پانچ سال میں 28ارب ڈالر عمران خان کہاں سے ادا کرے؟

جاسم محمد

محفلین
munir-ahmed-baloch-600x320.jpg

پانچ سال میں 28ارب ڈالر
منیر احمد بلوچ اپریل 27, 2019

اگر آپ کو پتہ چلے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اپنے پانچ سالہ اقتدار میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی حکومتوں کے دس برسوں میں پاکستان کی گردن پر لادے ہوئے58 ارب ڈالر میں سے 38 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہو گا تو آپ اس پر شاید یقین نہ کرسکیں۔ مگر یہ سچ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ کراچی کا جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ ‘ پشاور اسلام آباد موٹر وے‘ فیصل آباد پنڈی بھٹیاں موٹر وے‘ اسلام آباد پشاور موٹر وے اور اسلام آباد لاہور موٹر وے تمام ہائی ویز ‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کی ملکیت تمام اثاثے ان قرضوں کے عوض اسحاق ڈار کی مہربانیوں سے گروی رکھے ہوئے ہیں۔ عمران خان صاحب آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہتے تھے لیکن ان کی مجبوری یہ بنی کہ ان واجب الادا قرضوں کی بر وقت ادائیگی نہ کرنے سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمارے ان قومی اثاثوں کی قرقی کر سکتے ہیں۔ آج جو بھی اٹھتا ہے اس کی زبان پر یہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم نا تجربہ کار ہیں ‘ان کی وجہ سے ملک میں مہنگائی ہو گئی‘ بجلی ‘ گیس اور تیل مہنگا ہو گیا لیکن ایسے لوگوں سے کوئی یہ نہیں پوچھتاکہ نواز شریف کا1180 ارب روپے آئی پی پیز کا گردشی قرضہ اور گیس کا157 ارب روپے کا خسارہ عمران خان کہاں سے ادا کریں۔اور پھرپانچ برسوں میں قرض لئے ہوئے28 ارب ڈالر کیسے اور کہاں سے ادا کریں؟ حکومت پاکستان اور سٹیٹ بینک کے ریکارڈ کے مطا بق جون2018ء میں عمران خان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل پاکستان 96.7ارب ڈالر کا مقروض ہو چکا تھا۔ جنرل مشرف دور تک پاکستان کاکل بیرونی قرضہ37.2 ارب ڈالر تھا لیکن زرداری نواز کے دس برسوں میں لئے جانے والے58 ارب ڈالر کون کھا گیا؟ میثاقِ جمہوریت کے دونوں بھائیوں کی حکومتوں کے دس برسوں میں ایسا کیا ہوا؟پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں کی وہ کونسی مشکلات تھیں جو 60 ارب ڈالر قرضہ لینے کے بعد دور کر دی گئیں؟کوئی بہتر تعلیمی ادارہ‘ کوئی چار پانچ نئے اور قابل تعریف ہسپتال اور کوئی ایسا صنعتوں کا جال جس سے ملک بھر میں خوش حالی آ گئی ہو؟ پانی اور بجلی کا کوئی منصوبہ؟ بجلی‘ گیس‘ پانی کی قیمتوں میں کمی؟ آٹا‘ چاول‘ لباس سستے کر دیئے گئے ہوں؟بتایا جائے ان ساٹھ ارب ڈالرز سے کیا گیا؟اگر میٹرو ٹرین کے ڈھائی سو ارب کی بات کریں تو یہ سی پیک کے حصے سے لیا گیا ہے۔

8 دسمبر1958 ء سے2018ء کے مالیاتی سال تک پاکستان آئی ایم ایف سے 21 قرضے لے چکا ہے ‘موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے 22 واں قرض لے رہی ہے ۔اپریل2018 ء میںایک انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطا بق پاکستان کے پہلے سے لئے گئے قرضوں اور ان پر واجب الادا سود کی مدکے علا وہ بجلی‘ گیس ‘ تیل او ر خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید28 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔اس رپورٹ کی اس وقت تردید کیوں نہیں کی گئی؟ قیام پاکستان سے اب تک آئی ایم ایف‘ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے لئے گئے قرضوں کی تفصیلات کے مطا بق سب سے پہلا قرضہ 8 دسمبر 1958 کو لیاگیا‘ دوسرا 16 مارچ 1965ء کو آئی ایم ایف نے پاکستان کو37 ہزار پانچ سو ڈالر کی صورت میں دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے دسمبر1971 ء میں اقتدار سنبھالنے سے پانچ جولائی1977 ء تک حکومت کی اور اپنے دور اقتدار میں چار مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لیا ۔ذوالفقار علی بھٹو نے18 مئی1972کو84 ہزار ڈالر‘11 اگست1973 کو75 ہزار ڈالر‘11 نومبر1974 ء کو 75 ہزار اور 19 مارچ1977ء کو 80 ہزار ڈالر آئی ایم ایف سے قرضہ لیا۔ پی پی پی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعدجنرل ضیا الحق کے عرصہ اقتدار جس میں جونیجو مسلم لیگ کا اقتدار بھی شامل ہے 3 لاکھ49 ہزار ڈالر24 نومبر1980ء میںلئے گئے اور2 دسمبر1981 ء کو پاکستان نے آئی ایم ایف سے سات لاکھ تیس ہزار ڈالرقرضہ حاصل کیا اور پھر17 اگست1988 ء کی شام بہاولپور میں جنرل ضیا الحق کے طیارہ حادثے میں مارے جانے کے بعد پی پی پی حکومت نے دسمبر1988ء میںآئی ایم ایف سے 19 لاکھ4 ہزار چار سو اسی ڈالر حاصل کئے ‘پھردسمبر88 کی بے نظیر حکومت میں ہی ایک بار پھر3 لاکھ82 ہزار چار سو دس ڈالر حاصل کئے گئے اس کے بعد 16 ستمبر93 کو 88 ہزار ڈالر مزید قرض لیا۔ 22 فروری94 کو محترمہ بے نظیر بھٹو حکومت نے 123,200 ڈالر اسی تاریخ کو ایک مرتبہ پھر172,200ڈالر اس کے بعد13 دسمبر95 کو بے نظیر بھٹو حکومت نے آئی ایم ایف سے 294,690 ڈالر اور پھر دو مرتبہ265,370 ڈالر قرض لئے۔ بے نظیر بھٹو کے بعد جب میاں نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو ان کی حکومت کو 113,740 ڈالر کی دو قسطیں آئی ایم ایف نے 20 اکتوبر1997ء کو مہیا کیں۔ پھر چار لاکھ پینسٹھ ہزار ڈالر جنرل مشرف کی حکومت نے29 نومبر2000ء کو آئی ایم ایف سے قرضہ لیا۔ جنرل مشرف نے6 دسمبر2001 ء کو861,420ڈالر اور پھر24 نومبر2008ء کو پی پی پی کی زرداری حکومت نے آئی ایم ایف سے 4,93,6035ڈالر قرضہ حاصل کیا اور میاں نواز شریف نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد چار ستمبر2013ء کو آئی ایم ایف سے4,320,000ڈالر قرضہ وصول کیا ۔آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کی فہرست آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے بعد نواز شریف حکومت نے ورلڈ بینک سے12 ارب ڈالر علیحدہ قرضہ حاصل کیا ‘جس کا اعلان وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے23 اپریل2013ء کو اسلام آباد میں3Gموبائل نیٹ ورک کی پہلی نیلامی کے موقع پر ایک نیوز کانفرنس کے دوران کیا تھا۔سکوک بانڈز کی صورت میں گردن توڑ لیا گیا قرض اس کے علا وہ ہے۔

جولائی2013ء سے جون2017ء تک میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے دور اقتدارمیں آئی ایم ایف کی جاری کردہ رپورٹ کے مطا بق پہلے سے لئے گئے قرضوں کے مقابلے میں پاکستان پر بیرونی قرضے مزید 30 فیصد بڑھ جاتے ہیں اور اس اضافے کے نتیجے میں پاکستان پر بیرونی قرضہ79.2ارب ڈالرہو جاتا ہے۔

عمران خان کے سامنے اس وقت 99108ملین ڈالر کا غیر ملکی قرضہ ہے جس کی وصولی اور انہیں خرچ کرنے میں اس کا دور دور تک کوئی ہاتھ اور کردار نہیں۔ جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو ملکی خزانے کی صورت حال کا اندازہ اس سے کیجئے کہ نواز شہباز حکومت نے تاجروں‘ صنعت کاروں حتیٰ کہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کی مد میں بھی دو سال کی ایڈوانس رجسٹریشن اور ٹیکسز2018ء میں ہی وصول کر رکھے ہیں…فیصلہ خود ہی کیجئے کہ اس مہنگائی اور کمزور معیشت کے ذمہ دار کون ہیں؟وہ جو ملک پر قرضوں کا پہاڑ لادنے کا رونا رو رہے ہیں یا وہ جو مہنگائی کا شور مچا رہے ہیں ؟
 

آصف اثر

معطل
حکومت کی نئی معاشی پالیسی کے اعلانات کے بعد عوام خوف زدہ ہیں۔ کسی کو کوئی فکر ہی نہیں۔ فوجیوں کو بیرکوں میں بکروں کے ٹرک بھر بھر کے پہنچ رہے ہیں اور عوام تباہ ہورہے ہیں۔
 
حکومت کی نئی معاشی پالیسی کے اعلانات کے بعد عوام خوف زدہ ہیں۔ کسی کو کوئی فکر ہی نہیں۔ فوجیوں کو بیرکوں میں بکروں کے ٹرک بھر بھر کے پہنچ رہے ہیں اور عوام تباہ ہورہے ہیں۔
میرے وطن کے سجیلے جوانو، سارے بکرے تمھارے لیے ہیں۔

بکرے کھانے والوں کو بکروں کی باتوں پر غصہ بہت آتا ہے۔ آپ ذرا احتیاط کیجیے۔
 
عمران خان یہ سمجھتے تھے کہ ان کے بادشاہ بنتے ہی سب اچھا ہوجائے گا۔ دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ نکلیں گی۔ 92 کا ورلڈ کپ جو جیتا تھا۔۔ اب جب آٹے دال کا بھاؤ پتہ چلا تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ نہ کوئی پلان ہے نہ صلاحیت۔ پہلے ہفتے دوسو ارب اور پھر اسکے اگلے ہفتے دوسو ارب روپیے پاکستان نہیں آئے۔

اب تو پانچ سال نواز شریف اور زرداری کو کوستے ہوئے ہی گزریں گے۔ کہہ دیا تھا کہ غریبوں کی چیخیں نکلوائیں گے سو یہی کررہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کے مخالفین کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟
وہ کہتے ہیں عمران خان 8 ماہ میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں۔ فوری استعفیٰ دیں اور حکومت مخالفین کو سونپ دیں۔ وہ اقتدار میں آکر بیرونی قرضے ڈبل کر کے یہ رواں قرضے اتار دیں گے ۔ جیسا کہ ماضی میں کیا تھا :)
 

جاسم محمد

محفلین
کیا اس بات کا کوئی حوالہ مل سکتا ہے؟ :)
جی بالکل۔
پچھلی حکومت نے 40 ارب ڈالر کے ریکارڈ نئے قرضے لئے:
Government got record $40b loans
30 ارب ڈالر قرضوں کی قسطوں میں واپس کئے:
ن لیگ نے 30 ارب ڈالر قرض واپس کیا
قرضوں کا تناسب 64 فیصد سے بڑھا 74فیصد پر لے گئے:
jdz7ieK.png

Debt-to-GDP ratio to worsen, NA body told

انہی لوگوں کو دوبارہ حکومت دینے کا مطلب 4سال بعد بیرونی قرضہ 140 ارب ڈالراور قرضوں کا تناسب 84 فیصد تک لے جانا ہوگا۔ ایسے میں اگر یہ 28ارب ڈالر کے قرضےقسطوں میں واپس کر بھی دیں تو ملک و قوم کا کیا بھلا ہوگا سوائے ان پر مزید قرضے لادنے کے؟
 

ٹرومین

محفلین
بہت شکریہ!
میں دراصل ذیل کے مکالمے میں نشان زد جملہ کے حوالے کی بابت استفسار چاہ رہا تھا:
عمران خان کے مخالفین کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟

وہ کہتے ہیں۔۔۔
’’وہ اقتدار میں آکر بیرونی قرضے ڈبل کر کے یہ رواں قرضے اتار دیں گے ۔ جیسا کہ ماضی میں کیا تھا‘‘ :)
 

جاسم محمد

محفلین
بہت شکریہ!
میں دراصل ذیل کے مکالمے میں نشان زد جملہ کے حوالے کی بابت استفسار چاہ رہا تھا
ن لیگ اور پی پی پی جو اس وقت مخالفین ہیں کو ماضی میں باری باری حکومت کا موقع ملا۔ اس وقت قوم انہی کی غلط پالیسیز کے نتائج بھگت رہی ہے۔ اور ساتھ میں گالیاں تحریک انصاف کو دے رہی ہے۔
ن لیگ کا پانچ سالہ دور
 

جان

محفلین
عمران خان صاحب کو کسی نے گن پوائنٹ پہ حکومت نہیں دی۔ قرض نہیں ادا کر سکتے تو گھر جائیں۔ حکومت میں آنے سے قبل تو ریاستِ مدینہ کے دعوے دار تھے اور آنے کے بعد یہ کیسے ہو، وہ کیسے ہو، خان کیا کرے، وغیرہ وغیرہ، یہ سب سوچنا ہمارا کام نہیں ہے، یہ خان صاحب کا کام ہے جس کے اس نے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔ اسی مقصد کے لیے خان صاحب کو نصب کیا گیا تھا۔ اگر خان صاحب نہیں کر سکتے تو گھر جائیں، کسی اور کو موقع دیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
عمران خان صاحب کو کسی نے گن پوائنٹ پہ حکومت نہیں دی۔ قرض نہیں ادا کر سکتے تو گھر جائیں۔ حکومت میں آنے سے قبل تو ریاستِ مدینہ کے دعوے دار تھے اور آنے کے بعد یہ کیسے ہو، وہ کیسے ہو، خان کیا کرے، وغیرہ وغیرہ، یہ سب سوچنا ہمارا کام نہیں ہے، یہ خان صاحب کا کام ہے جس کے اس نے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔ اسی مقصد لیے خان صاحب کو نصب کیا گیا تھا۔ اگر خان صاحب نہیں کر سکتے تو گھر جائیں، کسی اور کو موقع دیں۔
قرض ادا کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی ہر پالیسی کو غیرمعمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جب خان صاحب حکومت سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کی بجائے دوست ممالک کا دورہ کر رہے تو کہا گیا کہ سیدھا آئی ایم ایف کے پاس کیوں نہیں اور اب آئی ایم ایف سے ڈیل ہو گئی ہے تو کہا جا رہا ہے عوام پر مہنگائی کا بم گرا دیا۔
دونوں صورتوں میں ذمہ دار خان صاحب کو ٹھہرانا درست نہیں ہے۔
 

جان

محفلین
قرض ادا کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی ہر پالیسی کو غیرمعمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جب خان صاحب حکومت سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کی بجائے دوست ممالک کا دورہ کر رہے تو کہا گیا کہ سیدھا آئی ایم ایف کے پاس کیوں نہیں اور اب آئی ایم ایف سے ڈیل ہو گئی ہے تو کہا جا رہا ہے عوام پر مہنگائی کا بم گرا دیا۔
دونوں صورتوں میں ذمہ دار خان صاحب کو ٹھہرانا درست نہیں ہے۔
غیر معمولی مزاحمت کون کر رہا ہے؟ اگر آپ اپوزیشن کی بات کر رہے ہیں تو جتنی اپوزیشن، ڈھٹائی اور انتشار کا مظاہرہ خان صاحب نے کیا تھا اس کا تو یہ دسواں حصہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ موجودہ اسمبلی میں تو اپوزیشن سرے سے ہے ہی نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
غیر معمولی مزاحمت کون کر رہا ہے؟ اگر آپ اپوزیشن کی بات کر رہے ہیں تو جتنی اپوزیشن، ڈھٹائی اور انتشار کا مظاہرہ خان صاحب نے کیا تھا اس کا تو یہ دسواں حصہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ موجودہ اسمبلی میں تو اپوزیشن سرے سے ہے ہی نہیں۔
تحریک انصاف کبھی مرکزی حکومت میں نہیں رہی۔ ن لیگ اور پی پی پی نے تو اپنے ادوار حکومت میں بھانت بھانت کا قرضہ ملک و قوم پر چڑھایا ہے۔ انہی ریکارڈ قرضوں کو اتارنے کیلئے مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اور اس پر گالیاں بھی کھا رہے ہیں۔
 

ابوعبید

محفلین
ویسے کیسا کمال کا میڈیا ہے پاکستان کا ۔ مشرف دور میں آزاد ہوتا ہے ۔ پھر شریف و زرداری دور میں چپ رہتا ہے بشمول اے آر وائی کے ۔ جیسے ہی عمران خان کو حکومت ملتی ہے تو میڈیا شور مچانا بلکہ چیخنا شروع کر دیتا ہے ۔
 
ہائے بیچارہ۔
ان تمام عوام کا قصور ہے، جنھوں نے اس شریف آدمی کو ووٹ دے کر پھنسا دیا ہے۔
الیکشن سے پہلے واضح کر دیتے کہ یہ اور یہ کام ہم سے پانچ سالوں میں نہیں ہونے کا۔ :)
 
Top