پانچ جون عالمی یوم ماحولیات:ماحولیاتی آلودگی وآلودہ پانی امراض کے بڑے اسباب ہیں

hakimkhalid

محفلین
ng2x7oc8sf.jpg
پانی اور ماحو ل کی آلودگی دور کرکے ہم بیشتر امراض سے بچ سکتے ہیں:حکیم قاضی ایم اے خالد
ماحولیاتی آلودگی سے ملیریا 'اسہال 'گیسٹرو 'یرقان' خصوصاً ہیپاٹائٹس اوردیگرامراض میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے
qransjr140.jpg
لاہور05جون… آب و ہوا کی تبدیلیوںاور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے حوالے سے عوام الناس میں شعور و آگاہی پیدا کرناامراض سے بچاؤ کیلئے انتہائی اہم ہے۔ سانس کی تکالیف اور دیگر امراض کی بنیادی وجہ فضائی آلودگی ہے ہرسال پانچ سال سے کم عمر کے پچیس لاکھ بچے سانس کی امراض سے ہلاک ہو جاتے ہیںجبکہ سینے کی انفیکشن 'ٹریفک کے دھوئیں میں شامل کاربن مونو آکسائیڈاور سیسے وغیرہ کی کثافت سے وقوع پذیر ہورہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 14سال تک کی عمر کے ساٹھ لاکھ بچے ہرسال مختلف امراض کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں یہ ننھے پھول خاص طور پر ملیریا 'ہیضہ' اسہال' گیسٹرو اور سانس کی بیماریوںمیں مبتلا ہوتے ہیں جس کی بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ ان باتوں کا اظہار مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان اور یونانی میڈیکل آفیسرحکیم قاضی ایم اے خالد نے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر''ہیلتھ پاک ''کے زیر اہتمام آگہی مہم کے آغاز پر ملکی و غیرملکی میڈیا سے بات چیت کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ وطن عزیز میں ملیریا 'اسہال'گیسٹرو' ہیضہ' یرقان خصوصا ہیپاٹائٹس نیز دمہ وغیرہ کی شکایات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے تدارک کی سب سے بہتر صورت پینے کے پانی اور ماحو ل کی آلودگی کو دور کرناہے۔احتجاج کے مواقع پر ٹائر جلانے سے فضائی آلودگی 'سڑکوں کے کنارے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر'ہسپتالوں کا کچرا 'سرنجیں'استعمال شدہ بوتلیں'مضرِصحت کیمیائی کچرا 'کارخانوں سے خارج ہونے والا مہلک دھواں اور زہریلی گیسوں وغیرہ سے بڑے اور خاص طور پر معصوم بچے مختلف امراض مثلاسانس کی بیماریوں اورجِلدی شکایات میں مبتلا ہوجاتے ہیںاکثر بچو ں کامعمولی نزلہ زکام بگڑکر شدید کھانسی دمے اور نمونئے کا باعث بن جاتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے شجرکاری کی انتہائی اہمیت ہے اس سلسلے میںشعور پیداکرنے کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی کرنا ہوں گے تبھی ہم اپنے بچوں کو مستقبل کی خوبصورت زندگی اور ماحول فراہم کرسکتے ہیں۔​
 

شمشاد

لائبریرین
آج ہمارے دفتر میں یہ دن منایا گیا ہے۔ جس میں آدھ گھنٹے کی تقریر اور تصویری presentation تھی۔ اس کے بعد ایک شاندار لنچ تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ng2x7oc8sf.jpg
پانی اور ماحو ل کی آلودگی دور کرکے ہم بیشتر امراض سے بچ سکتے ہیں:حکیم قاضی ایم اے خالد
ماحولیاتی آلودگی سے ملیریا 'اسہال 'گیسٹرو 'یرقان' خصوصاً ہیپاٹائٹس اوردیگرامراض میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے
qransjr140.jpg
لاہور05جون… آب و ہوا کی تبدیلیوںاور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے حوالے سے عوام الناس میں شعور و آگاہی پیدا کرناامراض سے بچاؤ کیلئے انتہائی اہم ہے۔ سانس کی تکالیف اور دیگر امراض کی بنیادی وجہ فضائی آلودگی ہے ہرسال پانچ سال سے کم عمر کے پچیس لاکھ بچے سانس کی امراض سے ہلاک ہو جاتے ہیںجبکہ سینے کی انفیکشن 'ٹریفک کے دھوئیں میں شامل کاربن مونو آکسائیڈاور سیسے وغیرہ کی کثافت سے وقوع پذیر ہورہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 14سال تک کی عمر کے ساٹھ لاکھ بچے ہرسال مختلف امراض کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں یہ ننھے پھول خاص طور پر ملیریا 'ہیضہ' اسہال' گیسٹرو اور سانس کی بیماریوںمیں مبتلا ہوتے ہیں جس کی بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ ان باتوں کا اظہار مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان اور یونانی میڈیکل آفیسرحکیم قاضی ایم اے خالد نے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر''ہیلتھ پاک ''کے زیر اہتمام آگہی مہم کے آغاز پر ملکی و غیرملکی میڈیا سے بات چیت کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ وطن عزیز میں ملیریا 'اسہال'گیسٹرو' ہیضہ' یرقان خصوصا ہیپاٹائٹس نیز دمہ وغیرہ کی شکایات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے تدارک کی سب سے بہتر صورت پینے کے پانی اور ماحو ل کی آلودگی کو دور کرناہے۔احتجاج کے مواقع پر ٹائر جلانے سے فضائی آلودگی 'سڑکوں کے کنارے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر'ہسپتالوں کا کچرا 'سرنجیں'استعمال شدہ بوتلیں'مضرِصحت کیمیائی کچرا 'کارخانوں سے خارج ہونے والا مہلک دھواں اور زہریلی گیسوں وغیرہ سے بڑے اور خاص طور پر معصوم بچے مختلف امراض مثلاسانس کی بیماریوں اورجِلدی شکایات میں مبتلا ہوجاتے ہیںاکثر بچو ں کامعمولی نزلہ زکام بگڑکر شدید کھانسی دمے اور نمونئے کا باعث بن جاتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے شجرکاری کی انتہائی اہمیت ہے اس سلسلے میںشعور پیداکرنے کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی کرنا ہوں گے تبھی ہم اپنے بچوں کو مستقبل کی خوبصورت زندگی اور ماحول فراہم کرسکتے ہیں۔​
بہت شکریہ۔ مسکراتی زندگی کے لیے درخت لگائیں۔
 

hakimkhalid

محفلین
آج ہمارے دفتر میں یہ دن منایا گیا ہے۔ جس میں آدھ گھنٹے کی تقریر اور تصویری presentation تھی۔ اس کے بعد ایک شاندار لنچ تھا۔
یعنی کہ نششتاً ۔۔۔۔۔۔برخواستاً۔۔۔۔۔۔اور معاملہ خاص۔۔۔۔۔۔‘‘خوردن ’’تک ہی محیط ہوتے ہیں ۔۔۔۔زیادہ تر ایسے دن۔۔۔۔۔۔۔۔
 

hakimkhalid

محفلین
شمشاد صاحب کیا شجر کاری بھی کی گئی؟
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔شجرکاری تو بہت عرصہ قبل کی گئی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو پھل کاٹنے کا دن تھا۔۔۔۔ہمیں بھی ملا ہے پھل آج کا دن منانے کا۔۔۔۔۔۔۔۔پانچ ہزار روپے۔۔۔۔۔۔ایک عالمی تنظیم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو تھا ازراہ تفنن۔۔۔۔۔۔۔۔
تاہم شجرکاری ازحد ضروری ہے۔۔۔۔۔۔اور اس کےلئے کسی تنظیم یا حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے ازخود اپنی مدد آپ ۔۔۔۔۔کا فارمولہ اختیار کیا جائے۔۔۔۔تو وطن عزیز میں بھی عالمی یوم ماحولیات منانے کے تقاضے پورے ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

hakimkhalid

محفلین
شمشاد صاحب سے کئے گئے سوال کے جواب کےلئے معذرت۔۔۔۔۔۔۔۔
البتہ مذکورہ جواب میں این جی اوز کے حوالہ سے کی گئی بات مقامی طور پر ایک حقیقت ہے۔۔۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تاہم شجرکاری ازحد ضروری ہے۔۔۔ ۔۔۔ اور اس کےلئے کسی تنظیم یا حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے ازخود اپنی مدد آپ ۔۔۔ ۔۔کا فارمولہ اختیار کیا جائے۔۔۔ ۔تو وطن عزیز میں بھی عالمی یوم ماحولیات منانے کے تقاضے پورے ہو جائیں گے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
درخت لگانا سنت ہے ، اللہ کی یہ نعمت ہے۔ درخت لگائیں بخت جگائیں۔

پودے لگاتے بوڑھے کو دیکھ کر لوگوں نے کہا بابا جی جب تک یہ درخت پھل دار و سایہ دار ہونگے۔ آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں گے پھر یہ تکلیف کاہے کو؟ کہا کہ میرے بزرگ درخت لگا کے اِس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر پھل میں نے کھایا۔۔۔ سائے میں بھی بیٹھا۔۔۔ اب یہ درخت میں اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کےلئے لگا رہا ہوں۔
ہم چونکہ بحیثیت مجموعی خود غرض ہوچکے ہیں ۔لہذا اپنی دنیا میں گم ہیں۔آس پاس کی کوئی خبر نہیں۔وہ لوگ جو اپنی طبعی عمر کے آخر ی حصے میں پہنچتے ہیں اور زندگی کی گزری فلم کو اپنے خیالات میں تازہ کرکے دیکھتے ہیں اور انہیں نظر آتا ہے کہ میں نے فلاں بستی میں ایک کنواں کھدوایا تھا آج بھی وہاں سے لوگ پانی پیتے ہیں۔ وہ جو دو یتیم بچے تھے جنہیں میں نے پڑھایا لکھایا ، آج وہ اچھے منصب پر فائز خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کچھ گھرانے مسکینوں کے تھے، جو اپنی خود اری کے باعث کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاسکتے تھے، میں نہ صرف کفالت کرتا رہا بلکہ ان کے مستقل روزگار کا اہتمام کر دیا۔ زندگی سے مایوس ایک مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا ،علاج کروایا۔وہ اپنے بچوں کے ساتھ آج خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے۔ کوئی حاجت مند ملا اس کی ضرورت پوری کردی۔ راستوں کے کنارے پودے لگائے جو آج تناور درخت بن چکے ہیں، لوگ پھل بھی کھاتے ہیں اور سائے میں بھی بیٹھتے ہیں۔
یقین کیجئے ایسے لوگ بہت مطمئن اور پرسکون ہوتے ہیں۔ وہ عمر رفتہ کی ان نیکیوں کو یاد کرتے ہیں اور راحت و اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اے نفس مطمئنہ لوٹ آ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ میں تجھ سے راضی اور تومجھ سے راضی“۔ مگر جو لوگ ان کاموں سے دور رہے وہ عمر کے آخری حصے میں راحت و سکوں کی اس کیفیت سے محروم رہے۔ میرے دوست احباب جانتے ہیں کہ میں بوڑھے لوگوں کی باتیں توجہ سے سنتا ہوں ، پاس بیٹھتا ہوں۔ وقت دیتا ہوں۔اس لئے تاکہ وہ باتیں کر کے اپنے دل کا غبار اتار سکیں اور یہ جاننے میں بھی مدد ملتی ہے کہ وہ اپنی گزری زندگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
اگر ہم اطمینان چاہتے ہیں تو صدقہ جاریہ کا اہتمام کریں۔ اللہ کے نبی نے فرمایا ”جو شخص درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے پھر اس میں سے انسان ، پرندے یا جانور کھائیں وہ اس کے لئے صدقہ جاریہ ہے“۔ ایک اور خوبصورت فرمان اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”درخت اللہ کے حکم سے سجدہ ریز ہوتے ہیں“۔
کیوں نہ میں اور آپ خد ا کے حضور سجدہ ریز ہونے والے ڈھیر سارے درخت لگائیں۔ درخت تو دکھاوے اور ریاکاری کی عبادت نہیں کرتے۔ کیا خیال ہے میں اور آپ جو درخت لگائیں گے ان کی سجدہ ریزیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوگا؟ ممکن ہے میرے جیسے ریاکاروں کے سجدوں میں خالص سجدے صرف ان درختوں کے ہوں جو ہمیں فائدہ پہنچا جائیں۔
اللہ کے نبی مدینے تشریف لائے تو میلوں پھیلے رقبے پر کئی جنگل اور سبزہ زار لگوائے۔ انہیں چراہ گاہ اور محفوظ علاقہ بھی کہا جاتا تھا۔ اور بلا ضرورت درخت کاٹنے کی سختی سے ممانعت تھی۔
حسن فطرت کے تناظر میں درختوں کی جو منظر کشی قرآن نے بیان کی اسے پڑھ کر انسان فطرت کے حسین نظاروں کھو جاتا ہے۔اسی لئے شائد علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا ۔
خدا اگر دل ِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
قرآن مجید نے شجر کاری کے ساتھ جڑے معیشت اور خوشحالی کے گہرے تعلق کو بڑے خوبصورت لفظوں میں بیان کیا ہے۔ حسن فطرت کی رعنائیوں ، دلکش مناظر کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون قرار دیا ہے۔ میں جان بوجھ کر اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ یہ موضوع الگ تحریر کا متقاضی ہے۔
اس وقت میرے سامنے بین الاقوامی ادارے ایف اے او کی فاریسٹ ریسورس اسسمنٹ کی تفصیلی رپورٹ ہے جس کے مطابق پاکستان میں صرف 3 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں اوراس میں بھی خطرناک حد تک مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا 24فیصد سے زائد علاقہ جنگلات پر مشتمل ہے جبکہ اس میں مزید تیز رفتار توسیع کی منصوبہ بندی کی جاری ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم نے دل بھی بنجر کر لئے ہیں اور پاک سر زمین کو بھی مکمل بنجر کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ کے نبی کا یہ فرمان مجھے اکثر و بیشتر مایوسی سے نکال کر آمادہِ عمل کرتا ہے۔ آپ کوبھی اندازہ ہوجائے گا کہ درخت لگانے کی اہمیت کیا ہے: فرمایا ”اگر تمھارے ہاتھ میں ایک پودے کی قلم ہے اور تم اسے لگا رہے اور عین اس وقت قیامت کا اعلان ہوجائے تو بھی کوشش کرو کہ یہ پودا زمین میں لگا دو“۔
میری تحریر میں تو شائد اثر نہ ہو مگر میر ے نبی نے سنگ دلوں اور تنگ ذہنوں کو بدل کے رکھ دیا۔ اور وہ بھی صرف 23برس میں۔ ”وحشی“ تہذیب یافتہ ہوگئے۔ آئیے اس پاک سر زمین سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے ہم اپنے آپ سے عہد کریں کہ ہم میں سے ہر شخص کم از کم 20پودے لگا کر اپنے وطن کو سر سبز و شاداب بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ آئیے مل کر اس بکھرے سماج کی شیرازہ بندی کریں۔ سماج کے منفی رویوں کو پیدواری اور مثبت طرز فکر دینے کی اجتماعی کوشش کریں۔ خود غرضی سے تائب ہو کر آنے والی نسلوں کو ایک خوشحال اور سر سبز و شاداب پاکستان دے کر جائیں۔ میں نے اور آپ نے جلدیا بدیر اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے۔ مگر آئندہ نسلوں کے لیے کچھ اچھا کر کے اپنے اگلے سفر کو صدقہ جاریہ کے ذریعے اپنے لیے باعثِ راحت و سکون بنا لیں۔
 

hakimkhalid

محفلین
photo.php
درخت لگانا سنت ہے ، اللہ کی یہ نعمت ہے۔ درخت لگائیں بخت جگائیں۔

پودے لگاتے بوڑھے کو دیکھ کر لوگوں نے کہا بابا جی جب تک یہ درخت پھل دار و سایہ دار ہونگے۔ آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں گے پھر یہ تکلیف کاہے کو؟ کہا کہ میرے بزرگ درخت لگا کے اِس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر پھل میں نے کھایا۔۔۔ سائے میں بھی بیٹھا۔۔۔ اب یہ درخت میں اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کےلئے لگا رہا ہوں۔
ہم چونکہ بحیثیت مجموعی خود غرض ہوچکے ہیں ۔لہذا اپنی دنیا میں گم ہیں۔آس پاس کی کوئی خبر نہیں۔وہ لوگ جو اپنی طبعی عمر کے آخر ی حصے میں پہنچتے ہیں اور زندگی کی گزری فلم کو اپنے خیالات میں تازہ کرکے دیکھتے ہیں اور انہیں نظر آتا ہے کہ میں نے فلاں بستی میں ایک کنواں کھدوایا تھا آج بھی وہاں سے لوگ پانی پیتے ہیں۔ وہ جو دو یتیم بچے تھے جنہیں میں نے پڑھایا لکھایا ، آج وہ اچھے منصب پر فائز خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کچھ گھرانے مسکینوں کے تھے، جو اپنی خود اری کے باعث کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاسکتے تھے، میں نہ صرف کفالت کرتا رہا بلکہ ان کے مستقل روزگار کا اہتمام کر دیا۔ زندگی سے مایوس ایک مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا ،علاج کروایا۔وہ اپنے بچوں کے ساتھ آج خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے۔ کوئی حاجت مند ملا اس کی ضرورت پوری کردی۔ راستوں کے کنارے پودے لگائے جو آج تناور درخت بن چکے ہیں، لوگ پھل بھی کھاتے ہیں اور سائے میں بھی بیٹھتے ہیں۔
یقین کیجئے ایسے لوگ بہت مطمئن اور پرسکون ہوتے ہیں۔ وہ عمر رفتہ کی ان نیکیوں کو یاد کرتے ہیں اور راحت و اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اے نفس مطمئنہ لوٹ آ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ میں تجھ سے راضی اور تومجھ سے راضی“۔ مگر جو لوگ ان کاموں سے دور رہے وہ عمر کے آخری حصے میں راحت و سکوں کی اس کیفیت سے محروم رہے۔ میرے دوست احباب جانتے ہیں کہ میں بوڑھے لوگوں کی باتیں توجہ سے سنتا ہوں ، پاس بیٹھتا ہوں۔ وقت دیتا ہوں۔اس لئے تاکہ وہ باتیں کر کے اپنے دل کا غبار اتار سکیں اور یہ جاننے میں بھی مدد ملتی ہے کہ وہ اپنی گزری زندگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
اگر ہم اطمینان چاہتے ہیں تو صدقہ جاریہ کا اہتمام کریں۔ اللہ کے نبی نے فرمایا ”جو شخص درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے پھر اس میں سے انسان ، پرندے یا جانور کھائیں وہ اس کے لئے صدقہ جاریہ ہے“۔ ایک اور خوبصورت فرمان اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”درخت اللہ کے حکم سے سجدہ ریز ہوتے ہیں“۔
کیوں نہ میں اور آپ خد ا کے حضور سجدہ ریز ہونے والے ڈھیر سارے درخت لگائیں۔ درخت تو دکھاوے اور ریاکاری کی عبادت نہیں کرتے۔ کیا خیال ہے میں اور آپ جو درخت لگائیں گے ان کی سجدہ ریزیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوگا؟ ممکن ہے میرے جیسے ریاکاروں کے سجدوں میں خالص سجدے صرف ان درختوں کے ہوں جو ہمیں فائدہ پہنچا جائیں۔
اللہ کے نبی مدینے تشریف لائے تو میلوں پھیلے رقبے پر کئی جنگل اور سبزہ زار لگوائے۔ انہیں چراہ گاہ اور محفوظ علاقہ بھی کہا جاتا تھا۔ اور بلا ضرورت درخت کاٹنے کی سختی سے ممانعت تھی۔
حسن فطرت کے تناظر میں درختوں کی جو منظر کشی قرآن نے بیان کی اسے پڑھ کر انسان فطرت کے حسین نظاروں کھو جاتا ہے۔اسی لئے شائد علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا ۔
خدا اگر دل ِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
قرآن مجید نے شجر کاری کے ساتھ جڑے معیشت اور خوشحالی کے گہرے تعلق کو بڑے خوبصورت لفظوں میں بیان کیا ہے۔ حسن فطرت کی رعنائیوں ، دلکش مناظر کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون قرار دیا ہے۔ میں جان بوجھ کر اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ یہ موضوع الگ تحریر کا متقاضی ہے۔
اس وقت میرے سامنے بین الاقوامی ادارے ایف اے او کی فاریسٹ ریسورس اسسمنٹ کی تفصیلی رپورٹ ہے جس کے مطابق پاکستان میں صرف 3 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں اوراس میں بھی خطرناک حد تک مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا 24فیصد سے زائد علاقہ جنگلات پر مشتمل ہے جبکہ اس میں مزید تیز رفتار توسیع کی منصوبہ بندی کی جاری ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم نے دل بھی بنجر کر لئے ہیں اور پاک سر زمین کو بھی مکمل بنجر کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ کے نبی کا یہ فرمان مجھے اکثر و بیشتر مایوسی سے نکال کر آمادہِ عمل کرتا ہے۔ آپ کوبھی اندازہ ہوجائے گا کہ درخت لگانے کی اہمیت کیا ہے: فرمایا ”اگر تمھارے ہاتھ میں ایک پودے کی قلم ہے اور تم اسے لگا رہے اور عین اس وقت قیامت کا اعلان ہوجائے تو بھی کوشش کرو کہ یہ پودا زمین میں لگا دو“۔
میری تحریر میں تو شائد اثر نہ ہو مگر میر ے نبی نے سنگ دلوں اور تنگ ذہنوں کو بدل کے رکھ دیا۔ اور وہ بھی صرف 23برس میں۔ ”وحشی“ تہذیب یافتہ ہوگئے۔ آئیے اس پاک سر زمین سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے ہم اپنے آپ سے عہد کریں کہ ہم میں سے ہر شخص کم از کم 20پودے لگا کر اپنے وطن کو سر سبز و شاداب بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ آئیے مل کر اس بکھرے سماج کی شیرازہ بندی کریں۔ سماج کے منفی رویوں کو پیدواری اور مثبت طرز فکر دینے کی اجتماعی کوشش کریں۔ خود غرضی سے تائب ہو کر آنے والی نسلوں کو ایک خوشحال اور سر سبز و شاداب پاکستان دے کر جائیں۔ میں نے اور آپ نے جلدیا بدیر اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے۔ مگر آئندہ نسلوں کے لیے کچھ اچھا کر کے اپنے اگلے سفر کو صدقہ جاریہ کے ذریعے اپنے لیے باعثِ راحت و سکون بنا لیں۔
جزاک اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت خوب ۔۔۔۔۔اتنی تفصیلی معلومات بہم پہنچانے کےلئے۔۔۔۔۔۔محترم الف نظامی صاحب
یعنی کہ اس دن کے اصل تقاضے۔۔۔۔۔۔۔۔ چودہ سو سال سے اہل اسلام۔۔۔۔۔پورے کرتے آ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
 
Top