں ابتداء فوجی سربراہ سے کرنی چاہئے۔ ماضی میں جنرل مشرف کی کامیابی اچھے اقدامات کے ساتھ خاطر خواہ خوش نصیبی پر مبنی رہی، جس میں موخر الذکر پر غیرمعمولی انحصار رہا۔ جب نپولین اپنے ایک جنرل سے جو ذہین اور بہادر تھا، خوش تھا۔ وہ کسی خوش قسمت کا طلب گار تھا۔ پرویز مشرف انتہائی خوش قسمت ہیں کہ قسمت ان کا ساتھ دیتی رہی ہے۔ 2006ء کے ابتداء میں ان کے خلاف اجتماعی مہم، جنوبی لبنان میں اسرائیل کے حملے پر حزب اللہ کی مزاحمت کے ذریعے/ باعث ناکام ہوئی۔ متذکرہ بالامضمون کے حوالہ ہے۔ ”پاکستان دائمی طور پر تاثر کے مسئلے کا شکار رہا جو حال ہی میں دہشت گردی کے الزام کے باعث مقامی تناسب میں پہنچ رہا ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ہم امریکی قیادت میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تسلیم شدہ فرنٹ لائن اسٹیٹ ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم فری ورلڈ کے اپنے مخالفین سے نمٹنے کے دوران تین بار پیش پیش رہے ہیں۔ اس دوران مغربی میڈیا نے بھارتی ذرائع کی فراہم کردہ بے بنیاد کہانیوں کو دہرا کر ہمیں خوب رسوا اور بدنام کیا۔ نتیجہ دنیا کے ذہن میں پاکستان (اور پاکستانیوں) کے حوالے سے منفی تصور پروان چڑھتا رہا۔ نائن الیون کے بعد منفی تاثر اس حد تک بڑھا کہ اب گرین پاسپورٹ کو عالمی سطح پر کھلے طور پر شبہے سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں مختلف کہانیوں کی مغربی جرائد میں اشاعت نے بھی معاملات کو خراب کیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہمارے منفی تاثر کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے جلد از جلد اقدام کرے۔ ہمیں جلد از جلد کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اندرونی ضروریات کو بیرونی امیج فیکٹر (Image Factor) سے الگ کریں ظاہر ہے کہ اگر ہم اقوام عالم میں تیزی سے بے توقیر ہوتے تاثر کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک جامع منصوبہ بنانے اور اس پر عمل کی ضرورت ہے۔“ المیہ یہ ہے کہ لگ بھگ ایک ملین باوردی مردوں (اور خواتین) کا تاثر اور ساکھ ایسی غیر ضروری کاروباری مہمات کے ہاتھوں یرغمال ہے جو عوامی خیال کے برعکس دوسرے کاروباری اداروں کی طرح انفرادی فائدے کے لئے نہیں ہیں۔ جو بات دسمبر 2003ء میں ہماری ساکھ اور تاثر کے لئے درست سمجھی جاتی تھی، چار برس بعد 2007ء کے وسط میں ٹھوس فکرمندی کا ایک انتہائی شدید سبب ہے۔ کیا کوئی سن رہا ہے؟
 

ساجداقبال

محفلین
جرنیلانِ پاکستان نے اقتدار ہتھیا کر کیا کیا گُل کھلائے؟ ایسے ہی مضامین کا مجموعہ اس ویب سائٹ پر ملاحظہ کریں۔ چونکہ پاکستان میں آزادی ءِ اظہار کی کچھ “زیادہ ہی“ آزادی ہے تو ممکن ہے آپکو یہ ویب سائٹ پراکسی کے زریعے دیکھنی پڑے۔ اس کیلیے یہ ربط استعمال کریں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
AWT (Army Welfare Trust) started its commercial enterprises in 1971 with equity of Rs 700,000. Today its assets stand over Rs 50 billion.

Over 8,000 people are employed in various projects of the AWT out of which 5,500 are civilians.
It generates Rs 11 billion for the national exchequer. It contributes Rs 3 billion in the form of tax to the national exchequer.

The author of the book , while writing the book has intentionally ignored the fact that most manufacturing units of these

organizations are mostly located in remote areas of the country. AWT (Army Welfare Trust) has one cement plant each in NWFP, Sindh and Punjab. It has a sugar mill located in Badin. Askari Bank is premier national bank with presence in every corner of the country having more than 100 branches.

Now you all can see that with largest number of civilians as employees who is being benefited.
 
مہوش علی نے کہا:
ساجداقبال نے کہا:

محترمہ عائشہ صديقہ جان بوجھ کر ان فلاحي اداروں کو سياست سے منسلک کر رہي ہيں جبکہ يہ فلاحي ادارے سختي سے غير سياسي ادارے ہيں اور آج تک کسي نے ان پر سياست ميں ملوث ہونے کا الزام نہيں لگايا ہے (يعني يہ صرف عائشہ صاحبہ کا يہ صرف ايک قياس ہے ، انہوں نے ايک شوشہ چھوڑ ديا ہے اور فوج مخالف حلقے نہ صرف سوچے سمجھے بغير اس پر يقين کر ليں گے بلکہ آگے پھيلاتے جائيں گے)

اور ايسے فوجي فلاحي ادارے بہت سے ممالک ميں کام کر رہے ہيں، مثال کے طور پر ايران ميں "بنياد فاؤنڈيشن" کام کر رہي ہے جس نے ايران عراق جنگ کے شہيدوں و معذوروں کے ليے بے تحاشہ کام کيا ہے


تو ڈاکٹر عائشہ صديقہ کا يہ شوشہ بہت کامياب ہے اور انہيں ديکھنا چاہيے کہ اگر امريکہ کيا يورپ کي کوئي کمپني پاکستان آ کر سرمايہ کاري کرتي ہے تو کيا وہ امريکہ کا سياست ميں اثر رسوخ بڑھانے کے ليے ايسا کر رہي ہے؟
نہيں جي، ايسي تمام غير ملکي کمپنيوں پر تو اعتماد ہے، ليکن اگر توپوں کا نشانہ ہے تو فوجي فاؤنڈيشن جيسي رفاحي تنظيميں

فوج سے اگر اختلاف ہے تو اسے اعتدال ميں رکھئيے اور ہر قسم کے شوشوں ميں رنگ بھرنا بند کريں تو يہ صحيح محب الوطني ہو گي


فوجي فاؤنڈيشن کا تھوڑا مزيد تعارف (ڈيفنس فورم کے ايک رکن کے قلم سے)

[align=left:b39fdbdb9f]
Fauji Foundation

What she has tried to portray in her book is that the Army is milking these corporate bodies and that too inefficiently. What she does not know is that THESE are welfare bodies being run independently and very efficiently by both retired persons and civilians.

Her comments are totally a politically motivated allegations. In her book, she has quoted wrong figures at least on more than 250 occasions.

These are mere rhetoric. These facts and figures are not correct. Fauji Foundation is one of the most successful organizations, which has assigned to itself the noble task of providing welfare for families of Shaheeds and veteran soldiers in terms of health and education.


Fauji Foundation was established in 1954 as a charitable organisation. It now provides welfare services to approximately 10 million individuals through its 294 welfare projects.

It is the BIGGEST taxpayer organisation in the country. Unlike other manufacturing and business concerns it does not evade taxes. It declares its total income and profits exactly as those are. And it is contributing positively towards national industrial sector and exchequer.
It has been operating on a completely self sustaining basis. It channels approximately 80% of the profits from commercial ventures into social protection programmes that serve a beneficiary population representing approximately 7% of the country's population.


Over 2.1 million patients are treated each year through the FF Healthcare System; approximately 38,000 students are enrolled in the FF Education System, approximately 70,000 educational stipends are dispersed each year. Over 6,000 individuals are trained annually through the vocational and technical training centers. [/align:b39fdbdb9f]

تو اگر فوجي فاؤنڈيشن يہ تجارتي ادارے نہيں چلائے گي تو ملک کي کچھ امير خاندان ان شعبوں ميں چھا جائيں گے (يا پھر غير ملکي کمپنياں) اور يہ امير خاندان يہ پيسا چيريٹي ميں لگانے کي بجائے اپنے آپ کو مزيد امير کرنے پر صرف کر رہے ہوں گے

اگر کوئی ادارہ سویلین کی اکثریت کے ساتھ چل رہا ہے اور حکومتی وسائل استعمال نہیں کررہا تو میں اس کے مخالف نہیں۔ فوجی فاؤنڈیشن کی شہرت اچھی ہے اور اسی طرح عسکری بینک بھی ایک کامیاب بینک ہے اور بہت سے سویلین اس میں ہیں۔ عسکری بینک میں فوجیوں کی تنخواہیں آتی ہیں اس لیے وہ ہمیشہ اچھے حالات میں ہی رہتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی لوگوں میں اس کا ایک معیار ہے اور وہ عوامی مفاد کے پیش نظر کچھ چیزیں متعارف کرواتا رہتا ہے۔
جب تک فوج کسی ایسے کام میں ملوث نہ ہو جو حکومتی پیسوں سے بنا ہو اور جس کا فائدہ صرف افواج کو ہو رہا ہو تب تک میں مخالفت نہیں کرتا ، یہ میری ذاتی رائے ہے جس سے کوئی بھی اختلاف کر سکتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس کتاب کی رونمائی اور بی بی سی میں ایک خبر کہ پاکستانی امن فوج افریقی ممالک (شاید کانگو) میں سونے اور ہتھیاروں کی سمگلنگ میں ملوث رہی ہے، ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب صدر مشرف کی طرف سے عراق سے اتحادی افواج کے انخلا اور مسلمان ممالک کی افواج کی عراق میں تعیناتی کی تجویز پیش ہوئی ہے (واضح رہے کہ بی بی سی کی اس مندرجہ بالا خبر کے مطابق پاکستانی فوج اقوام متحدہ کی امن فوج کا سب سے بڑا دستہ ہے)

اس خبر کا بی بی سے لنک تلاش کر رہا ہوں، اگر مل گیا تو پیش کر دوں گا
 
اہم خبر ہے اور صرف خبر ہی ہے یا تحقیق بھی ہوئی ہے کیونکہ صرف خبر پھیلا دینا تو کافی آسان کام ہے بعد میں چاہے وہ جھوٹ ہی نکلے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
اہم خبر ہے اور صرف خبر ہی ہے یا تحقیق بھی ہوئی ہے کیونکہ صرف خبر پھیلا دینا تو کافی آسان کام ہے بعد میں چاہے وہ جھوٹ ہی نکلے۔
محب یہ حصہ دیکھ لو، کچھ صورتحال واضح ہو جائے گی۔ ویسے عمومی تائثر یہی بنتا ہے کہ یہ غیر مصدقہ خبر ہے‌

اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے دستے میں شامل کچھ پاکستانی افسر ملیشیا گروپوں کو سونے کے عوض ہتھیاروں کی فروخت میں ملوث تھے۔ پاکستان نے ان الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے جبکہ کانگو میں اقوامِ متحدہ کے نمائندے ولیم سووِنگ کا کہنا ہے کہ اگر یہ الزامات ثابت ہو جاتے تو انضباطی کارروائی ہو چکی ہوتی۔
 

ساجداقبال

محفلین
بات کتاب سے شروع ہوئی اور کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ کتاب پڑھے بغیر آراء کا انبار۔۔۔۔ :p
چلیے اب اس ربط پر جاکر کتاب کا سکین شدہ نسخہ ڈاؤن لوڈ کرلیں۔
 

آصف

محفلین
مقدس گائے کے متعلق بات چیت کر کے اپنی عاقبت برباد نہ کریں۔ مقدس گائے جس کا مرضی کھیت اجاڑے، جس کو اس کا دل چاہے سینگ دکھائے، اور جس کو چاہے اپنی پاؤں تلے روند دے۔ اس کی تقدیس ہر تنقید سے مبرا ہے۔
 

محسن حجازی

محفلین
آصف نے کہا:
مقدس گائے کے متعلق بات چیت کر کے اپنی عاقبت برباد نہ کریں۔ مقدس گائے جس کا مرضی کھیت اجاڑے، جس کو اس کا دل چاہے سینگ دکھائے، اور جس کو چاہے اپنی پاؤں تلے روند دے۔ اس کی تقدیس ہر تنقید سے مبرا ہے۔

بالکل! بلکہ فوج کی حمد و ثنا کو تو عبادات میں بھی داخل کر دینا چاہیے!
معاشرے کفر پر تو پنپ سکتے ہیں لیکن ظلم پر نہیں!
 
Top