ٹيکس کی بنياد اور مفروضات

جاسم محمد

محفلین
ٹيکس کی بنياد اور مفروضات
یہ بیانیہ کہ ہماری انکم ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے اور آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ آمدن پر ٹیکس ادا کرتا ہے، مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پچانوے ملین سے زیادہ پاکستانی تو وہ ہيں جو صرف موبائل کے ساتھ 12.5 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرتے ہيں اور اس کے علاوہ لاتعداد لوگ ایڈجسٹ ایبل یا نان ایڈجسٹ ایبل ودہولڈنگ ٹیکسز کے دائرے میں ہیں۔
DR.-IKRAM-NEW-150x150.jpg
Dr. Ikramul Haq
January 24, 2020
ڈاکٹر اکرام الحق

یہ بیانیہ کہ ہماری انکم ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے اور آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ آمدن پر ٹیکس ادا کرتا ہے، مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پچانوے ملین سے زیادہ پاکستانی تو وہ ہيں جو صرف موبائل کے ساتھ 12.5 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرتے ہيں اور اس کے علاوہ لاتعداد لوگ ایڈجسٹ ایبل یا نان ایڈجسٹ ایبل ودہولڈنگ ٹیکسز کے دائرے میں ہیں۔ یہ ٹیکسز بلاتفریق قابلِ آمدن اور ناقابلِ آمدن آبادی پر لاگو ہوتا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کا ودہولڈنگ ٹیکسز کا نظام سب موبائل استعمال کرنے والوں کو دائرے میں لاتے ہوئے اُن افراد سے بھی جبری انکم ٹیکس وصول کرتا ہے جن کی آمدنی قابلِ ٹیکس حد سے بھی کم ہے۔ ایسے کروڑوں افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن اُن کو اس کا علم ہی نہیں اور نہ ہی وہ ٹیکس ریٹرن (گوشوارہ) فائل کراتے ہیں۔ تو اس سے غلط تاثر قائم ہوتا ہے کہ ہماری آبادی کا بہت کم حصہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ کيا ان سب پر گوشوارہ دینا لازم ہے؟ ہرگز نہیں۔

درحقیقت انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، لیکن گوشوارے فائل جمع کرانے والوں کی تعداد 2018ء میں تقریباً 22 لاکھ رہی۔ رواں سال میں خیال ہے کہ یہ تعداد 25 لاکھ تک ہو جائے گی جب 31 جنوری کو توسیع شدہ تاریخ برائے داخلہ گوشوارہ ختم ہو گی۔ پچھلے سال کئی ماہ کی توسیع دینے کے بعد یہ تعداد 22 لاکھ تک گئی تھی اور اُس سے محصولات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ مالی سال 19-2018 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف۔بی۔آر) کی شرحِ نمو منفی 0.4 فیصد تھی۔ زیادہ تر لوگوں نے شاید قابلِ ٹیکس آمدنی سے کم گوشوارے دیئے تاکہ وہ فائلر ہونے کا فائدہ اُٹھا سکیں۔ ایک وقت تھا جب ایف بی آر کے پاس ریٹرن فائل جمع کرانے والوں کی تعداد پچیس لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی۔ اس گراوٹ کو دیکھتے ہوئے ایف بی آر کے حکام کو ٹھنڈے دل سے اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ کیا خرابی واقع ہوئی اور یہ ریٹرنز جمع کرانے والے کہاں غائب ہوگئے؟ درحقیقت یہ تنزلی کسی بھی ٹیکس وصول کرنے والی مشینری کے لیے انتہائی تشویش ناک ہونی چاہیے لیکن ایف بی آر اس سے مکمل طور پر اغماض برتتا ہے، جیسا کہ یہ کوئی معمول کی صورتِ حال ہو۔

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مطابق جولائی 2014ء میں، بائیومیٹرک تصدیق سے پہلے، ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد 140,022,516 تھی۔ تصدیق کا عمل مکمل ہونے کے بعد، اپریل 2015ء میں یہ تعداد کم ہوکر 13کروڑ 18 لاکھ رہ گئی۔ اب نومبر 2019 کے آخر میں ان کی تعداد بڑھ کر 16 کروڑ 40 لاکھ ہو گئی تھی۔ مالی سال 2019 میں ایک بڑی تعداد میں موبائل فون صارفین، جن کی تعداد پچانوے ملین سے کم نہیں، نے 12.5 فیصد انکم ٹیکس وفاق اور صوبوں کو سیلز ٹیکس بھی ادا کیا، لیکن ان میں سے صرف 2 فیصد نے ٹیکس ریٹرنز جمع کرائیں۔ ایف بی آر ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کے پاس دستیاب مواد کو جانچنے کی زحمت نہیں کرتا ورنہ وہ دولت مند صارفین کو ریٹرن فائل جمع کرنے کے لئے نوٹس دیتا۔ موبائل فون صارفین کی اکثریت قابلِ ٹیکس آمدن نہیں رکھتی، چنانچہ وہ قانونی طور پر گوشوارہ جمع کرانے کے پابند نہیں۔ اگر وہ ودہولڈنگ ٹیکس کی واپسی بابت ایسا کرتے ہیں تو اُنہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ ایف بی آر کے افسران کی زیادتیوں اور بے ضمیر ٹیکس مشیروں کی بدعنوانی کا شکار ہو جائیں گے۔

خرابی کی اصل جڑ یہ افراد نہیں بلکہ پاکستان کے انتہائی دولت مند افراد ہیں جو ٹیکس گوشوارہ جمع کرانے کی زحمت نہیں کرتے اور اس پر مستزاد یہ کہ حکومت اور ایف بی آر افسران اُن کا مکمل طور پر تحفظ کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال بلاشبہ حکومت اور ایف بی آر کی نااہلی اور بے عملی پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دولت مند اور طاقتور افراد اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ 2018ء میں ایک ملین سے دس ملین تک ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد محض 30،000 تھی۔ مہنگی گاڑیاں چلانے، پرتعیش گھروں میں رہنے، غیر ملکی سفر کرنے اور وسیع وعریض جاگیریں رکھنے والے اس ملک میں سے صرف 4،780 افراد نے دس لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کیا۔

پاکستان کی موجودہ آبادی 220 ملین ہے۔ کل آبادی میں سے 64 فیصد کی عمر پندرہ سال سے اُنتیس سال کے درمیان ہے اور 30 فیصد پندرہ اور اُنیس کے درمیان ہیں۔ (اس کا مطلب ہے کہ زیادہ تر اُن کا شمار کمانے والے افراد میں نہیں ہوتا یا آمدنی قابلِ ٹیکس کی حد سے کم ہے)۔ ہمارے پاس دنیا کی دسویں بڑی لیبر فورس ہے۔ لیبرفورس سروے حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ستر ملین کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے 60ملین کام کرتے ہیں جبکہ باقی بے روزگار ہیں۔ روزگار رکھنے والوں میں سے 43.5 ملین کا تعلق دیہی افرادی قوت سے ہے۔ اگر ان تمام حقائق کو ملاکر پڑھیں تو 19-2018ء کے مالی سال کے دوران کمانے والے افراد کی تعداد 10 سے 12 ملین کے قریب تھی۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اُس سال انکم ٹیکس گوشوارے کا ہدف پورا نہ ہوا۔ یہ کمی کا وسیع خلا آج بھی پایا جاتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ جن پچانوے ملین موبائل صارفین نے انکم ٹیکس ادا کیا، اُن میں سے اکثر کی آمدنی قابلِ ٹیکس آمدن سے کم ہوگی، لیکن اُنہیں مختلف شرائط کے تحت ٹیکس ادا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود ایف بی آر بے بنیاد پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے اور یہ کہ یہاں ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے۔ ایک قومی ٹیکس ادارے کی طرف سے پاکستانیوں کا یہ منفی تاثر پیش کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عام پاکستانی سیلز ٹیکس کے علاوہ انکم ٹیکس اد اکرتا ہے لیکن جن افراد سے ٹیکس وصول کیا جانا ہے، اُن سے ایف بی آر وصول نہیں کر پاتا۔ اس طرح یہ صریحاً ایف بی آر کی اپنی کوتاہی اور نااہلی کہ یہ براہِ راست اور بالواسطہ محصولات کے فرق کو کم کرکے معقول حد تک لانے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ یہ اعدادوشمار بہت ہی سادہ ہیں اور ان کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹکس کی طرف سے کیے گئے ہائوس ہولڈ انٹی گریٹڈ سروے کے مطابق پانچ ملین افراد کی سالانہ قابلِ ٹیکس آمدن پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اگر یہ تمام افراد گوشوارے جمع کرائیں تو تقریباً 1800 بلین روپے وصول کیے جاسکتے ہیں۔ اگر کمرشل کمپنیوں اور دیگر اداروں اور افراد، جن کی آمدنی پانچ لاکھ سے 10 لاکھ روپے کے درمیان ہے، کو بھی اس میں شامل کرلیں توصرف انکم ٹیکس کا حجم 5000 بلین روپے سے کم نہیں ہوگا۔ کیا کوئی پوچھنے والا ہے کہ ایف بی آر نے 19-2018ء کے مالی سال کے دوران 1445 بلین کا انکم ٹیکس جمع کیوں کیا؟

بالواسطہ ٹیکسز میں ہونے والی خرابیوں کی وجہ سے کل پوٹینشل کا صرف پچاس فیصد ہی جمع ہوسکتا ہے۔ 2018-2019ء میں ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی مد میں 1459 بلین روپے، وفاقی ایکسائز کی مد میں238 بلین روپے اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں685 بلین روپے جمع کیے۔ ان شعبوں میں محصولات کا حجم 5000 بلین سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات پہلے بھی کہہ جاچکی ہے کہ پاکستان میں صرف وفاقی سطح پر ہی محصولات کا حجم دس ٹریلین ہوسکتا ہے۔ تاہم ایسا اُسی صورت میں ممکن ہے جب معاشرے کے طاقتور طبقات کو ٹیکس دائرے میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ٹیکس مشینری کی اوورہالنگ کرنے، محصولات کے نظام میں موجود عقربی خامیوں کو دور کرنے اور طاقتور افراد کو ٹیکس کی رعایت دینے کا سلسلہ بند کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے بینک، واپڈا، پی ٹی سی ایل اور موبائل فون کمپنیاں مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہیں اور یہ ایف بی آر کے لیے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ان کے پاس موجود اعدادوشمار کو استعمال کرتے ہوئے ایف بی آر منصفانہ ٹیکس بنیاد کا تعین کرسکتا ہے۔ جو افراد گوشوارے جمع نہیں کراتے، ان کے ٹیکس کا تعین عارضی جائزے کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی ستم ظریفی ہے کہ یہاں عام لوگوں جو متوسط یا اُس سے بھی نچلی سطح پر ہیں اُن کو پیشگی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور پھر ستم دیکھیں کہ قابل ٹیکس آمدنی نہ ہونے کے باوجود گوشواروں کے لئے مجبور کیا جاتا ہے اور محصولات ادا نہ کرنے کے طعنے سننا پڑتے ہیں۔ جب کہ انتہائی دولت مند افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ یہ آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق ریاست کسی شخص کو اُس بات پر مجبور نہیں کرسکتی جو قانون کے مطابق نہ ہو۔ چنانچہ ایک غریب شخص، جس کی آمدن قانون کے مطابق قابلِ ٹیکس نہیں، سے کس طرح جبری ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے؟ کیا وہ ودہولڈنگ والا ٹیکس لینے کے لئے اُس سے زائد خرچ کرے اور پھر اہلکاروں کی تیرہ دستیوں کا شکار بھی ہو۔ ناانصافی پر مبنی موجودہ ٹیکس سسٹم ایک بیوہ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ نیشنل سیونگ سنٹر میں کی گئی انوسٹمنٹ، پنشن، گریجویٹی فنڈز، جو اُسے شوہر کی وفات پر وصول ہوئے، سے حاصل ہونے والی آمدنی پر بھی 10 فیصد ٹیکس ادا کرے۔ یہی ادارہ دولت مند افراد سے 5 کروڑ کی آمدن پر صرف دس فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے۔

پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے وصول کیے جانے والے محصولات میں سے 75 فیصد بالواسطہ ہیں۔ ان کا بوجھ عام شہری کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایف بی آر اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہے تو وہ اس کا اعتراف کرنے کی بجائے عام آدمی کو موردِ الزام ٹھہرانے لگتا ہے۔ کیا اس کی ناقص کارکردگی اور بدعنوانی کی ذمہ داری پاکستان کے عام شہریوں پر عائد ہوتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جو لوگ اس صورتِ حال کے ذمہ دار ہیں، ان کا محاسبہ کیا جائے۔

فاروق سرور خان
 
محترم بھائیو اور بہنو،
گو کہ میں ان اعداد شمار پر شک نہیں کرتا لیکن یہ فون بل پر 12،5 فی صد ٹیکس کی بنیاد بہت ہی کم ہے۔ وہ اس لئے کہ کسی بھی فرد کا فون بل کا خرچہ اس کی آمدنی کا 5 فی صد بھی نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی تنخواہ 50 ہزار روپے ماہانہ ہے تو وہ اس کا پانچ فیصد ڈھائی ہزار ماہانہ فون بل پر خرچ نہیں کرتا۔ لہذا کل آمدنی کے پانچ فی صد سے بھی کم کو بنیاد بنانا ، کسی تفتیشی قسم کی حرکت کے لئے تو اچھا ہے لیکن تعمیری قسم کی ٹیکس کی وصولی کے لئے اچھا نہیں ہے۔

ٹیکس، کسی بھی معیشیت کا ایک لازمی عنصر ہے۔ اس کی بنیاد، زمین اور اس کے لوگوں کی پیداوار ہی ہوتی ہے۔ زمین کیا پیدا کرتی ہے، اس پر ٹیکس اور بندوں کی پیداوار کیا ہے ، اس پر ٹیکس لازمی ہے۔ میں ٹیکس کے حساب کتاب کے لئے فون کا بل استعمال نہیں کروں گا۔ بلکہ زمین کی پیداوار اور بڑی صنعتوں کی پیداوار کے ساتھ ساتھ افرادی پیداوار (انکم پر ٹیکس) پر اپنا فوکس رکھوں گا۔

پاکستان کے افراد ، روز کھانا کھاتے ہیں۔ جس کی مقدار کوئی آدھ سیر روزانہ ہوتی ہے۔ پاکستان کی آبادی لگ بھک 200 ملین رکھ لیجئے، تو یہ ہوئے 100 ملین کلو خوراک روزانہ۔ اگر 3 وقت کے کھانے کا تخمینہ لگایا جائے تو لگ بھگ آدھ سیر کھانے کی بازار میں قیمت، کم از کم ہزار روپے بنتی ہے یا یہ کہئے کہ اوسط خرچ صرف ایک وقت کے کھانے پر 350 روپے کے لگ بھگ ہے تو تین وقت کے کھانے کی قمیت 1000 روپے رکھ لیجئے۔ اگر کہا جائے کہ خوراک کی ترسیل، پکانے ، اور دوسری مدوں میں خرچہ 500 روپے ہے تو ، اس کھانے میں استعمال ہونے والی پیداوار کی قیمت 500 روپے کلو بنتی ہے۔

گویا روز 50،000 ملین روپے کی خوراک روزانہ پیدا ہونی ضروری ہے۔ اس کا 20 فی صد ٹیک 10 بلین روپے روزانہ بنتا ہے ۔ یعنی سال کا 3650 بلین روپے سالانہ ٹیکس صرف خوراک پیدا کرنے والے ادارے یا افراد کھا جاتے ہیں۔

اگر اوپر کے دھاگے سے 5000 بلین روپے کا ٹیکس دیگر شعبوں میں بنتا ہے تو گویا پاکستان کی ٹیکس وصولی کا حجم کم از کم 8000 بلین روپے سے تجاوز کر جاتا ہے۔ جب کہ ایف بی آر 2000 بلین روپے بھی جمع نہیں کرپاتا۔

اس پیداوار پر ٹیکس کے علاوہ ہم کو دینی کتب سے بارہا یہ حکم ملتا ہے کہ ڈھائی فیصد ٹیکس صاحب نصاب ادا کرے، یہ صاحب نصاب کیا ہوتا ہے؟ یہ پراپرٹی اونر ہوتا ہے، یعنی ڈھائی فی صد ٹیکس تمام پراپرٹیز پر لگایا جائے۔ تاکہ سارے پاکستان کے منجمد اثاثوں کی قیمت کے مساوی رقم ۔ ہر 40 سال میں ادا ہوتی رہے۔ پاکستان کے وہ گھر جن کا رقبہ 250 گز سے زائید ہے، کم از کم کروڑ روپے میں فروخت ہوتے ہیں۔ ایسے اثاثوں کی مالیت کا تخمینہ لگانا مشکل ہے لیکن درست پراپرٹی ٹیکس کے سماریا جمع کرکے یہ تخمینہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔

دولت یا روپے کی گردش، کسی بھی معیشیت کے لئے رواں کون کا کام کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ٹیکس دیتے نہیں ہیں بلکہ ٹیکس وصولتے ہیں۔ ملک کی معیشیت کی 20 فی صد دولت گویا سب میں تعمیری طور پر بٹتی ہے کہ اس سے نئی بستیاں، نئی شاہراہیں، انفراسٹرکچر سب کے لئے بنتا ہے۔ نیشل سائینس فاؤنڈیشن کے پاس فنڈ ہوتے ہیں کہ ریسرچ کے لئے یونیورسٹیوں کو دے، نئے کارخانوں کے لئے قرضہ دے ، یہ بہت ہی سادہ طریقے سے ہم کو سمجھ میں آتا ہے۔

ہم سب مانتے ہیں کہ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ، کا حکم اللہ تعالی کے فرمان قرآن میں بار بار آیا ہے ۔

لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے صلاۃ کو ایک خاموش نماز تک محدود کردیا ہے۔ اور زکواۃ کا تصور ہی بدل دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جنگ خندق میں ، خندق کھودی گئی اور تیر برداروں کو ایک بہتر جگہ پر کھا گیا تو اس کا فیصلہ کا صلاۃ میں ہوا تھا یا سب خاموش بیٹھے تھے اور اپنی مرضی سے بناء کسی تعاون اور بناء کسی پلاننگ سے یہ کام ہوا تھا؟

صلاۃ کے معانی ہے - کانگریگیشن - یعنی باجماعت ، یعنی جمع ہو کر باہمی مشاورت سے فیصلے کریں اور ساتھ میں اللہ تعالی کی عبادت بھی کریں ۔ اس بات سے میرا مقصد نماز کی اہمیت کم کرنا نہیں بلکہ ساتھ ساتھ جمع ہوکر باہمی مشورے سے فیصلے کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ کام ہماری سینیٹ اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خاطر خواہ ہو رہا ہے لیکن اس پر ٹیکس کا معاملہ نہیں اتھایا جاتا اور زراعت پر ٹیکس کے خیال کو ہی بغاوت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح زکاۃ (زکواۃ) عام فہم ٹیکس کی ادائیگی ہے، جس کی مقدار اللہ تعالی نے کسی بھی بڑھوتری پر 20 فی صد مقرر کی ہے ، المیہ یہ ہے کہ ہم اسے مانتے ہیں نہیں ہے۔

پاکستان کا آئین ، قران اور سنت کے احکامات کا پابند ہے لیکن یہ قرآن اور سنت اس وقت اٹھا کر رکھ دئے جاتے ہیں جب زراعت پر ٹیکس کا معاملہ آتا ہے۔

اس آرٹیکل میں درج ذیل آیات کے احکامات استعمال کئے گئے۔

1۔ اللہ کا فرمان زراعت ٹیکس کے بارے میں ، فصل کٹائی، منافع کمائی پر فوری ادا کرنا ہے۔ منافع کی کیلکولیشن میں خرچ کا بے جا نہیں دکھانا ہے
6:141 وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتو ں پر چڑھائے جاتے ہیں او رجو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت او رکھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہاور جدا جدا بھی ہیں ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس (اللہ) کا حق ادا کرو اور بے جا خرچ نہ کرو بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

2- 20 فی صد ٹیکس ، کسی بھی شے سے بڑھوتری حاصل ہونے پر
8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ کسی بھی شے سے تم کو بڑھوتری ہوئی تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

3۔ اس جمع شدہ ٹیکس (اللہ کے حق) کو کہاں استعمال کرنا ہے؟ عربی الفاظ کے میکرو ایکنامک معانی میں نے انگریزی میں لکھے ہیں، مائیکرو اکنامک معانی اور اردو تراجم زیادہ تر مترجمیں نے استعمال کئے ہیں۔
9:60 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
(وصول شدہ) زکوة مفلسوں (Welfare) اور محتاجوں (Health) اوراس کا کام کرنے والوں (Income Tax Collection System of Government)کا حق ہے اورجن کی دلجوئی (Education) کرنی ہے اور غلاموں (For release of Slaves andd POWs) کی گردن چھوڑانے میں اور قرض داروں کے قرض میں (Public Debt System) اور الله کی راہ میں (Defence of Idealogical State) اورمسافروں (Development of Infrastructure) کو یہ الله کی طرف سے مقرر کیاہوا ہے اور الله جاننے والا حکمت والا ہے

4۔ مومنوں کے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں


والسلام
 

جاسم محمد

محفلین
محترم بھائیو اور بہنو،
گو کہ میں ان اعداد شمار پر شک نہیں کرتا لیکن یہ فون بل پر 12،5 فی صد ٹیکس کی بنیاد بہت ہی کم ہے۔ وہ اس لئے کہ کسی بھی فرد کا فون بل کا خرچہ اس کی آمدنی کا 5 فی صد بھی نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی تنخواہ 50 ہزار روپے ماہانہ ہے تو وہ اس کا پانچ فیصد ڈھائی ہزار ماہانہ فون بل پر خرچ نہیں کرتا۔ لہذا کل آمدنی کے پانچ فی صد سے بھی کم کو بنیاد بنانا ، کسی تفتیشی قسم کی حرکت کے لئے تو اچھا ہے لیکن تعمیری قسم کی ٹیکس کی وصولی کے لئے اچھا نہیں ہے۔

ٹیکس، کسی بھی معیشیت کا ایک لازمی عنصر ہے۔ اس کی بنیاد، زمین اور اس کے لوگوں کی پیداوار ہی ہوتی ہے۔ زمین کیا پیدا کرتی ہے، اس پر ٹیکس اور بندوں کی پیداوار کیا ہے ، اس پر ٹیکس لازمی ہے۔ میں ٹیکس کے حساب کتاب کے لئے فون کا بل استعمال نہیں کروں گا۔ بلکہ زمین کی پیداوار اور بڑی صنعتوں کی پیداوار کے ساتھ ساتھ افرادی پیداوار (انکم پر ٹیکس) پر اپنا فوکس رکھوں گا۔

پاکستان کے افراد ، روز کھانا کھاتے ہیں۔ جس کی مقدار کوئی آدھ سیر روزانہ ہوتی ہے۔ پاکستان کی آبادی لگ بھک 200 ملین رکھ لیجئے، تو یہ ہوئے 100 ملین کلو خوراک روزانہ۔ اگر 3 وقت کے کھانے کا تخمینہ لگایا جائے تو لگ بھگ آدھ سیر کھانے کی بازار میں قیمت، کم از کم ہزار روپے بنتی ہے یا یہ کہئے کہ اوسط خرچ صرف ایک وقت کے کھانے پر 350 روپے کے لگ بھگ ہے تو تین وقت کے کھانے کی قمیت 1000 روپے رکھ لیجئے۔ اگر کہا جائے کہ خوراک کی ترسیل، پکانے ، اور دوسری مدوں میں خرچہ 500 روپے ہے تو ، اس کھانے میں استعمال ہونے والی پیداوار کی قیمت 500 روپے کلو بنتی ہے۔

گویا روز 50،000 ملین روپے کی خوراک روزانہ پیدا ہونی ضروری ہے۔ اس کا 20 فی صد ٹیک 10 بلین روپے روزانہ بنتا ہے ۔ یعنی سال کا 3650 بلین روپے سالانہ ٹیکس صرف خوراک پیدا کرنے والے ادارے یا افراد کھا جاتے ہیں۔

اگر اوپر کے دھاگے سے 5000 بلین روپے کا ٹیکس دیگر شعبوں میں بنتا ہے تو گویا پاکستان کی ٹیکس وصولی کا حجم کم از کم 8000 بلین روپے سے تجاوز کر جاتا ہے۔ جب کہ ایف بی آر 2000 بلین روپے بھی جمع نہیں کرپاتا۔

اس پیداوار پر ٹیکس کے علاوہ ہم کو دینی کتب سے بارہا یہ حکم ملتا ہے کہ ڈھائی فیصد ٹیکس صاحب نصاب ادا کرے، یہ صاحب نصاب کیا ہوتا ہے؟ یہ پراپرٹی اونر ہوتا ہے، یعنی ڈھائی فی صد ٹیکس تمام پراپرٹیز پر لگایا جائے۔ تاکہ سارے پاکستان کے منجمد اثاثوں کی قیمت کے مساوی رقم ۔ ہر 40 سال میں ادا ہوتی رہے۔ پاکستان کے وہ گھر جن کا رقبہ 250 گز سے زائید ہے، کم از کم کروڑ روپے میں فروخت ہوتے ہیں۔ ایسے اثاثوں کی مالیت کا تخمینہ لگانا مشکل ہے لیکن درست پراپرٹی ٹیکس کے سماریا جمع کرکے یہ تخمینہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔

دولت یا روپے کی گردش، کسی بھی معیشیت کے لئے رواں کون کا کام کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ٹیکس دیتے نہیں ہیں بلکہ ٹیکس وصولتے ہیں۔ ملک کی معیشیت کی 20 فی صد دولت گویا سب میں تعمیری طور پر بٹتی ہے کہ اس سے نئی بستیاں، نئی شاہراہیں، انفراسٹرکچر سب کے لئے بنتا ہے۔ نیشل سائینس فاؤنڈیشن کے پاس فنڈ ہوتے ہیں کہ ریسرچ کے لئے یونیورسٹیوں کو دے، نئے کارخانوں کے لئے قرضہ دے ، یہ بہت ہی سادہ طریقے سے ہم کو سمجھ میں آتا ہے۔

ہم سب مانتے ہیں کہ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ، کا حکم اللہ تعالی کے فرمان قرآن میں بار بار آیا ہے ۔

لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے صلاۃ کو ایک خاموش نماز تک محدود کردیا ہے۔ اور زکواۃ کا تصور ہی بدل دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جنگ خندق میں ، خندق کھودی گئی اور تیر برداروں کو ایک بہتر جگہ پر کھا گیا تو اس کا فیصلہ کا صلاۃ میں ہوا تھا یا سب خاموش بیٹھے تھے اور اپنی مرضی سے بناء کسی تعاون اور بناء کسی پلاننگ سے یہ کام ہوا تھا؟

صلاۃ کے معانی ہے - کانگریگیشن - یعنی باجماعت ، یعنی جمع ہو کر باہمی مشاورت سے فیصلے کریں اور ساتھ میں اللہ تعالی کی عبادت بھی کریں ۔ اس بات سے میرا مقصد نماز کی اہمیت کم کرنا نہیں بلکہ ساتھ ساتھ جمع ہوکر باہمی مشورے سے فیصلے کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ کام ہماری سینیٹ اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خاطر خواہ ہو رہا ہے لیکن اس پر ٹیکس کا معاملہ نہیں اتھایا جاتا اور زراعت پر ٹیکس کے خیال کو ہی بغاوت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح زکاۃ (زکواۃ) عام فہم ٹیکس کی ادائیگی ہے، جس کی مقدار اللہ تعالی نے کسی بھی بڑھوتری پر 20 فی صد مقرر کی ہے ، المیہ یہ ہے کہ ہم اسے مانتے ہیں نہیں ہے۔

پاکستان کا آئین ، قران اور سنت کے احکامات کا پابند ہے لیکن یہ قرآن اور سنت اس وقت اٹھا کر رکھ دئے جاتے ہیں جب زراعت پر ٹیکس کا معاملہ آتا ہے۔

اس آرٹیکل میں درج ذیل آیات کے احکامات استعمال کئے گئے۔

1۔ اللہ کا فرمان زراعت ٹیکس کے بارے میں ، فصل کٹائی، منافع کمائی پر فوری ادا کرنا ہے۔ منافع کی کیلکولیشن میں خرچ کا بے جا نہیں دکھانا ہے
6:141 وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتو ں پر چڑھائے جاتے ہیں او رجو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت او رکھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہاور جدا جدا بھی ہیں ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس (اللہ) کا حق ادا کرو اور بے جا خرچ نہ کرو بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

2- 20 فی صد ٹیکس ، کسی بھی شے سے بڑھوتری حاصل ہونے پر
8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ کسی بھی شے سے تم کو بڑھوتری ہوئی تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

3۔ اس جمع شدہ ٹیکس (اللہ کے حق) کو کہاں استعمال کرنا ہے؟ عربی الفاظ کے میکرو ایکنامک معانی میں نے انگریزی میں لکھے ہیں، مائیکرو اکنامک معانی اور اردو تراجم زیادہ تر مترجمیں نے استعمال کئے ہیں۔
9:60 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
(وصول شدہ) زکوة مفلسوں (Welfare) اور محتاجوں (Health) اوراس کا کام کرنے والوں (Income Tax Collection System of Government)کا حق ہے اورجن کی دلجوئی (Education) کرنی ہے اور غلاموں (For release of Slaves andd POWs) کی گردن چھوڑانے میں اور قرض داروں کے قرض میں (Public Debt System) اور الله کی راہ میں (Defence of Idealogical State) اورمسافروں (Development of Infrastructure) کو یہ الله کی طرف سے مقرر کیاہوا ہے اور الله جاننے والا حکمت والا ہے

4۔ مومنوں کے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں


والسلام
جزاک اللہ بہترین تجزیہ
 
Top