ٹرانسپورٹ اور مسافر۔۔۔۔۔۔۔نسیم انجم

آئے دن کی ہڑتال، نسلی و لسانی تعصبات، گروہ بندی اور آپس کی نفرت نے عوام کو بے حد پریشان کردیا ہے، روزگار کے معاملات تو دور کی بات ہے، پہلے سواری تو ملے، چونکہ برے حالات میں بسیں، رکشہ، ٹیکسی بھی سڑکوں سے غائب ہوجاتی ہیں، کیا کریں مالکان کو ایسا کرنا پڑتا ہے، ورنہ زیادہ تر سواریاں سوگ اور مطالبات منوانے کے کام آجاتی ہیں اور سوگ بنا گاڑیوں اور قومی املاک کو جلائے منایا نہیں جاسکتا ہے لہٰذا توڑ پھوڑ، لوٹ مار، چھینا جھپٹی، اغوا و تشدد بہت ضروری ہے۔
آخر لوگ کیا کریں؟ کوئی دوسرا کام کرنا نہیں آتا ہے، اسی وجہ سے موقع کے انتظار میں رہتے ہیں کہ کب کوئی اہم شخصیت اس دنیا سے منہ موڑے اور یہ ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں اتر جائیں اور بازاروں، بینکوں اور چھوٹی موٹی دکانوں تک کو اجاڑ دیں۔ ایک مشہور لیڈر کی شہادت کے دن چند شرپسندوں کے باعث لوگوں نے اسپتالوں، شادی ہال اور دوسری اہم عمارات میں پناہ لی اور رات بھر خوفزدہ حالت میں چھپے رہے۔
بات سوچنے کی یہ ہے کہ اب ہم اسے افسوس کہیں، یا تخریب کاری؟ کسی کے اور خاص طور پر اپنی محبوب شخصیت کے مرنے پر اسی طرح حزن و ملال کا اظہار کیا جاتا ہے؟ بات یہ ہے حالات نے پاکستانیوں کو یہ حقیقت اچھی طرح سمجھادی ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے؟ کون اپنے ملک اور اپنے عوام سے مخلص ہے اور وہ کون لوگ ہیں جو وطن کی بنیاد میں دراڑیں ڈال رہے ہیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علیحدہ ہوچکا ہے اب یہ عوام کی بصارت و بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ دودھ کا انتخاب کرے یا پانی کا، پانی گدلا ہو یا شفاف اسے دیکھنے کے لیے بینائی کی ضرورت ہے، ہر شخص دیدہ و بینا نہیں ہوتا وہ ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھ لیتا ہے۔
اسے اندازہ ہی نہیں کہ وہ کس قدر کوتاہ عقل ہے اور اپنی کوتاہی کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے وہ اور اس کے اہل خانہ ڈوبنے لگتے ہیں، اس وقت اسے برے بھلے کی تمیز آئی تو کیا آئی؟ ہم اخبارات میں کئی بار یہ خبر پڑھ چکے ہیں کہ ٹرانسپورٹر سخت برہم ہیں، یہ بات سوچنے کی ہے کہ وہ کس بات پر برہم ہیں؟ ہم بتائے دیتے ہیں کہ وہ ناراض اس بات پر ہیں کہ کراچی کی سڑکوں اور شاہراہوں پر چنگ چی نے کیوں قبضہ جما لیا ہے؟ اچھے، برے حالات ہوں، ہڑتال ہو یا یوم سوگ، چنگ چی مسافروں کی پریشانی کو دور کرنے کے لیے کافی ہے۔ دفاتر و کارخانے اور تعلیمی اداروں میں جانے والوں کے لیے یہ بے حد مددگار ثابت ہوتی ہے، تو ٹرانسپورٹر حضرات کو اس بات کا غم ہے کہ مسافروں کو چنگ چی ڈرائیور سہولیات کیوں کر بہم پہنچا رہے ہیں؟
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ بسیں، کوچز، منی بسیں، مسافروں کے لیے فائدہ مند تھیں یا نقصان دہ؟ ان سواریوں میں سفر کرنے والے اچھی طرح ان حقائق سے واقف ہیں کہ لمبے سفر کے لیے کوچ سے بہتر دوسری سواری ہو ہی نہیں سکتی کہ آسانی سے منزل مقصود پر پہنچا دیتی ہے، لیکن اتنی بھی آسانی نہیں، اس کی وجہ مسافروں کو کھڑے ہونے کی تل بھر جگہ بھی میسر نہیں آتی ہے، کس طرح وہ کھڑے ہوتے ہیں یہ ان کا ہی دل جانتا ہے، کبھی مرغا بننا پڑتا ہے کبھی سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کی آغوش کا سہارا اس طرح لینا پڑتا ہے کہ بس کے ہچکولے اور تیز رفتاری انھیں اپنے بھائی بند کی گود میں بٹھادیتی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب بس کھچا کھچ بھر جاتی ہے تب ڈرائیور اور کنڈیکٹر سخاوت کا مظاہرہ اس طرح کرتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی سیڑھی کے ذریعے جوکہ بس میں نصب ہوتی ہے مسافروں کو چھت پر چڑھا دیتے ہیں، کنڈیکٹر کی جیب بھاری ہوجاتی ہے جب کہ مسافروں کی جیب ہلکی ہونے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں کہ اوپر بھی جیب کترے محو سفر ہوتے ہیں، اور موقع پاتے ہی اپنا کام دکھا جاتے ہیں، سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ اکثر اوقات بسوں کے کنڈیکٹر اور ڈرائیور بھی ان کاموں میں شریک ہوتے ہیں، لیکن مسافر زندہ دلی اور حالات سے بے خبر ہوکر شہر کا نظارہ کرتے ہیں، کھاتے پیتے گنگناتے، پان کی پیکیں مارتے اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں، یہ روز کا معمول ہے۔
ان کی زندگیوں کو کس قدر خطرہ لاحق ہوتا ہے اس بات کا احساس نہ ٹرانسپورٹرز کو ہے اور نہ ملازمین کو، جب کہ چنگ چی میں اس قسم کے مسائل نہیں ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ مسافر سیٹ بائی سیٹ سفر کرتا ہے جیب کٹنے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر، چھت پر کوئی اس لیے بیٹھ نہیں سکتا ہے کہ موٹرسائیکل اتنا بوجھ کس طرح برداشت کرسکتی ہے، پہلے ہی وہ دو کی جگہ سات، آٹھ انسانوں کا بوجھ صبروشکر کے ساتھ ڈھوتی ہے کہ اسے بھی غذا مل جاتی اور اس کے مالک کے کنبے کا شکم سیر ہوجاتا ہے، سی این جی کی قلت کے باوجود یہ سواری سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہے، اس کا سفر زیادہ لمبا تو نہیں ہوتا آرام دہ ضرور ہوتا ہے۔
ٹرانسپورٹ کا صدمہ سہنے والوں کے لیے یہ ہنڈا سوک سے کم نہیں اور چنگ چی کے ڈرائیور حضرات بھی بے حد مہذب ہوتے ہیں جہاں مسافر کہتا ہے وہاں رک جاتے ہیں، سواری چلانے میں جلدی نہیں کرتے ہیں بلکہ مسافر کو چڑھنے اترنے کا موقع فراہم کرتے ہیں لیکن بسوں کے ڈرائیور اس قدر عجلت میں ہوتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اگر اہمیت ہے تو اس بات کی کہ بسوں کی ریس میں وہ پیچھے نہ رہ جائیں، ان کی بلا سے مسافر بس سے اترتے چڑھتے گرجائیں، ان کی ہڈی، پسلی ٹوٹے یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں یہ ان کا مسئلہ ہرگز نہیں ہے، تو پھر ان حالات میں چنگ چی ہی بھلی ہے اور مسافروں کا واحد سہارا بھی کہ میٹرو بسیں بھی شاہراہوں سے غائب ہوگئی ہیں۔
یہ خبر بھی عام ہے کہ چور اچکوں نے ان بسوں کو بھی نہیں چھوڑا اور اس میں سے بھی جو چیزیں چرا سکتے تھے وہ چرانا شروع کردیں، پھر سی این جی کے مسائل نے بھی ٹرانسپورٹ کے مالکان کو ہراساں کیا ہوا ہے، ہر دوسرے تیسرے روز سی این جی کی قطاریں پمپ پر لگی ہوتی ہیں اور یہ اس قدر دور تک چلی جاتی ہیں کہ راہ گیروں کو راستہ نہیں ملتا دوسری سواریاں گزر نہیں پاتی ہیں، انھیں متبادل راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن سی این جی کی لائن میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے بلکہ بڑھتی چلی جاتی ہے کہ لوگ اپنی گاڑیوں کو بنا سی این جی کے گدھا گاڑی، گھوڑا گاڑی کی طرح دھکیلتے ہوئے لاکر قطار میں کھڑا کردیتے ہیں، گدھے اور گھوڑے تو بنا کھائے پیے پھر بھی مریل انداز میں چلتے ہیں لیکن یہ سواریاں تو خالی پیٹ ہلتی نہیں ہیں۔
آخر قدرتی گیس گئی کہاں؟ بجلی کی قلت، گیس کی قلت، ٹرانسپورٹ کی قلت، غرض قلت ہی قلت ہے، قلت نہیں ہے تو ٹارگٹ کلنگ، بم بلاسٹ، خودکش حملوں کی کمی نہیں ہے اور یہ بہت بڑا المیہ ہے بلکہ عذاب الٰہی ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، جیسے عوام ویسے ہی حاکم۔ پھر بھلا شکوے کی کیا بات ہے، پہلے ہم سب اپنا قبلہ درست کرلیں۔

بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
 
Top