رضا پاٹ وہ کچھ دھار یہ کچھ زار ہم

مہ جبین

محفلین
پاٹ وہ کچھ دھار یہ کچھ زار ہم
یا الٰہی کیونکر اتریں پار ہم

کس بلا کی مے سے ہیں سرشار ہم
دن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم

تم کرم سے مشتری ہر عیب کے
جنسِ نامقبول ہر بازار ہم

دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تم
دوستوں کی بھی نظر میں خار ہم

لغزشِ پا کا سہارا ایک تم
گرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم

صدقہ اپنے بازوؤں کا المدد
کیسے توڑیں یہ بتِ پندار ہم

دم قدم کی خیر اے جانِ مسیح
در پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم

اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضور
جانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم

اپنے مہمانوں کا صدقہ ایک بوند
مر مٹے پیاسے اِدھر سرکار ہم

اپنے کوچے سے نکالا تو نہ دو
ہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم

ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم
ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم

چاندنی چھٹکی ہے اُنکے نور کی
آؤ دیکھیں سیرِ طور و نار ہم

ہمت اے ضعف اُن کے در پر گِر کے ہوں
بے تکلف سایہء دیوار ہم

با عطا تم شاہ تم مختار تم
بے نوا ہم زار ہم ناچار ہم

تم نے تو لاکھوں کو جانیں پھیر دیں
ایسا کتنا رکھتے ہیں آزار ہم

اپنی ستّاری کا یارب واسطہ
ہوں نہ رسوا بر سرِ دربار ہم

اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
 
Top