ٹھنڈے لب

تفسیر

محفلین
.
ٹھنڈے لب
ایک مختصر افسانہ
سید تفسیر احمد

میں اسٹار بک کافی ہاؤس میں داخل ہوا اور بیٹھنے کے لیے ہرطرف نظردوڑائ لیکن کوئ سیٹ خالی نہیں تھی۔ میں آرڈر کرنے والی لائن میں کھڑا ہوگیا- لنچ کا وقت تھا، میں نے سوچا جب تک میں کھڑکی تک پہنچوں گا کوئ نہ کوئ سیٹ خالی ہوجائے گی۔ کافی لینے کے بعد میں نےایک دفعہ پھر سے جگہ تلاش کرنے کے لیے ہرطرف نظردوڑائ لیکن کوئ سیٹ خالی نہیں تھی۔ میں کاؤنٹر پرٹیک لگا کرکھڑا ہوگیا۔ ہرطرح کے لوگ آ جا رہے تھے۔ قریب کی یونیورسٹی سے طالب علم ، آفس ورکرآس پاس کی بلڈنگوں سےاور وہ لوگ جو کہ خریداری سےوقفہ لے رہے تھے۔

وہ اکیلی گلاس کی دیوار کے نزدیک ایک کرسی پر بیٹھی تھی اس کیاس کی میز پر ایک خالی کافی کا کپ تھا اور اس کی نگاہ میز پر رکھے ہوئے پرچے پرتھی۔ بالو ں کی ایک لٹ اس کے گالوں کوچھو رہی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کوگالوں پر ڈھلکتےدیکھا۔ آنسوگالوں سے پھسل کر کاغذ کے پرچے پرگرے۔ میں نےاندازہ لگانے کی کوشش کی اس کاغذ پر کیا لکھا ہوسکتا ہے جو کہ ایک حسین لڑکی کوسرے عام رلا دے۔ شاید اُس سے، اُس کے محبوب نے ملنے کا وعدہ کیا تھا لیکن نہیں آیا یا خط گھرسے آیا ہو اور والدین نے اس کی شادی کسی اور سے کرنے کا وعدہ کرلیا ہو یا وہ اس کی پڑھائ کے پیسے نہیں بھیج سکتے۔

میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا اور میری نظریں اس پرتھیں کہ اس نے اپنی نظریں اوپر اٹھائیں۔ ہماری نظریں ایک مختصر سے لمحہ کے لیے ملیں اوراس نے اپنی آنکھوں کو پھرسے جھکا لیا۔ یہ آنکھیں کتنی اُداس ہیں ، میں نےان کا درد اپنےدل میں محسوس کیا۔ اس نےخط کو پھر سے پڑھا اوراس کےگالوں پر آنسؤں کی ایک لکیر سی بن گئ۔

اچانک وہ کھڑی ہوگئ اورتیزی سے دروازے کی طرف چلی گئی۔اس نے دروزا ہ کھولا اور فٹ پاتھ پر اترگئ۔ میں نےاس بھیڑ میں اس پر نگاہ رکھنے کی کوشش کی۔ وہ ٹریفک سِگنل کے پاس رکی، ایک لمحہ وہ فٹ پاتھ پہ تھی اور دوسرے لمحے سڑک پر۔ میں نے کار کے بریکوں کی آواز سنی۔ کپ رکھ کرمیں باہردوڑا۔ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے۔ میں نے بڑی مشکل سے راستہ بنایا۔ وہ خون میں لت پت تھی۔

کیا کسی نے ایمبولِنس کے لیے کال کیا؟ میں چلایا۔

“ ہاں“ ۔ کسی نے کہا۔

میں نے اس کےقریب بیٹھ کر اس کی نبض تلاش کرنے کی کوشش کی۔ نبض نہیں تھی۔ میں نےاس کےسینے پر کان رکھ کراس کے دل کی دھڑکن کو سننے کی کوشش کی۔ دل بہت آہستگی سے دھڑک رہا تھا - اس نے ایک ہچکی لی اور اُس کا دل خاموش ہوگیا۔

کوئ چلایا۔ " اس کو سی پی آر دو"۔ میں نے اس کی ناک کو بند کرکےاس کے منہ سے منہ ملادیا اور اس کو لمبی لمبی سانسیں دینے لگا۔ پھر اس کے سینہ پر پندرہ دفعہ دباؤ ڈالا۔ میں نے پھر سےاس کےدل کی آواز کو سننا چاہا ۔ خاموشی بالکل خاموشی۔ میں نے پھر سے اس کو اپناسانس دینے کی کوشش کی مگراس کے لب سرد ہو چکے تھے۔ سڑک پر مکمل خاموشی چھاگئ۔

دھیرے سے میں نے کاغذ کے پرچے کو اس کے ہاتھ سے جدا کیا۔ اس پر لکھا تھا۔

میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ تمہیں جب یہ خط ملے گا میں اس دنیا کو چھوڑ چکا ہوں گا۔

ایک مدہم آواز اس کے پرس میں رکھے ہوئے سیل فون سے آرہی تھی۔

میں نے فون میں کہا ۔ “جی“۔

" کیا ناز وہاں ہیں مجھے ان کو بہت ضروری پیغام دینا ہے"۔

“ تم کون ہو"؟ میں نے پوچھا۔

" میں اس کا بھائی ہوں۔ ناز سے کہنا کہ جمیل زندہ ہے“۔

میرے ہاتھ سے سیل فون گرگیا۔

.
 

زیک

مسافر
تفسیر: محفل پر خوش‌آمدید۔

کیا ہی اچھا ہو اگر آپ اس کہانی کو ٹیکسٹ فارمیٹ میں لکھیں بجائے تصویری فارمیٹ کے۔
 

ماوراء

محفلین
بہت خوب تفسیر صاحب۔۔!!
اور آپ نے بات بھی مان لی زکریا کی۔ اس کا بھی شکریہ زکریا ہی آ کر کریں گے۔ :p
 

تفسیر

محفلین
ماوراء نے کہا:
بہت خوب تفسیر صاحب۔۔!!
اور آپ نے بات بھی مان لی زکریا کی۔ اس کا بھی شکریہ زکریا ہی آ کر کریں گے۔ :p

ارے میں تو بھول گیا تھا تمہارا شکریہ ا دا کرنا۔ مارواء بہن تمہارا بہت بہت شکریہ کہ تم نے مجھے اپنے گھر ویب اردو میں دعوت دی۔ دیکھو بہن میں تمہاری بھی بات مان لی۔
اچھا یہ بتلاؤ کیا تم اچھی چائے بنا تی ہو؟ اور کب مجھے چائے ہر بلا رہی ہو؟
 

ماوراء

محفلین
ارے نہیں تفسیر بھائی، شکریہ تو مجھے آپ کا کرنا چاہیے کہ آپ نے میری بات مان لی ہے۔ بہت شکریہ!!

اور رہی چائے کی بات تو۔۔۔۔میری بنی ہوئی چائے کی کیا کھانوں کی دھوم ہر کونے میں ہے۔ :p lol آپ جب آنا چاہیں آ سکتے ہیں۔۔ :p
 

رضوان

محفلین
بہت عمدہ تفسیر صاحب
اور صد تحسین ماوراء کے لیے جنہوں نے تفسیر صاحب کو مدعو کیا۔
 
Top