منصور مکرم

محفلین
"ویک پوائینٹ " احسان داوڑ

ایک ادمی کی حجامت ہو رہی تھی تو حجام نے اس کی ناک سے ایک بال نکالنا چا ہا تو اس ادمی کی اواز نکل گئی
وہ بیچا رہ شرمندہ ہوا اور حجام سے کہنے لگا کہ یار تو بھی نا وہی بال کیوں پکڑ لیتے ہو جو ادمی کو نیچے تک زور دیدیں ۔

لگتا ہے کہ شمالی وزیرستان کے مشران نے بھی پاکستان کا وہی بال پکڑ لیا ہے جو اس کو نیچے تک زور دے گیا ہے ۔ وہ اس طرح کہ
شمالی وزیرستان میں مقامی طالبان اور مشران نے ایک اجلاس کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کے ساتھ امن معاہدہ ہر صورت میں بر قرار رہے گا اور اگر اس کے با وجود حکومت نے اپریشن کا فیصلہ کیا تو پھر افغان صدر حامد کر زئ سے سیاسئ پناہ کیلئے ایک وفد جا ئے گا اور وزیریستان کے تمام باشندے متفقہ طور پر افغانستان ہجرت کرینگے اس مقصد کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو افغان صدر کے ساتھ ملا قات کر کے حالات سے اگا ہ کرینگے ایسی بھی اطلا عات ہیں کہ وہاں سے بھی گرین سگنل مو صول ہو ئے ہیں ۔

اس خبر کے بعد اطلا عات کے مطابق پاکستانی حکومت کے اعلی عہدیداروں نے شمالی وزیرستان کے مشران کے ساتھ رابطہ کر کے بتا یا کہ حکومت کا اپریشن کا کو ئی ارادہ نہیں اور افغانستان جانے کی باتیں نہ کریں ۔

اس سلسلے میں جب ملک قادر خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے واقعہ کی تصدیق کی اور کہا کہ پشاور سے ایک اعلی عہدیدار ائے تھے اور ان کے ساتھ اس مو ضوع پر باتیں کئے۔ ملک قادر خان نے بتا یا کہ حکومتی نمائندے کو واضح طور پر کہا کہ حکومت پر ہمیں مزید اعتما د نہیں رہا اور جب تک ہما را اعتما دبحال نہیں ہو تا تن تک ہم اپنے لو گوں کو واپس اپنے گھروں میں نہیں بلا سکتے ۔ ایسی بھی اطلا عات ہیں کہ حکومت سے ساتھ اتنی وسیع پیمانے پر مائگریشن کی وجہ سے کا فی تزویش ہے تاہم ابھی تک ایسے اقدامات نہیں اٹھا ئے جا ہے کہ لو گ واپس اپنے گھروں کو اجا ئے ۔ہم یہ نہیں جا نتے کہ حکومت اخر ان بیچارے عوام سے چا ہتی کیا ہے ؟؟

اب جب کہ علا قے کو خالی کر دیا گیا تو کیوں نہ اپریشن اپریشن کا رٹ لگائے والے یہ بھی کر دکھا یئں تاکہ عوام کو روازانہ کی بنیا د پر کبھی ادھر کھبی ادھر نہ جا نا پڑؑے ۔ ویسے بھی شمالی وزیرستان کے سارے لو گ ذہنی مریض بن گئے ہیں اور یہی شاید اسی حکومت کا مقصد ہے تاکہ لو گوں کو مریض بنا کے پھر وہی کریں جو چاہتے ہیں ۔ لیکن افغانستان ہجرت کرنے کا فیصلہ شاید اس حکومت کی بھی ایک بڑی کمزوری ہے اور اس کے بعد لگتا ہے کہ حالات کو ٹھیک کیا جا ئے گا کیونکہ حکومت پاکستان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن یہ نہیں ۔
 

منصور مکرم

محفلین
میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر ملکی مسائل کو دانشمندی سے حل نہ کیا گیا ،تو اب وہ زمانے گذر چکے جب کسی مسئلے کو خالص فوجی طاقت سے حل یا جائے۔

ان قبائل کا ایک اعلان پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کیلئے کافی ہے۔

افغانستان تو ویسے بھی مدعی ہے اٹک تک کے علاقے کا۔اوپر سے اگر قبائل آواز اٹھائیں تو بین الاقوامی طاقتیں رفرینڈم ہی کروائیں گی،اور اسکا نتیجہ سب کو معلوم ہے۔

پاکستان کے دوست کم دشمن زیادہ ہے ،اسلئے مملکت خداداد کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت ہی نازک صورتحال ہے اور حکمرانوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔
 
Top