ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا

آبی ٹوکول

محفلین
من جرثوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيامه.

’’جو شخص غرور و تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نگاہ کرم نہیں فرمائے گا‘‘۔ (بخاری و مسلم)

نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

ما اسفل من الکعبين من الازار فی النار. (بخاری)

’’غرور و تکبر سے‘‘ چادر (یا شلوار، پینٹ، پاجامہ وغیرہ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہیں، جہنم میں ہوگا‘‘۔

وضاحت مسئلہ : ان ارشادات پر بار بار غور کریں جو شخص غرور و تکبر سے کپڑا گھسیٹے اسے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ اس کی نمایاں مثال چوہدری، جاگیردار ہیں جو اعلیٰ قیمتی تہ بند (دھوتی) پہن کر زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں تاکہ لوگوں پر اپنا دولت مندی و امارت کا رعب ڈال سکیں۔ اسی چیز سے منع کرنا مقصود ہے کہ اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو گھٹیا سمجھا جائے۔ اللہ کی نعمت کی بے قدری کی جائے اگر یہ وجوہات نہ ہوں تو ٹخنوں سے نیچے شلوار، دھوتی یا پاجامہ، پتلون کا ہو جانا ہرگز گناہ یا منع نہیں اور یہ اعلان خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جیسا کہ خیلاء کے لفظ سے واضح ہے کہ غرور و تکبر سے چادر گھسیٹنا حرام ہے۔ اگر یہ بات نہ ہو تو حرام نہیں، جائز ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

من جرثوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيمه، فقال ابوبکر ان احد شقي ثوبي يسترخي الا ان اتعاهد ذالک منه، فقال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم انک لست تصنع ذلک خيلاء.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے گھسیٹے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر نظر کرم نہیں فرمائے گا اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میرے کپڑے کا ایک کونہ، اگر پکڑ نہ رکھوں، نیچے لٹک جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم ایسا غرور و تکبر سے نہیں کرتے‘‘۔

(صحيح بخاری، 1 : 517، طبع کراچی)

گویا جس بات سے دوسروں کو اس لئے منع فرمایا کہ اس میں غرور و تکبر ہے اسی کی اجازت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس لئے دی کہ ان میں غرور و تکبر نہیں۔ پس اصل ممانعت غرور و تکبر کی ہے۔ پس اگر غرور و تکبر نہ ہو تو پتلون، شلوار، پاجامہ، چادر کا ٹخنوں سے نیچے ہونا ہر گز مکروہ، حرام یا ممنوع نہیں۔ زیادہ سے زیادہ بعض لوگوں نے ایسی صورت میں مکروہ تنزیہی کا قول کیا ہے جو خلاف اولیٰ ہوتا ہے حرام نہیں۔ (مشکوۃ للشیخ عبدالحق محدث دہلوی و فتاوی عالمگیری)

از قلم مفتی عبدالقیوم ہزاروی
 

arifkarim

معطل
شکریہ آبی ٹوکول، اسلام ہر حکم کیساتھ ایک شرط لگاتاہے، لیکن لکیر کے فقیر صرف لکیر دیکھتے ہیں اور اوپر نیچے نہیں دیکھتے!
 

باذوق

محفلین
نہیں میں دلیل ہی پوچھ رہا ہوں کیونکہ اسلام دین عقل ہے
لیکن عقل وحی کی محتاج ہے !!

صحیح بخاری میں تعلیقاً ایک روایت یوں بیان ہوئی ہے
معروف تابعی حضرت عبداللہ بن ذکوان (ابی الزناد) فرماتے ہیں :
[ARABIC]إن السنن ووجوه الحق لتأتي كثيرا على خلاف الرأى، فما يجد المسلمون بدا من اتباعها[/ARABIC]
مسنون اور شرعی احکام بسا اوقات رائے کے برعکس ہوتے ہیں لیکن مسلمانوں پر ان احکام کی پیروی کرنا لازم ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب الصوم

سرکار شاید آپ کو پتا نہیں ہے کہ جب ایک سے زیادہ روایت کسی موضوع کے بارے میں ہو تو ان کو جمع کیا جاتا ہے کہ یعنی وہ روایت جو مطلق ہو اور دوسری روایت میں مشروط ہو تو پھر ان روایت کو آپس میں ملایا جاتا ہے کہ اس بارے میں یہ یہ بھی شرائط ہیں اس ہی لئے میں کہ رہا ہوں کہ یہ تکبر اس فعل میں شرط ہے
اگر آپ اس کو علم حدیث کا اصول بتا رہے ہیں کہ :
جمع و تطبیق میں مطلق روایت ساقط ہو جاتی ہے اور مشروط روایت متقدم ہوتی ہے ۔۔۔۔
تو بھائی ذرا حوالہ بھی دیں کہ علم حدیث کی کس کتاب میں‌ یہ اصول درج ہے؟ اپنے علم میں اضافے کے لیے ہی پوچھ رہا ہوں ، برا نہ مانیں۔

اور ہاں‌ ۔۔۔۔۔
پچھلا ربط میں نے غلط دے دیا تھا ، معذرت۔
صحیح‌ ربط یہ ہے :
ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے كى حرمت كے دلائل
الشيخ محمد صالح المنجد نے اس فتویٰ میں‌ دلائل کے ساتھ صاف صاف لکھا ہے کہ :
جتنى بھى احاديث گزرى ہيں وہ ٹخنوں سے كپڑا نيچے ركھنے كى ممانعت ميں عام ہيں، چاہے اس كا مقصد تكبر ہو يا نہ ہو، ليكن اگر مقصد تكبر ہو تو بلا شك گناہ اور جرم زيادہ ہو گا

میں‌ یہاں کسی سے بھی یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہر حال میں اس فتویٰ کو ماننا ہے۔
بلکہ ۔۔۔۔ گذارش ہے کہ جذبات کو ایک طرف رکھ کر اس فتویٰ میں موجود تمام احادیث‌ کا ٹھنڈے دل و دماغ سے مطالعہ فرمائیں۔
خاص طور پر یہ شیخ صالح کی یہ بات انتہائی قابل غور ہے کہ :
انسان اپنے آپ كو تكبر سے برى نہيں كر سكتا چاہے وہ اس كا دعوى بھى كرے تو بھى اس سے قبول نہيں كيا جائيگا كيونكہ يہ اس كا خود اپنى جانب سے تزكيہ نفس ہے، ليكن جس كے متعلق اس كى گواہى وحى نے دى تو وہ ٹھيك ہے۔

اور صحیح بخاری کی حدیث‌ میں‌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق گواہی دی ہے کہ وہ تکبر کرنے والوں میں سے نہیں۔

باقی آپ سب اپنی اپنی سوچ میں آزاد ہیں !!
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے انتہائی خوشی ہو رہی ہے کہ اس نفسا نفسی کے اور خود کش حملوں‌کے دور میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے جیسے اہم موضوع پر بات کرنے کے لئے ہمارے اتنے سارے معزز اراکین موجود ہیں۔ اللہ پاک آپ کو اس کی ٹھیک ٹھاک جزائے خیر دے
 

باذوق

محفلین
مجھے انتہائی خوشی ہو رہی ہے کہ اس نفسا نفسی کے اور خود کش حملوں‌کے دور میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے جیسے اہم موضوع پر بات کرنے کے لئے ہمارے اتنے سارے معزز اراکین موجود ہیں۔ اللہ پاک آپ کو اس کی ٹھیک ٹھاک جزائے خیر دے
اس قدر طعنہ دینے کی ضرورت نہیں ہے بھائی۔
ذرا حوصلہ کر کے دیگر زمرہ جات میں بھی جا کر دیکھ لیتے کہ اس نفسا نفسی کے اور خود کش حملوں‌کے دور میں بھی لوگوں کے پاس کیا کیا موضوعات بھرے پڑے ہیں۔
یہ تو پھر بھی دین کا علم ہے !!
اگر کوئی عمل نہ کرنا چاہے تو اس کی مرضی ۔۔۔۔ مگر علم تو پھیلے گا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس قدر طعنہ دینے کی ضرورت نہیں ہے بھائی۔
ذرا حوصلہ کر کے دیگر زمرہ جات میں بھی جا کر دیکھ لیتے کہ اس نفسا نفسی کے اور خود کش حملوں‌کے دور میں بھی لوگوں کے پاس کیا کیا موضوعات بھرے پڑے ہیں۔
یہ تو پھر بھی دین کا علم ہے !!
اگر کوئی عمل نہ کرنا چاہے تو اس کی مرضی ۔۔۔۔ مگر علم تو پھیلے گا۔

آپ کو کیسے لگا کہ اس پیغام کے اصل مخاطب آپ ہی ہیں؟ میں نے تو جزاء کے لئے دعا کی ہے اور بھی ٹھیک ٹھاک، کیا اس میں کوئی طعنہ ہے؟
 

باذوق

محفلین
آپ کو کیسے لگا کہ اس پیغام کے اصل مخاطب آپ ہی ہیں؟ میں نے تو جزاء کے لئے دعا کی ہے اور بھی ٹھیک ٹھاک، کیا اس میں کوئی طعنہ ہے؟
نہیں بھائی ، بدگمانی تو مجھ سے ہوئی ہے ورنہ آپ کا تو معصوم دعائیہ مراسلہ رہا ہے :)
جزاک اللہ خیر اور معذرت قبول فرمائیں بھائی صاحب۔
ویسے میں نے بھی اپنے مراسلہ سے یہ تاثر نہیں دیا تھا کہ آپکے پیغام کا اصل مخاطب میں ہوں۔
 

صرف علی

محفلین
اگر آپ اس کو علم حدیث کا اصول بتا رہے ہیں کہ :
جمع و تطبیق میں مطلق روایت ساقط ہو جاتی ہے اور مشروط روایت متقدم ہوتی ہے ۔۔۔۔
تو بھائی ذرا حوالہ بھی دیں کہ علم حدیث کی کس کتاب میں‌ یہ اصول درج ہے؟ اپنے علم میں اضافے کے لیے ہی پوچھ رہا ہوں ، برا نہ مانیں۔
خوب جب آپ کو خود اس اصول کا پتا ہے تو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟؟؟؟
 

صرف علی

محفلین
اس روایت پر صرف وہابی حضرات عمل کرتے ہیں جب کہ اھل سنت اور شیعہ حضرات کو اس روایت پر عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ہے شاید ان لوگوں کے علماء کے درمیان یہ روایت حسن نہیں ہے ۔
 

باذوق

محفلین
خوب جب آپ کو خود اس اصول کا پتا ہے تو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟؟؟؟
محترم بھائی ! میں نے یوں لکھا تھا :
اگر آپ اس کو علم حدیث کا اصول بتا رہے ہیں کہ :
جمع و تطبیق میں مطلق روایت ساقط ہو جاتی ہے اور مشروط روایت متقدم ہوتی ہے ۔۔۔۔
تو بھائی ذرا حوالہ بھی دیں کہ علم حدیث کی کس کتاب میں‌ یہ اصول درج ہے؟ اپنے علم میں اضافے کے لیے ہی پوچھ رہا ہوں ، برا نہ مانیں۔
مجھے کیا پتا ہے کیا نہیں‌ ہے ۔۔۔۔ اس کو چھوڑیں۔ آپ کے ہی ایک مراسلے سے میں نے یہ اصول سمجھا ہے :
جمع و تطبیق میں مطلق روایت ساقط ہو جاتی ہے اور مشروط روایت متقدم ہوتی ہے ۔۔۔۔
اور اسی لئے آپ سے دریافت کر رہا ہوں کہ یا تو اس اصول کا کوئی حوالہ دیں یا پھر کہہ دیں کہ میں‌ نے غلط سمجھا ہے اور اصل بات یہ یہ ہے !!
اس روایت پر صرف وہابی حضرات عمل کرتے ہیں جب کہ اھل سنت اور شیعہ حضرات کو اس روایت پر عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ہے شاید ان لوگوں کے علماء کے درمیان یہ روایت حسن نہیں ہے ۔
یہ لیں جی ۔۔۔۔۔۔ :confused:
ایک اور نادر اصول اٹھا لائے آپ۔
حضور ! کیا کسی روایت کو "حسن" قرار دینے کے لئے یہ جانچنا ضروری ہے کہ کون کون حضرات اس روایت پر عمل کرتے ہیں؟؟
پھر تو وہ تمام ہی احادیث مشکوک ہو جائیں گی جن میں جھوٹ بولنے کی سخت وعید آئی ہے۔ کیونکہ ان پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی فرقے کے عوام کی اکثریت کو دیکھا ہی نہیں‌ گیا۔
کیا فرماتے ہیں‌ بیچ اس مسئلہ کے آپ ؟؟
 

صرف علی

محفلین
شاید آپ نے غور نہیں کیا میں نے عوام کی بات ہی نہیں کی ہے میں‌نے علماء کی بات کی ہے اور روایت اختلاف ہو سکتا ہے کیوں کہ رووایت کی سند کو علم رجال کے حولے سے دیکھنے والے ہی اس بارے میں بتا سکتے ہیں ۔
اور اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کے اس روایت پر علماء وھابی زیادہ عمل کرتے ہیں اگر یہ روایت سب کہ پاس متفق ہوتی تو سب عمل کرتے اس روایت پر ۔
اور سب سے ہم بات یہ کہ عربی ایک جامع زبان ہے جس میں ہر چیز کے لئے ایک مخصوص الفاظ کا استعمال کرتے ہیں یہاں پر جتنی بھی روایت نکل کی گئے ہیں ان سب میں چادر بولا گیا ہے جس کو ہم عبا بھی کہتے ہیں کیوں کہ یہ عربوں کو مخصوص لباس ہے یہا ں کوئی ایسی روایت بیان نہیں کی گئی ہے جس میں بلخصوص شلوار کا ذکر ہو اگر شلوار کا ذکر ہوتا تو پھر اب کی بات درست ہوتی مگر رسول اللہ (ص) جو فصاحت کے بلند درجہ پر ہیں( اگر اس روایت کو سند کے حولہ سے درست مانے تو) انھوں نے سب جگہ لفظ چادر استعمال کیا ہے ناکہ شلوار کا ۔
 
Top