پائلٹ

شمشاد

لائبریرین
خان صاحب یہ کیا کہ چند سطریں لکھ کر تھک جاتے ہیں۔ کم از کم دو سے تین صفحے تو لکھا کریں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
:)
سوائے فون کال کے اینڈرائڈ ہر کام کرتا ہے
آپ کی غلط فہمی ہے، میرے پاس دو سال سے زیادہ عرصے سے اینڈرائڈ فون ہیں جو ہر کام کرتے ہیں۔ البتہ ونڈوز فون پر جیسا لومیا 825 میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ اکثر بغیر اجازت کے وہ اپ ڈیٹ انسٹال کرنا شروع کر دیتا ہے اور نصف گھنٹہ فون بے کار۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ فون کال کرنا چاہتے ہیں تو اطلاع ملتی ہے کہ اس نمبر پر کال نہیں کی جا سکتی :)
 
پائلٹ معذوری کی وجہ سے سائیکل چلاتا تھا بچپن سے ہی۔ مگر بچپن میں چھوٹی سائیکل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آبا کی سائیکل اس اسٹائیل میں چلاتا تھا جسے ہم قینچی سائیکل چلانا کہتے ہیں۔ سائیکل چونکہ بچے کے قد سے بڑی ہوتی ہے اس لیے سیٹ پر بیٹھ کر پیڈل مارنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے بچہ فل سائزسائیکل چلانے کے لیے سائکل کی سیٹ پر بیٹھنے کے بجائے سائیکل کے فریم کے اندر سے دوسری طرف کا پیڈل چلاتا ہے۔ پائلٹ بڑی سائیکل اسی طرح چلاتا تھا۔ یہ اک مشکل کام تھا۔ مگر پائلٹ کی ساری زندگی ہی اسی طرح کے مشکل کاموں سے پر تھی ۔ اس کے لیے وہ کام بھی مشکل تھے جو ہم بغیر کسی دقت کے کرتے ہیں۔ جب وہ ذرا بڑا ہوا تو اس نے ایک پرانی سائیکل خرید لی جس کے ذریعے وہ بہت سے کام کرتارہا۔ یہ سائیکل بھی عام سائکل سے ذرا اونچی تھی۔ اس کے فریم کو کئی جگہ سے ویلڈ بھی کیا گیا تھا۔ اس کے دونوں پہیے بھی ایک سیدھ میں نہیں تھے۔ جب چلتی تھی تو لگتا تھا کہ یہ ایک طرف مڑنے والی ہے۔پائلٹ کو اس سائیکل کو روکنے کے لیے بھی دقت کا سامنا تھا۔ جب بریک لگاتا تھا تو دونوں پاوں زمین پر نہیں اسکتے تھے۔ لہذا یاتو وہ کسی کھمبے کے ساتھ ہی اس کو روک سکتا تھا یا پھر پائلٹ کو سائیکل گرانی پڑتی تھی جس سے اکثرو وہ زخمی بھی ہوجاتا تھا۔ مگر ان سب مشکلات کے باوجود پائلٹ اپنا کام خود کرنا چاہتا تھا۔وہ بچپن سے ہی اپنے لیے کچھ کماتا ہی رہا۔ جب ہم میڑک کے امتحان کے بعد چھٹیوں میں ایک ایڈونچرس لائف گزار رہے تھے اور مختلف ہلے گلے میں مصروف تھے ۔ پائلٹ بھی کچھ اور کررہاتھا۔ اکثر پورے دن ہم کرکٹ کھیلتے تھے۔ا یک دن شام کے جھٹپٹے میں کرکٹ کھیلنے کے بعد میدان سے جارہے تھے کہ دیکھا کہ پائلٹ اپنی سائکل پر رواں ہے۔ آواز دے کر اسے بلایا اور سائیکل پکڑ کر اسے روکا تو دیکھا کہ سائیکل کے اسٹینڈ پر ایک تھیلہ بھی ہے۔ پوچھنے پر کہ یہ کیا ہے پائلٹ کچھ جھینپ گیا۔ ججھکتے ہوئے کہنے لگا یار آج کل دکانوں پر مصالحے سپلائی کرتا ہوں لال مرچ وغیرہ ۔ کچھ بچت ہوجاتی ہے۔
 
آخری تدوین:
پائلٹ کے بارے میں بہت کچھ لکھنا چاہ رہا تھا مگر ہر بار لکھنا چاہوں تو دل بھر اتا ہےا ورآنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ پائلٹ میرا دوست تھا میری زندگی کا ایک باب تھا ایک عہد تھا جو بیت گیا۔ اب کبھی واپس نہیں ائے گا۔ پائلٹ چلا گیا تو بچپن، لڑکپن، نوجوانی کا دور بھی چلاگیا۔ اب ہم کرفیو کےدوران پائلٹ کے گھر کیرم نہیں کھیلیں گے نہ ہی ساتھ فلمیں دیکھیں گے پائلٹ کہاں ہے تو یار چل دیکھ شب برات اتی ہے ہم ساتھ جاگیں گے۔ یار کیفے پیالہ میں رات تین بجے پراٹھ چائے کا ناشتہ کریں گے۔ یار ہم ماموں کباب چلیں گے۔ یار کہاں ہے تو دل کی بات کرنی ہے اب دکھے دل کا دکھڑا کس سے روئیں گے؟ پائلٹ یار تو چلاگیا ۔ منوں مٹی تلے ۔ یقین نہیں اتا۔ تیرے ساتھ یہ تیرا دوست بھی چلاگیا۔

دوستوں سے دلی گزارش ہے کہ براہ کرم پائلٹ کے لیے ایک مرتبہ سورہ فاتحہ اور قل شریف پڑھ کرایصال ثواب کردیں۔
 
تو کیا کہانی ختم ہو گئی یا کوئی نیا موڑ لے گی؟

یہ درآصل سچے واقعات کا بیان تھا مگر کل عمرہ کرتے ہوئے خیال ایا کہ اس طرح سے پائلٹ کی زندگی کے کچھ گوشے عیاں ہوتے ہیں جنھیں بیان کرنا پائلٹ کو پسند نہ ہو۔لہذا یہ سلسلہ یہیں ختم۔
پائلٹ کے ایصال ثواب اور دعا کی درخواست ہے
 
Top