ویڈیو کےخفیہ مقاصد ختم نہیں ہوئے؟ ‘‘ کالم ‘‘ زبیر احمد ظہیر

امکانات

محفلین
خفیہ مقاصد ابھی ختم نہیں ہوئے؟ ‘‘ کالم ‘‘ زبیر احمد ظہیر

پرانی ویڈیو کیوں جاری ہوئی؟ یہ سوال گلی محلوں سے گردش کرتا ہوا عام ہونے لگا ہے اس ایک ویڈیو کلپ نے پوری قوم کو تقسیم کر دیا ہے اس وقت پوری قوم اس ویڈیو کے درد میں ڈوبی ہوئی ہے ظاہری طور پر یہ ظلم ہے اور ظلم جب کمزوراور بے بس پر ہو تو اس کی شدت دوچند ہو جاتی ہے دنیا کے ہر معاشرے میں عورت کو مظلوم اور کمزور سمجھا جاتا ہے اس لئے ویڈیو میں دکھلایا جانے والا ظلم شدیدتر ہو گیا اور اس نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا لہذاجس کسی نے اس ویڈیو کو دیکھا یا اس کے بارے میں سنا فوری طور پر اس کا رد عمل ظلم کیخلاف ہو گیا یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان کمزور کا ساتھ دیتا ہے ،انسانی افزائش نسل اور انسانیت کی بقا اس فطری ہمدردی سے جڑی ہوئی ہے بچے سے پیار کا جذبہ ہر شخص میں موجود ہوتا ہے یہ جذبہ انسان کی اس فطری ہمدردی سے جنم لیتا ہے جس میں کمزور سے تعاون کا فلسفہ پوشیدہ ہے اس لئے بچوں پر عام طور پر ظلم نہیں کیا جاتا بچوں کو مذہب اور ملک سے بالاتر ہوکرصرف انسانی بنیادوں پر دیکھا جاتا ہے اس لئے دنیا بھر میں بچوں کی مشقت کو معیوب سمجھا جاتا ہے اگر کوئی بچوں پر ظلم کرے گا تو انسانی ضمیر اور فطری ہمدردی اسے برداشت نہیں کرتی۔

خواتین کے معاملہ پر بھی انسان خاصا حساس ہے انہیں بھی کمزور سمجھا جاتا ہے اور ان پر ہونے والا ظلم بھی ناقابل برداشت ہوتا ہے بچوں اور عورتوں کا تحفظ انسانی حقوق کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اس وقت دنیا میں بچوں اور خواتین کے تحفظ کے لیے لاکھوں این جی اوز سرگرم ہیں اس ویڈیو کو جس نے دیکھا اس کی فطری انسانی ہمدردی نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور پہلی نظر میں وہ کہہ اٹھا یہ ظلم ہے اور یہ ظلم چونکہ ایک سترہ سالہ بچی پر دکھلایا گیااس عمر کو کمسن ہی شمار کیا جاتاہے لہٰذاانسانی ہمدردی کے جذبات نے شدت اختیار کر لی اورپہلی نظر میں دیکھنے والا کوئی اسے جھٹلا نہ سکا اس وقت ملک میںجو لوگ اس واقعے کو ظلم قرار دے رہے ہیں اور انہوں نے صدا احتجاج بلند کی ہوئی ہے انہیں اس فطری ہمدردی نے اس احتجاج پر ابھارا ہے ان کے دلائل سے انکار نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں انسانی اور فطری ہمدردی کے جذبات عام افرادسے زیادہ ہیں ان کا احتجاج فطری انسانی جذبات کے عین مطابق ہے۔

کمزور اور مظلوم کے متعلق جس انسانی فطری ہمدردی کی ہم نے بات کی اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان ہی فطری جذبات کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا یہ اتنا آسان نہیں کہ آپ پوری دنیا کو بے وقوف بنالیں یا پوری قوم کو یرغمال بنالیں انسانی ذہن آزاد ہے اور یہ فوری طور پر کسی کا اثر قبول نہیں کرتااگر آپ انسان کی اس فطری ہمدرد ی کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں توآپ کو جھوٹ میں سچ کو بھرنا ہوگا اور جھوٹ کو نظروں سے اوجھل کر کے دنیا کو حقیقت دکھلانی ہوگی دنیا بھر کی فلم انڈسٹری جھوٹ کو سچ دکھلانے کے اس ہی اصول پر قائم ہے فلم کے کردار واقعات کو حقیقت بنا کر پیش کرتے ہیں ساری دنیا اسے تسلیم کرتی ہے انسانی جذبات کے خاص مناظر پر لوگ رونا شروع کر دیتے ہیں ولن سے نفرت اور ہیرو سے ہمدردی انسانی فطرت کے ہی جذبات کی بنیاد پر ہوتی ہے فلم کی کہانی سچی ہوسکتی ہے لکین وہ جن کرداروں پر فلمائی جاتی ہے وہ کردار سچے نہیں ہوتے یہ بات دنیا کے ہر بچے کو معلوم ہے مگر ساری دنیا اس جھوٹ کو سچ سمجھتی ہے اور اس جھوٹ کو سچ بنانا دنیا کا سب سے بڑا فلم انڈسٹری کی شکل میں کاروبار ہے ہالی ووڈ سے لے کر بالی ووڈ اور لالی ووڈ تک ساری دنیا اس جھوٹ کو سچ سمجھنے کے خبط میںمبتلا ہے‘ایسا ’’جھوٹا سچ‘‘ متعدد مقاصد کیلئے بولا جاتا ہے اس میں عالمی بالا دستی سے لے کر ثقافتی بالا دستی تک سینکڑوں مقاصد شامل ہوتے ہیں اب ہم آتے ہیں ویڈیو کی جانب یہ بھی فلموں میں دکھلانے جانے والے جھوٹ کی طرح بظاہر دیکھائی دیا جانے والا سچ ہے جو پہلی نظر میں سچ معلوم ہوتا ہے مگر مقاصد کے لحاظ سے جھوٹا سچ ہے ویڈیو میں سوات کا کہیں ذکر نہیں مگر سب اسے سوات کی ویڈیو سمجھ رہے ہیں ایسا کیوں ہے سوات بندوبستی علاقہ ہے یہاں حکومت کی رٹ چیلنج ہوسکتی ہے قبائلی علاقوں میں نہیں قبائلی علاقوں میں6 سال سے جنگ جاری ہے مگر وہ مقاصد پورے نہیں کر رہی بندوبستی علاقے حالت جنگ میں دکھاکر پاکستان کو غیر محفوظ باور کرایا جاسکتا ہے پھر سوات کا انتخاب کیوں ہوا یہاں دوسال سے کشیدگی کیوںدر آئی سوات ایک سیاحتی مقام ہے اور سیاحی مقام مشہور ہوتا ہے اس کی خوبصورتی اور شہرت سے لوگوں کوہمدردی ہوتی ہے اس لئے سوات کا ایشو قبائلی علاقوں سے زیادہ اہمیت حاصل کر گیا دوسری بات یہ ہے کہ موت ہمدردی کا سبب نہیں ہوتی دنیا میں آئے رو ز اموات ہوتی ہیں دنیا کی ہمدردی انسان کی فطری ہمدردی کے تحت بچوں اور خواتین کے ساتھ ہوتی ہے آپ کو یاد ہوگا کہ دو سال میں سینکڑوں لوگ سوات میں مارے گئے اتنا شور نہیں ہوا مگر بچوں کے اسکول کیا گرے آسمان سر پر اٹھا لیا گیا بچوں کاایشو زیادہ استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسکول گرانے کے علاوہ وہ لوگ بچوں کی تعلیم کے مخالف نہیں۔ لے دے کر ایک عورت کا ایشو ہی رہ جاتا ہے جس پر ساری دنیا کی توجہ مبذول کرائی جاسکتی ہے۔ ہر ملک کے میڈیا کی طرح پاکستان کا میڈیا محب وطن ہے اسے ایک دم کسی کے خلاف نہیں کیا جاسکتا۔ اسے بھی کمزور اور مظلوم عورت سے وابستہ فطری انسانی ہمدردی کے تحت استعمال کیا جاسکتا ہے جب سوات میں امن قائم ہوگیا تو پھر یہاں معاہدے کو ختم کرنے کا اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھاکہ کمزور اور مظلوم عورت سے وابستہ انسان کی فطری ہمدردی کو استعمال کیا جاتا جب ویڈیو نے اس جھوٹے سچ کو دکھلایا تو انسانی ہمدردی جاگ گئی اور قوم تقسیم ہو گئی لہٰذا ایسے خفیہ مقاصد کے لئے ویڈیو پرانی ، جعلی ،فنی لحاظ سے کمزورہی کیوں نہ ہو اسے استعمال کیا جانا کوئی نئی واردات نہیں پہلی نظر میں کوئی غور نہیں کرتا۔ لہٰذاجن مقاصد کے تحت یہ ویڈیو جاری کی گئی وہ مقاصد جب تک ختم نہیں ہوتے ان خفیہ مقاصد کی ویڈیوز کو روکا نہیں جاسکتا۔
 
Top