ٹیلی پیتھی کیا ہے - از فیصل عظیم فیصل

میرے محترم بھائی " بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں " ٹیلی پیتھی " بارے ۔
آپ اک معمولی سی مشق کیجئے ۔ جب بھی فون کی گھنٹی بجے ۔ دروازے پہ دستک ہو ۔ فون اٹھانے سے پہلے اور دروازہ کھولنے سے پہلے اپنے خیال و وجدان کو پرواز دیتے یہ ادراک کرنے اور اندازہ لگانے کی کوشش کیجئے کہ فون کون کر رہا ہے ۔ اور آنے والے کا کیا مقصد ہے ۔۔ ؟
ناکامی پر گھبرائیے نہیں ۔ کچھ ہی دنوں بعد آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا اندازہ کسی حد تک درستگی کی جانب رواں ہے ۔
اپنے کسی ایسے عزیز کی آواز کو اپنے ذہن میں تازہ کیجئے ۔جو کہ آپ سے شدید محبت یا نفرت میں مبتلا ہو ۔ آواز کی مدد سے اس کے تصور کو اپنی بند آنکھوں کے سامنے مجسم کرنے کی کوشش کیجئے ۔ اور جب تصور مجسم ہونے لگے تو اپنے دل کی خواہش پورے یقین کے ساتھ اس کے ذہن تک پہنچانے کی کوشش کیجئے ۔ کچھ دنوں میں آپ اپنی خواہش کی ترسیل میں ہوئی کامیابی یا ناکامی بارے جان جائیں گے ۔
اگر تو آپ کو ان دو مشقوں میں کسی حد تک کامیابی ملتی ہے تو پھر کوئی بھی ٹیلی پیتھی بارے لکھی کتاب لے کر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ سیکھنے کی کوشش کیجئے ۔ اور محترم فیصل عظیم فیصل بھائی سے رابطہ کرتے انہیں اپنا رہنما بنا لیجئے ۔
دیوار پر دائرے بنا انہیں تکتے رہنا ۔
موم بتی جلا اس کی لو کو گھورتے رہنا ۔ ارتکاز میں مددگار ہو سکتے ہیں ۔ لیکن " خیال " کی پرواز پر اعتماد انسانی ذہن اور مضبوط قوت ارادی پر منحصر ہوتی ہے ۔
نایاب بھائی رہ نمائی کے قابل نہیں ہوں میں ہاں حتی الامکان معاونت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر یہ معاونت برائے حصول علم ہو ۔ کسب مفادات میں میری طرف سے معذرت
 
محترم روحانی بابا جی " عقل " نظر آتی تو اس کو ضرور پکڑا جا سکتا ۔ مگر اک تو عقل نظر نہیں آتی دوسرے میں ابھی " عقل " کے "ع "تک ہی نہ پہنچ پایا ۔ " ق ل " تو بہت دور کی بات ہے ۔ اور اپنا تو گزارا ہی " مشینی ملاقاتوں " پہ ہے ۔ ملاقات کرتا ہوں پیاس بڑھتی ہے آس لگتی ہے تو گنگناتا ہوں کہ " اب کہ سال پونم میں " ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
ویسے یہ " موبائل فونز " اور " نیٹ " کے سگنلز کیا ہیں ۔ یہ کیسے جنریٹ ہوتے ہیں ۔ کس فریکوئنسی پر سفر کرتے ہیں ۔ ہزاروں میل کی دور پہ اس " یار دل دار " تک پہنچ سماعتوں میں رنگ گھولتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
نایاب بھائی علم کے عین کا تو سنا تھا عقل کے عین کا پہلی بار سن رہے ہیں لیجئے ایک واقعہ سنیئے اور سر کو دھنئے۔
ایک مرتبہ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ عنفوان شباب میں گھوڑے پر سوار کہیں جارہے تھے کہ راستے میں شیخ صدر الدین قونوی چلے آرہے تھے جب قریب آئے تو اچانک انہوں نے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور کہا من این الی این و ماالحاصل فی البین یعنی کہاں سے آتے ہو اور کہاں جاؤگے تو درمیان میں کیا حاصل ہے تو شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے فی البدیہہ فرمایا من العلم الی العین للتحصیل الطرفین یعنی علم سے آتا ہوں اور عین تک جاتا ہوں تاکہ دونوں طرف حاصل ہوں۔
جہاں تک فریکیونسیوں اور سگنلز کا تعلق ہے تو اغیار اس پر قابو پاچکے ہیں اب انسانی اذہان کو مکمل طور پر اپنے اختیار میں لے لینا اور اپنی مرضی کا کام نکلوانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
 
میرے محترم بھائی " بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں " ٹیلی پیتھی " بارے ۔
آپ اک معمولی سی مشق کیجئے ۔ جب بھی فون کی گھنٹی بجے ۔ دروازے پہ دستک ہو ۔ فون اٹھانے سے پہلے اور دروازہ کھولنے سے پہلے اپنے خیال و وجدان کو پرواز دیتے یہ ادراک کرنے اور اندازہ لگانے کی کوشش کیجئے کہ فون کون کر رہا ہے ۔ اور آنے والے کا کیا مقصد ہے ۔۔ ؟
ناکامی پر گھبرائیے نہیں ۔ کچھ ہی دنوں بعد آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا اندازہ کسی حد تک درستگی کی جانب رواں ہے ۔
اپنے کسی ایسے عزیز کی آواز کو اپنے ذہن میں تازہ کیجئے ۔جو کہ آپ سے شدید محبت یا نفرت میں مبتلا ہو ۔ آواز کی مدد سے اس کے تصور کو اپنی بند آنکھوں کے سامنے مجسم کرنے کی کوشش کیجئے ۔ اور جب تصور مجسم ہونے لگے تو اپنے دل کی خواہش پورے یقین کے ساتھ اس کے ذہن تک پہنچانے کی کوشش کیجئے ۔ کچھ دنوں میں آپ اپنی خواہش کی ترسیل میں ہوئی کامیابی یا ناکامی بارے جان جائیں گے ۔
اگر تو آپ کو ان دو مشقوں میں کسی حد تک کامیابی ملتی ہے تو پھر کوئی بھی ٹیلی پیتھی بارے لکھی کتاب لے کر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ سیکھنے کی کوشش کیجئے ۔ اور محترم فیصل عظیم فیصل بھائی سے رابطہ کرتے انہیں اپنا رہنما بنا لیجئے ۔
دیوار پر دائرے بنا انہیں تکتے رہنا ۔
موم بتی جلا اس کی لو کو گھورتے رہنا ۔ ارتکاز میں مددگار ہو سکتے ہیں ۔ لیکن " خیال " کی پرواز پر اعتماد انسانی ذہن اور مضبوط قوت ارادی پر منحصر ہوتی ہے ۔
نایاب بھائی پکڑے گئے۔۔۔۔۔نایاب بھائی پکڑے گئے ۔۔۔۔
قارئین کرام اپنے نایاب بھائی سادات امروہہ میں سے ہیں اور ملک عزیز کے نامور شاعر اور ادیب اور روحانی علوم و فنون کے ماہر اعظم جناب رئیس امروہی کے بھتیجے ہوتے ہیں۔
محمود احمد غزنوی الف نظامی باباجی شاکرالقادری
 

تلمیذ

لائبریرین
نایاب بھائی پکڑے گئے۔۔۔ ۔۔نایاب بھائی پکڑے گئے ۔۔۔ ۔
قارئین کرام اپنے نایاب بھائی سادات امروہہ میں سے ہیں اور ملک عزیز کے نامور شاعر اور ادیب اور روحانی علوم و فنون کے ماہر اعظم جناب رئیس امروہی کے بھتیجے ہوتے ہیں۔
محمود احمد غزنوی الف نظامی باباجی شاکرالقادری

یہ تو زبردست معلومات دی ہیں سرکار۔ جبھی میں کہوں کہ حضرت کو ان علوم پر ید طولیٰ کیسے حاصل ہوا۔ یہ تو چھپے رستم نکلے۔ اب تو حد ادب لازمی ہو گئی صاحب۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی پکڑے گئے۔۔۔ ۔۔نایاب بھائی پکڑے گئے ۔۔۔ ۔
قارئین کرام اپنے نایاب بھائی سادات امروہہ میں سے ہیں اور ملک عزیز کے نامور شاعر اور ادیب اور روحانی علوم و فنون کے ماہر اعظم جناب رئیس امروہی کے بھتیجے ہوتے ہیں۔
محمود احمد غزنوی الف نظامی باباجی شاکرالقادری
یہ تو زبردست معلومات دی ہیں سرکار۔ جبھی میں کہوں کہ حضرت کو ان علوم پر ید طولیٰ کیسے حاصل ہوا۔ یہ تو چھپے رستم نکلے۔ اب تو حد ادب لازمی ہو گئی صاحب۔
محترم روحانی بابا جی
محترم جناب رئیس امروہوی مرحوم سے براہ راست " چچا بھتیجے " کا تعلق تو نہیں ۔ مگر سلسلہ نسب سے میرے بزرگوں میں ہیں ۔

محترم تلمیذ بھائی
کاش کہ میں اس " سلسلہ نسب " کے قابل ٹھہروں ۔ دعا کی درخواست ہے ۔
 
نایاب بھائی پکڑے گئے۔۔۔ ۔۔نایاب بھائی پکڑے گئے ۔۔۔ ۔
قارئین کرام اپنے نایاب بھائی سادات امروہہ میں سے ہیں اور ملک عزیز کے نامور شاعر اور ادیب اور روحانی علوم و فنون کے ماہر اعظم جناب رئیس امروہی کے بھتیجے ہوتے ہیں۔
محمود احمد غزنوی الف نظامی باباجی شاکرالقادری
حضرت بہت جلدی فرمادی جناب نے راز کھولنے میں ۔ اگر کچھ اور صبر ہوجاتا تو زیادہ بہتر تھا ۔ آپ کا احترام و محبت اپنی جگہ اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اگر برا لگے تو معذرت
 
محترم روحانی بابا جی
محترم جناب رئیس امروہوی مرحوم سے براہ راست " چچا بھتیجے " کا تعلق تو نہیں ۔ مگر سلسلہ نسب سے میرے بزرگوں میں ہیں ۔

محترم تلمیذ بھائی
کاش کہ میں اس " سلسلہ نسب " کے قابل ٹھہروں ۔ دعا کی درخواست ہے ۔
دعائیں آپ کے ساتھ تھیں ۔ ہیں اور انشاء اللہ رہیں گی ۔ اور آپ اپنی صلاحیات و معلومات کے ساتھ اپنی ذاتی حیثیت میں ہمارے لیئے وہی نایاب ہیں رہیں گے ۔ باقی کہیں نہ کہیں سے وہ رگیں تو پھڑکیں گی ہی اور وہ فیضان تو انشاء اللہ آپ کے ساتھ رہے گا ہی جو آپ کے اجداد کا خاصہ ہے ۔

وہ کیا کہتے ہیں ان کی جانب سے آنے والی ہوا بھی محترم ہے
 
یہ تو زبردست معلومات دی ہیں سرکار۔ جبھی میں کہوں کہ حضرت کو ان علوم پر ید طولیٰ کیسے حاصل ہوا۔ یہ تو چھپے رستم نکلے۔ اب تو حد ادب لازمی ہو گئی صاحب۔
اسی لیئے تو یہ کہتے ہیں خامشی بہتر
سوائے اس کے کوئی بات نہ کیا کیجئے

اب تو پتا چل گیا ہے ناں کچھ خیال رکھنا ؛-)
:angel:
 

نایاب

لائبریرین
اسی لیئے تو یہ کہتے ہیں خامشی بہتر
سوائے اس کے کوئی بات نہ کیا کیجئے

اب تو پتا چل گیا ہے ناں کچھ خیال رکھنا ؛-)
:angel:
سچ کہا محترم بھائی
یہ " پدرم سلطان بود " کا نشہ جب اپنی لپیٹ میں لیتا ہے تو " گرا " کر ہی چھوڑتا ہے ۔
یہ بھی سچ کہ " آگہی " بھی اک عذاب ہوتی ہے ۔
یہ بھی سچ کہ میں تو اک " ٹھگ " ہوں ۔
اور مجھ جیسوں بارے بابا بلھے شاہ سرکار کیا خوب فرما گئے ہیں ۔
" جہیڑا ساہنوں سید آکھے دوزخ ملن سزائیں "
 

باباجی

محفلین
سچ کہا محترم بھائی
یہ " پدرم سلطان بود " کا نشہ جب اپنی لپیٹ میں لیتا ہے تو " گرا " کر ہی چھوڑتا ہے ۔
یہ بھی سچ کہ " آگہی " بھی اک عذاب ہوتی ہے ۔
یہ بھی سچ کہ میں تو اک " ٹھگ " ہوں ۔
اور مجھ جیسوں بارے بابا بلھے شاہ سرکار کیا خوب فرما گئے ہیں ۔
" جہیڑا ساہنوں سید آکھے دوزخ ملن سزائیں "
شاہ جی " باپ پہ پُوت پِتا پہ گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا"
کتھے جاؤگے ساڈے کولوں بچ کے
جیہڑا جیدا حصہ اے او تے ونڈنا پئے گا :)
 
کچھ بابا جی اشفاق احمد صاحب کی زبانی​
ماں خدا کی نعمت ہے اور اس کے پیار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتا ہے۔ بچپن میں‌ایک بار بادو باراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہو گیا۔ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میری ماں‌نے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھا لیا، تو محسوس ہوا گویا میں امان میں ‌آگیا ہوں۔​
میں‌ نے کہا، اماں! اتنی بارش کیوں‌ہو رہی ہے؟‌ اس نے کہا، بیٹا! پودے پیاسے ہیں۔ اللہ نے انہیں پانی پلانا ہے اور اسی بندوبست کے تحت بارش ہو رہی ہے۔ میں‌ نے کہا، ٹھیک ہے! پانی تو پلانا ہے، لیکن یہ بجلی کیوں بار بار چمکتی ہے؟ یہ اتنا کیوں‌کڑکتی ہے؟ وہ کہنے لگیں، روشنی کر کے پودوں کو پانی پلایا جائے گا۔ اندھیرے میں تو کسی کے منہ میں، تو کسی کے ناک میں‌ پانی چلا جائے گا۔ اس لئے بجلی کی کڑک چمک ضروری ہے۔​
میں ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر سو گیا۔ پھر مجھے پتا نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی، یا نہیں۔ یہ ایک بالکل چھوٹا سا واقعہ ہے اور اس کے اندر پوری دنیا پوشیدہ ہے۔ یہ ماں‌کا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کے لئے، جو خوفزدہ ہو گیا تھا۔ اسے خوف سے بچانے کے لئے، پودوں کو پانی پلانے کے مثال دیتی ہے۔ یہ اس کی ایک اپروچ تھی۔ گو وہ کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھیں۔ دولت مند، بہت عالم فاضل کچھ بھی ایسا نہیں تھا، لیکن وہ ایک ماں تھی۔ میں جب نو سال کا ہوا تو میرے دل میں ایک عجیب خیال پیدا ہوا کہ سرکس میں بھرتی ہو جاؤں اور کھیل پیش کروں، کیونکہ ہمارے قصبے میں ایک بہت بڑا میلہ لگتا تھا۔ تیرہ، چودہ، پندرہ جنوری کو اور اس میں بڑے بڑے سرکس والے آتے تھے۔ مجھے وہ سرکس دیکھنے کا موقع ملا، جس سے میں بہت متأثر ہوا۔ جب میں نے اپنے گھر میں اپنی یہ خواہش ظاہر کی کہ میں سرکس میں‌اپنے کمالات دکھاؤں گا، تو میری نانی “پھا“ کر کے ہنسی اور کہنے لگیں، ذرا شکل تو دیکھو! یہ سرکس میں‌ کام کرے گا۔ میری ماں‌ نے بھی کہا، دفع کر تو بڑا ہو کر ڈپٹی کمشنر بنے گا۔ تو نے سرکس میں‌بھرتی ہو کر کیا کرنا ہے۔ اس پر میرا دل بڑا بجھ سا گیا۔ وہی ماں‌جس نے مجھے اتنی محبت سے اس بادوباراں کے طوفان میں امان اور آسائش عطا کی تھی۔ وہ میری خواہش کی مخالفت کر رہی تھی۔​
میرے والد سن رہے تھے۔ انہوں‌نے کہا کہ نہیں، کیوں نہیں؟ اگر اس کی صلاحیت ہے تو اسے بالکل سرکس میں ہونا چاہئے۔ تب میں بہت خوش ہوا۔ اب ایک میری ماں‌کی مہربانی تھی۔ ایک والد کی اپنی طرف کی مہربانی۔ انہوں‌نے صرف مجھے اجازت ہی نہیں دی، بلکہ ایک ڈرم جو ہوتا ہے تارکول والا، اس کو لال، نیلا اور پیلا پینٹ کر کے بھی لے آئے اور کہنے لگے، اس پر چڑھ کر آپ ڈرم کو آگے پیچھے رول کیا کریں۔ اس پر آپ کھیل کریں گے تو سرکس کے جانباز کھلاڑی بن سکیں گے۔ میں نے کہا منظور ہے۔​
چنانچہ میں اس ڈرم پر پریکٹس کرتا رہا۔ میں نے اس پر اس قدر اور اچھی پریکٹس کی کہ میں اس ڈرم کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق کہیں بھی لے جا سکتا تھا۔ گول چکر کاٹ سکتا تھا۔ بغیر پیچھے دیکھے ہوئے، آگے پیچھے آجا سکتا تھا۔ پھر میں نے اس ڈرم پر چڑھ کر ہاتھ میں تین گیندیں اچھالنے کی پریکٹس کی۔ وہاں میرا ایک دوست تھا۔ ترکھانوں کا لڑکا محمد رمضان۔ اس کو بھی میں نے پریکٹس میں شامل کر لیا۔ وہ اچھے چھریرے بدن کا تھا۔ وہ مجھے سے بھی بہتر کام کرنے لگا۔ بجائے گیندوں کے وہ تین چھریاں لے کر ہوا میں اچھال سکتا تھا۔ ہم دونوں‌ڈرم پر چڑھ کر اپنا یہ سرکس لگاتے۔ ایک ہماری بکری تھی، اس کو بھی میں‌نے ٹرینڈ کیا۔ وہ بکری بھی ڈرم پر آسانی سے چڑھ جاتی۔​
ہماری ایک “بُشی“ نامی کتا تھا، وہ لمبے بالوں والا روسی نسل کا تھا۔ اس کو ہم نے کافی سکھایا، لیکن وہ نہ سیکھ سکا۔ وہ یہ کام ٹھیک سے نہیں کر سکتا تھا۔ حالانکہ کتا کافی ذہین ہوتا ہے۔ وہ بھونکتا ہوا ہمارے ڈرم کے ساتھ ساتھ بھاگتا تھا، مگر اوپر چڑھنے سے ڈرتا تھا۔ ہم نے اعلان کر دیا کہ یہ کتا ہماری سرکس ہی کا ایک حصہ ہے، لیکن یہ جوکر کتا ہے اور یہ کوئی کھیل نہیں کرسکتا، صرف جوکر کا کردار ادا کر سکتا ہے۔​
خیر! ہم یہ کھیل دکھاتے رہے۔ ہم اپنا شو کرتے تومیرے ابا جی ہمیشہ ایک روپیہ والا ٹکٹ لے کر کرسی ڈال کر ہماری سرکس دیکھنے بیٹھ جاتے تھے۔ ہمارا ایک ہی تماشائی ہوتا تھا اُور کوئی بھی دیکھنے نہیں آتا تھا۔ صرف ابا جی ہی آتے تھے۔ ہم انہیں کہتے کہ آج جمعرات ہے۔ آپ سرکس دیکھنے آئیے گا۔ وہ کہتے، میں‌ آؤں گا۔ وہ ہم سے ایک روپے کا ٹکٹ بھی لیتے تھے، جو ان کی شفقت کا ایک انداز تھا۔​
زندگی میں کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے اور آپ اس بات کو مائنڈ نہ کیجئے گا۔ اگر آپ کو روحانیت کی طرف جانے کا بہت شوق ہے تو اس بات کو برا نہ سمجھئے گا کہ بعض اوقات ماں‌باپ کے اثرات اس طرح سے اولاد میں منتقل نہیں ہوتے، جس طرح سے انسان آرزو کرتا ہے۔اس پر کسی کا زور بھی نہیں ہوتا۔ ٹھیک چوالیس برس بعد جب میرا پوتا جو بڑا اچھا، بڑا ذہین لڑکا اور خیر و شر کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے، وہ جاگنگ کر کے گھر میں واپس آتا ہے، تو اس کے جوگر، جو کیچڑ میں‌ لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ ان کے ساتھ اندر گھس آتا ہے اور وہ ویسے ہی خراب جوگروں کے ساتھ چائے بھی پیتا ہے اور سارا قالین کیچڑ سے بھر دیتا ہے۔ میں اب آپ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے لگا ہوں کہ میں اسے برداشت نہیں کرتا کہ وہ خراب، کیچڑ سے بھرے جوگرز کے ساتھ قالین پر چڑھے۔ میرا باپ جس نے مجھے ڈرم لا کر دیا تھا، میں اسی کا بیٹا ہوں اور اب میں پوتے کی اس حرکت کو برداشت نہیں کرتا۔ دیکھئے یہاں‌کیا تضاد پیدا ہوا ہے۔ میں نے اپنے پوتے کو شدت کے ساتھ ڈانٹا اور جھڑکا کہ تم پڑھے لکھے لڑکے ہو، تمھیں شرم آنی چاہئے کہ یہ قالین ہے، برآمدہ ہے اور تم اسے کیچڑ سے بھر دیتے ہوں۔​
اس نے کہا، دادا آئی ایم ویری سوری!! میں جلدی میں ہوتا ہوں، جوگر اتارنے مشکل ہوتے ہیں۔ امی مجھے بلا رہی ہوتی ہیں کہ have a cup of tea، تو میں جلدی میں‌ایسے ہی اندر آجاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے۔ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو، چنانچہ میں‌اس پر کمنٹس کرتا رہا۔ ٹھیک ہے مجھے ایک لحاظ سے حق تو تھا، لیکن جب یہ واقعہ گزر گیا تو میں‌نے ایک چھوٹے سے عام سے رسالے میں‌اقوالٍ زریں وغیرہ میں ایک قول پڑھا کہ“ جو شخص ہمیشہ نکتہ چینی کے موڈ میں‌رہتا ہے اور دوسروں کے نقص نکالتا رہتا ہے، وہ اپنے آپ میں تبدیلی کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔“ انسان کو خود یہ سوچنا چاہئے کہ جی مجھ میں‌فلاں تبدیلی آنی چاہئے۔ جی میں‌سیگرٹ پیتا ہوں، اسے چھوڑنا چاہتا ہوں، یا میں صبح نہیں اٹھ سکتا۔ میں‌اپنے آپ کو اس حوالے سے تبدیل کر لوں۔ ایک نکتہ چیں میں‌کبھی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس کی ذات کی جو بیٹری ہے، وہ کمزور ہونے لگتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بیڑی کے سیل کمزور ہو جائیں، تو ایک بیٹری کا بلب ذرا سا جلتا ہے، پھر بجھ جاتا ہے۔ اسی طرح کی کیفیت ایک نکتہ چیں‌کی ہوتی ہے۔​
میں‌نے وہ قول پڑھنے کے بعد محسوس کیا کہ میری نکتہ چینی اس لڑکے پر ویسی نہیں‌ہے، جیسا کہ میرے باپ کی ہو سکتی تھی۔ میرے باپ نے سرکس سیکھنے کی بات پر مجھے نہیں‌کہا کہ عقل کی بات کر، تو کیا کہ رہا ہے؟‌اس نے مجھے یہ کہنے کی بجائے ڈرم لا کر دیا اور میری ماں‌نے مجھے بادوباراں‌کے طوفان میں‌یہ نہیں‌کہا کہ چپ کر، ڈرنے کی کیا بات ہے؟ اور میں اس میں‌کمنٹری کر کے نقص نکال رہا ہوں۔ ابھی میں اس کا کوئی ازالہ نہیں‌کر سکا تھا کہ اگلے دن میں‌نے دیکھا میرے پوتےکی ماں (میری بہو) بازار سے تار سے بنا ہوا میٹ لے آئی اور اس کے ساتھ ناریل کے بالوں والا ڈور میٹ بھی لائی، تاکہ اس کے ساتھ پیر گٍھس کے جائے اور اندر کیچڑ نہ جانے پائے۔ سو، یہ فرق تھا مجھ میں اور اس ماں‌میں۔ میں‌نکتہ چینی کرتا رہا اور اس نے حل تلاش کر لیا۔​
جب آپ زندگی میں داخل ہوتے ہیں اور باطن کے سفر کی آرزو کرتے ہیں، تو جب تک آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال نہ کریں گے اور بڑے میدان تک پہنچنے کے لئے پگڈنڈی نہ تیار کریں گے، وہاں‌نہیں جا سکیں‌گے۔ آپ ہمیشہ کسی “بابے“ کی بابت پوچھتے رہتے ہیں۔ ہمارے باباجی سے فیصل آباد سے آنے والے صاحب نے بھی یہی پوچھا اور کہنے لگے کہ سائیں صاحب! آپ کو تو ماشاء اللہ خداوند تعالٰی نے بڑا درجہ دیا ہے۔ آپ ہم کو کسی “قطب“ کے بارے میں‌بتلا دیں۔ باباجی نے ان کی یہ بات نظر انداز کر دی۔ وہ صاحب پھر کسی قطب وقت کے بارے دریافت کرنے لگے۔ جب انہوں نے تیسری بار یہی پوچھا تو بابا جی نے اس سے کہا کہ کیا تم نے اسے قتل کرنا ہے؟​
آدمی کا شاید اس سے یہی مطلب یا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی بابا ملے اور میں اس کی غلطیاں‌ نکالوں۔اگر روح‌کی دنیا کو ٹٹولنے کا کوئی ایسا ارادہ ہو یا اس دنیا میں‌کوئی اونچی پکار کرنے کی خواہش ہو کہ “میں ‌آگیا“ تو اس کے لئے ایک راستہ متعین ہونا چاہئے، تیاری ہونی چاہئے۔ تبھی انسان وہاں تک جا سکتا ہے۔ ہم ڈائریکٹ کبھی وہاں‌نہیں جا سکتے۔آپ کو اس دنیا کے اندر کوئی پیرا شوٹ لے کر نہیں جائے گا۔ جب یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں‌ رونما ہونگی، تو جا کر کہیں بات بنے گی۔​
میرے بھائی نے ایک بار مجھ سے کہا کہ اگر آپ نے کچھ لکھنے لکھانے کا کام کرنا ہے تو میرے پاس آکر مہینے دو گزار لیں (ان کا رینالہ خورد میں ایک مرغی خانہ ہے)۔ میں‌وہاں‌گیا، بچے بھی ساتھ تھے۔ وہاں جا کر تو میری جان بڑی اذیت میں پھنس گئی۔ وہ اچھی سر سبز جگہ تھی۔ نہر کا کنارہ تھا، لیکن وہ جگہ میرے لئے زیادہ Comfortable ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ آسائشیں‌میسر نہیں تھیں۔ ایک تو وہاں‌مکھیاں‌بہت تھیں، دوسرے مرغی خانے کے قریب ہی ایک اصطبل تھا، وہاں‌سے گھوڑوں‌کی بو آتی تھی۔ تیسرا وہاں‌ پر مشکل یہ تھی کہ وہاں ایک چھوٹا فریج تھا، اس میں ضرورت کی تمام چیزیں نہیں رکھی جا سکتی تھیں اور بار بار بازار جانا پڑتا تھا۔یہ مجھے سخت ناگوار گزرتا تھا۔​
اب دیکھئے خدا کی کیسے مہربانی ہوتی ہے۔ وہی مہربانی جس کا میں آپ سے اکثر ذکر کرتا ہوں۔ میں اصطبل میں‌یہ دیکھنے کے لئے گیا کہ اس کی بو کو روکنے کے لئے کسی دروازے کا بندوبست کیا جا سکے۔ وہاں‌جا کر کیا دیکھتا ہوں کہ میرے تینوں بچے گھوڑوں‌کو دیکھنے کے لئے اصطبل کے دروازوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ صبح‌جاگتے تھے تو سب سے پہلے آکر گھوڑوں کو دیکھتے۔ انہیں گھوڑوں کے ساتھ اتنا عشق ہو گیا تھا۔ ان میں ایک گھوڑا ایسا تھا جو بڑا اچھا تھا۔ وہ انہیں ہمیشہ ہنہنا کر ہنساتا تھا اور اگر وہ “ٹینے مینے“ بچے وقت پر نہیں پہنچتے تھے، تو شاید انہیں بلاتا تھا، اس گھوڑے کی ہنہناہٹ سے یہ اندازہ ہوتا تھا۔ اب میں نے کہا کہ نہیں، یہ خوشبو یا بدبو، یہ اصطبل اور گھوڑے اور ان بچوں کی دوستی مجھے وارے میں ہے اور اب مجھے یہ گھوڑے پیارے ہیں۔ بس ایسے ٹھیک ہے۔​
ہم شہر کے صفائی پسند لوگ جو مکھی کو گوارا نہیں کرتے۔ ایک بار میرے دفتر میں میرے بابا جی(سائیں جی) تشریف لائے، تو اس وقت میرے ہاتھ میں‌مکھیاں مارنے والا فلیپ تھا۔ مجھے اس وقت مکھی بہت تنگ کر رہی تھی۔ میں‌مکھی مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس لئے مجھے بابا جی کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اچانک ان کی آواز سنائی دی۔ وہ کہنے لگے، یہ اللہ نے آپ کے ذوقٍ کشتن کے لئے پیدا کی ہے۔ میں‌نے کہا، جی یہ مکھی گند پھیلاتی ہے، اس لئے مار رہا تھا۔ کہنے لگے، یہ انسان کی سب سے بڑی محسن ہے اور تم اسے مار رہے ہو۔ میں نے کہا، جی یہ مکھی کیسے محسن ہے؟ کہنے لگے، یہ بغیر کوئی کرایہ لئے، بغیر کوئی ٹیکس لئے انسان کو یہ بتانے آتی ہے کہ یہاں‌گند ہے۔ اس کو صاف کر لو تو میں چلی جاؤں گی اور آپ اسے مار رہے ہیں۔ آپ پہلے جگہ کی صفائی کر کے دیکھیں، یہ خود بخود چلی جائے گی۔ سو، وہاں باباجی کی کہی ہوئی وہ بات میرے ذہن میں‌لوٹ کر آئی اور میں‌نے سوچا کہ مجھے اس کمرے میں‌کوئی فریش چیزیں پھول یا سپرے وغیرہ رکھنی چاہیں اور یہاں‌کی صفائی پر دھیان دینا چاہئے۔ وہ فرش جیسا بھی تھا، اس کو گیلا کر کے میں نے جھاڑو لے کر خود خوب اچھی طرح سے صاف کیا۔ آپ یقین کریں پھر مجھے مکھیوں نے تنگ نہیں کیا۔​
جب میں سودا لینے کے لئے(جس سے میں بہت گھبراتا ہوں‌) ایک میل کے فاصلے پر گیا، تو میں نے وہاں اپنے بچپن کے کئی سال گزارنے کے بعد لبساطیوں کی دکانیں‌دیکھیں، جو ہمارے بڑے شہروں‌ میں ‌نہیں ہوتیں۔ وہاں‌ پر میں‌نے بڑی دیر بعد دھونکنی کے ساتھ برتن قلعی کرنے والا بندہ دیکھا، پھر عجیب بات، جس سے آپ سارے لوگ محروم ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ وہاں ایک کسان کا لڑکا دیکھا، جو گندم کے باریک “ناڑ“ جو تقریباً چھ انچ لمبا تھا، اسے کاٹ کر اس کے ساتھ “الغوزہ“ بجاتا تھا۔ وہ اتنا خوبصورت الغوزہ بجاتا تھا کہ اگر آپ اسے سننے لگیں، تو آپ بڑے بڑے استادوں کو بھول جائیں۔ پھر میں‌آرزو کرنے لگا کہ مجھے ہر شام بازار جانے کا موقع ملے۔ یہ چیزیں‌چھوٹی چھوٹی ہیں اور یہ بظاہر معمولی لگتی ہیں، لیکن ان کی اہمیت اپنی جگہ بہت زیادہ ہے۔​
اگر آپ معمولی باتوں کی طرف دھیان دیں گے، اگر آپ اپنی “کنکری“ کو بہت دور تک جھیل میں پھینکیں گے تو بہت بڑا دائرہ پیدا ہوگا، لیکن آپ کی یہ آرزو ہے کہ آپ کو بنا بنایا دائرہ کہیں‌سے مل جائے اور وہ آپ کی زندگی میں داخل ہو جائے، ایسا ہوتا نہیں ہے۔ قدرت کا ایک قانون ہے کہ جب تک آپ چھوٹی چیزوں ‌پر، معمولی سی باتوں ‌پر، جو آپ کی توجہ میں کبھی نہیں آئیں، اپنے بچے پر اور اپنی بھتیجی پر، آپ جب تک اس کی چھوٹی سی بات کو دیکھ کر خوش نہیں‌ہوں‌گے، تو آپ کو دنیا کی کوئی چیز یا دولت خوشی عطا نہیں‌کر سکے گی، کیونکہ روپیہ آپ کو‌خوشی عطا نہیں کر سکتا۔ روپے پیسے سے آپ کوئی کیمرہ خرید لیں، خواتین کپڑے خرید لیں اور وہ یہ چیزیں خریدتی چلی جاتی ہیں کہ یہ ہمیں خوشی عطا کریں گی۔ لیکن جب وہ چیز گھر میں آجاتی ہے تو اس کی قدر و قیمت گھٹنا شروع ہو جاتی ہے۔​
خوشی تو ایسی چڑیا ہے جو آپ کی کوشش کے بغیر آپ کے دامن پر اتر آتی ہے۔ اس کے لئے آپ نے کوشش بھی نہیں‌کی ہوتی، تیار بھی نہیں‌ہوئے ہوتے، لیکن وہ آجاتی ہے۔ گویا اس رُخ ‌پر جانے کے لئے جس کی آپ آرزو رکھتے ہیں، جو کہ بہت اچھی آرزو ہے، کیونکہ روحانیت کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوتا، مگر جب تک اسے تلاش نہیں کرے گا، جب تک وہ راستہ یا پگڈنڈی اختیار نہیں‌کرے گا، اس وقت تک اسے اپنے مکمل ہونے کا حق نہیں ‌پہنچتا۔ انسان یہ کوشش کرتا ضرور ہے، لیکن اس کی Methodology مختلف ہوتی ہے۔ وہ چھوٹی چیزوں سے بڑی کی طرف نہیں جاتا۔ آپ جب ایک بار یہ فن سیکھ جائیں گے، پھر آپ کو کسی بابے کا ایڈریس لینے کی ضرورت نہیں‌ پڑے گی۔ پھر وہ چھوٹی چیز آپ کے اندر بڑا بابا بن کر سامنے آجائے گی اور آپ سے ہاتھ ملا کر آپ کی گائیڈ بن جائے گی اور آپ کو اس منزل پر یقیناً لے جائے گی، جہاں‌جانے کے آپ آرزومند ہیں۔​
سو، ایک بار کبھی چھوٹی چیز سے آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ کبھی کسی نالائق پڑوسی سے خوش ہونے کی کوشش کر کے ہی یا کسی بے وقوف آدمی سے خوش ہو کر یا کبھی اخبار میں‌خوفناک خبر پڑھ کر دعا مانگیں کہ یا اللہ! تو ایسی خبریں کم کر دے، تو آپ کا راستہ، آپ کا پھاٹک کھلنا شروع ہوگا اور مجھے آپ کے چہروں سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ یہ کوشش ضرور کریں گے۔​
اللہ آپ کو بہت خوش رکھے۔ بہت آسانیاں ‌عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین!!​
زاویہ دوم، باب پنجم
سوچیں تو ہمارے موضوع سے وابستہ اس باب میں بہت کچھ ہے ۔​
 

باباجی

محفلین
بابا جی کے لکھے گئے اس باب میں بہت ساری چیزیں اختصار کے ساتھ ہمیں بتائی گئی ہیں
جن میں ایک ہی بات مشترک ہے وہ ہے ذہنی ہم آہنگی
ماں کے ساتھ
باپ کے ساتھ
بابا جی کے ساتھ
جانور کے ساتھ

جیسے کے ڈرم والی مشق کو ہی لے لیں کہ ایک بکری تو سیکھ گئی لیکن کُتا نہیں سیکھ سکا
وجہ ہے ذہنی ہم آہنگی
اب وہ چاہے کسی کے ساتھ ہو ، کسی بھی جانور کے ساتھ ہو
اسی طرح بہت سے اساتذہ مدرسے کے بچوں کو تو تہذیب و تدریس سکھا دیتے ہیں لیکن ان کی اپنی اولاد بعض اوقات کچھ نہیں سیکھ پاتی
اس میں والد کا کوئی قصور نہیں وجہ ہم آہنگی کا فقدان ہے
 

زبیر حسین

محفلین
چلو پھر زندگی بھائی کے اس بیان کی روشنی میں کہ ٹیلی پیتھی کا تعلق روح سے "ہرگز نہیں ہے" صرف ایک سوال کا جواب مطلوب ہے ۔

1۔ روح کا وجود ثابت کریں سائنسی دلائل کی روشنی میں
2۔ مادی طور پر سوچ کا وجود ثابت کریں مادے کی تعریف کے سائے کی روشنی میں

شکرگزار
سوال پہ سوال۔۔۔
فیصل بھائی ،روح کا وجود سائنسی دلائل کی روشنی میں کیا کوئی ثابت کر پایا ہے۔۔؟
اور اگر ٹیلی پیتھی کا تعلق روح سے ہے اور یہ روحانی علم ہے تو کیا ٹیلی پیتھی کا ماہر روح کے جسم سے آزاد ہو جانے کے بعد اس سے رابطہ کر سکتا ہے؟
 
پہلے سوال کا جواب آپ کو تلاشنا ہے ۔ دوسرے کا جواب میں دے دیتا ہوں ۔

جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو وہ ایک ایسے دور میں ہوتا ہے جس کا رزق ۔ تفکرات ۔ لطف و آرام شاید فی الحال ہم بیان کر نہ پائیں کیونکہ وہ اس دنیا میں ہو کر بھی ابھی اس سلسلہ روابط کا حصہ نہیں بن پایا جس کے ذریعے آپ اور ہم ربط و ضبط کے اس عالمی نظام کا حصہ ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہم ایک دنیا کا حصہ ہیں ہماری ارواح بھی ایک عالم کا حصہ ہیں جنہیں عالم ارواح کہا جاتا ہے ۔ اور جب ہمارا تعلق اس دنیا سے کٹ جاتا ہے تو سوائے چند معدودہ ارواح تمام ارواح کو ایسی دنیا میں بھیج دیا جاتا ہے (یا لنک کر دیا جاتا ہے) جہاں ہماری سوچ و تصور کا پہنچنا عمومی نظریہ سے ممکن نہیں ۔ اب سوچ کی پرواز کے لیئے آپ کا اس سوچ سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے اور عملیہ نزاع کے دوران روح کو دو میں سے ایک صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے
1) شدید تکلیف
2) انتہائی راحت
ہر دو حالات اس روح کی سوچ کی فریکوئنسی کو شدت سے متاثر کرتی ہیں اس کے نتیجے میں جو نئی فریکوئنسی بنتی ہے بہت ہی کم ایسے لوگ ہیں جو اس فریکوئنسی تک پہنچ سکتے ہیں ۔
المختصر موت کے بعد کسی روح سے رابطہ ممکن ہے۔ مگر اس کے لیئے بھی اگرچہ مگرچہ چونچہ چنانچہ کی قیود ہیں
 
Top