وینکور میں ۔روشنی حرا سے۔ کی تقریب رونمائی۔۔۔۔۔صفدر ہمدانی

سجادعلی

محفلین
وینکور میں ۔روشنی حرا سے۔ کی تقریب رونمائی


صفدر ھمٰدانی۔۔ لندن



میں اسوقت اللہ کی بنائی ہوئی لامتناہی زمین کے اس گوشے میں موجود ہوں جسے جغرافیائی اسم ہائے زمان و مکان میں ۔وینکور۔ کے نام سے جانا جاتا ہے اور جو پہلی ہی نظر میں اپنے صانع کی صناعیت کا ایسا بولتا ہوا ثبوت لکھتا ہے کہ ایک دم ذہن میں یہ الفاظ گردش کرنے لگتے ہیں کہ،،پھر تم ہماری کون کون سی نعمتوں کو جھٹمیسر ہیں کہ ایک عام انسان تو کیا کسی مفکر کو بھی اسکالاؤ گے،،

اسکی نعمتوں کا شمار کسی ذی روح کے بس میں ہو یہ ممکن نہیں اور یہ نعمتیں اس اس انداز میں ادراک کامل نہیں ہو پاتا۔
میرے لیئے اس حسین اور مبارک سفر کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ایسی ہے جسے میں آغاز میں ہی لکھ کر نفس مضمون کی طرف بڑھنا چاہتا ہوں۔ اللہ کے حبیب کے صدقے میں اس سفر نے ایک ہی دن میں مجھے کیسا مالا مال کر دیا ہے اسکا ذکر تو لندن لوٹنے کے بعد لکھے جانے والے کالموں میں آتا ہی رہے گا لیکن یہاں میں آپ دوستوں سے اپنی ایک خوشی شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ اس سفر میں مجھے اڑتیس سال کے بعد میری ماموں زادسعیدہ نثار مل گئی۔ سعیدہ میری ماموں زاد بھی ہے اور بہت پیاری دوست بھی۔ 69 اور 70 کے زمانے میں جب وہ لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ اطلاقی نفسیات میں ماسٹرزکر رہی تھی تو میں اور سعیدہ اپنے والد مقام بڑے بھائی اسد ھمدانی کے گھر پر گلبرگ میں رہتے تھے اور سعیدہ کوئٹہ سے یہاں لاہور میں تعلیم حاصل کرنے آئی تھی۔

سعیدہ اور ماموں نثار کا رابطہ عشروں تک نہ رہنا اور چار سال قبل اس خانوادے کو تلاش کرنا اور پھر اللہ کے حبیب کے نام کے صدقے اور شمس جیلانی بھائی کی محبتوں کے طفیل یہاں وینکور کے ہوائی اڈے پر پہلی صورت سعیدہ نثار کی دیکھنا اور اس جذباتی ملاقات پر آنکھوں کے آنسوؤں کو روکے رکھے کی کوشش کرنا ایک الگ کتاب کا موضوع ہے اور اس عنوان سے ضرور لکھوں گا۔لیکن یہاں ان چند سطور میں اپنی خوشی میں آپ کو شامل کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور وآلِ رسول کے صدقے میں ہر بچھڑنے والے کو اپنے پیاروں سے ملا دے۔آمین۔

کینڈا کا یہ قدرتی خوبصورتی سے مالا مال شہر وینکور اپنے دامن میں شمس جیلانی جیسے کتنے ہی ہیروں کو چھپائے ہوئے ہو گا کہ جو اس سر زمین پر رہنے اور اس سے اپنا رزق حاصل کرنے کا قرض اپنی فکر اور اپنے قلم سے ادا کر رہے ہیں۔
میں اس شہر میں آیا بھی محبی و محترمی شمس جیلانی کی دعوت پر ہوں اور اس اعزاز کے ساتھ آیا ہوں کہ اللہ کے حبیب کی سیرت محبی شمس جیلانی نے ۔روشنی حرا سے۔ کے نام سے جو مرتب کی ہے تو اسکی رونمائی مجھ فقیر اور ایک ادنیٰ سے طالب علم کے ہاتھوں ہوئی ہے۔

جس طرح حبیب خدا پر خدا اور خود انکے اذن کے بغیر لکھنا ناممکن ہے اس طرح ایسی تقریبات میں شرکت،کلام،سماعت اور صدارت بھی انہیں کے اذن خاص سے ہوتی ہے اورمیں اسی اعزاز پر لرزاں لرزاں سا ہوں۔
مجھ اس تاثراتی کالم میں اس تقریب رونمائی کی رپورٹ نہیں لکھنی کہ یہ تفصیلی رپورٹ جلد ہی القمرآن لائن کی زینت بن جائے گی

۔مجھے تو یہاں ان جذبات و احساست اور اُس محبت کو بیان کرنا ہے جو میں یہاں کے لوگوں کی محبی و مکرمی شمس جیلانی کے لیئے دیکھی،سُنی اور محسوس کی ہے اور میں انکا ایک عام سا قاری ہونے کے ناطے فخر سے سرشار ہوں کہ ایسے مطہر قلب کے بزرگ انسان مجھے جیسے کم علم کے دوستوں کی فہرست میں ہیں کہ انکی محبت کے حصار میں ہم جیسے لکھنے والوں کا بھی بھرم قائم ہے۔

مغربی دنیا میں دین اسلام سے شناسائی اور اہل مغرب کو اسلام کی حقیقی روح سے آشنا کروانے والوں کی فہرست کوئی ایسی طویل نہیں ہے اور اردو زبان میں اس حوالے سے لکھنے والے مزید محدود تعداد میں ہیں لیکن اس کمی کو بہت حد تک جناب شمس جیلانی گزشتہ کئی عشروں سے یہاں کینڈا اور خاص طور پر وینکور میں پورا کر رہے ہیں۔

وہ متعدد کتابوں کے مصنف،مرتب اور مترجم ہیںاور انہوں نے اپنی تحریروں اور عمل کے ذریعے ان معاشروں میں اسلام کی سچی اور حقیقی روح اس طرح روشناس کروائی ہے کہ انکے مداحین کے حلقے میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو،سکھ،عیسائی اور کئی دیگر طبقہ ہائے فکر کے لوگ بھی شامل ہیں اور انکی انسان دوستی اور اخلاقیات کے معترف بھی۔

میں جناب شمس جیلانی سے یہاں کے لوگوں کی محبت کا مظاہرہ 22 مئی 2008 جمعرات کی شام اسوقت اپنی آنکھوں سے دیکھا جب یہاں کینڈا کے شہر وینکور کے علاقے رچمنڈ میں انکی تازہ کتاب۔روشنی حرا سے۔کی تقریب رونمائی ہوئی جو سیرت رسول کے حوالے سے اس دور میں ایک الگ سی حیثیت کی حامل کتاب ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے صدقے میں شمس جیلانی کو جن جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت مترکبہ انکی صالح اولاد،انکے
نواسے نواسیاں،پوتے پوتیاں اور انکی قلم کاری کی زندگی میں انکی معاون انکی ہم سفر اور اہلیہ قریشہ جیلانی ہیں کہ جنہوں نے اس تخلیق کے سفر میں انکے سدِ راہ ہونے کی بجائے ہر قدم پر انکا ساتھ دیا ہے اور اس کا مظاہرہ بھی میں نے خود یہاں دیکھا کہ انکے تمام خانوادے نے اس رونمائی کی تقریب میں اپنی اپنی جگہ اپنا اپنا کردار ادا کیا اور اس مفروضے کو غلط ثابت کیا کہ مغربی معاشرے میں پروان چڑھنے والی اولادیں ماں باپ کے خیالات اور انکی سوچوں سے بہت دور ہو جاتے ہیں۔

اس خانوادے سے اس بات کا ثبوت اس رونمائی کی تقریب کو جیلانی صاحب کے بڑے بیٹے انور کمال اور بہو شبنم کے گھر پر منعقد کر کے دیا ۔میں جانتا ہوں کہ خلاق دو جہاں نے انہیں مالی طور پر بھی اس قابل بنایا ہوا ہے کہ وہ چاہتے تو اس تقریب کو شہر کے کسی بڑے ہوٹل یا ہال میں منعقد کرتے لیکن گھر میں اسکا انعقاد اس خانوادے کی آپس کی محبت اور بزرگوں کی خوشیوں میں پوری محبت کے ساتھ شریک ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ اس خاندان کو تسبیح کے دانوں کی طرح یک جان رکھے،آمین۔

اللہ تعالیٰ نے ہر سر زمین کو ایسی ایسی نعمت سے مالا مال کر رکھا ہے کہ اس کے باسیوں کا اگر اس کا کامل ادراک ہو جائے تو وہ اسی سرزمین کی مٹی کو اپنا مالک جان کر سجدہ کرتے رہیں۔ کینڈا کے اس منطقے کو بھی اللہ تعالیٰ نے سبزے،پانی،صاف ہوا،پہاڑوں،وادیوں اور گل و گلزار کی نعمتوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر زمین دے رکھی ہے اور اسی وجہ سے دل کے کشادہ کچھ لوگوں کے گھر بھی ایسے کشادہ ہیں کہ ان میں ایک پچاس ساٹھ سے زائد افراد کی تقریب باآسانی ہو جاتی ہے۔

رچمنڈ کے علاقے میں شمس جیلانی کے بڑے بیٹے کا گھر بھی اسی طرح کا ہے اور اسی کے ایک بڑے ہال میں اس تقریب کا اہتمام تھا جہاں ترتیب سے لگائی گئی کرسیوں پر جگہ نہ رہنے کے بعد مداحین شمس کی ایک اچھی خاصی تعداد کھڑی رہی جبکہ خواتین اس ہال نما کمرے سے منسلکہ بڑے کمرے میں تھیں۔میرا پنا ذکر اس تحریر میں چونکہ زائد ہے اس لیئے اس سے اجتناب کرتے ہوئے عرض کرؤں کہ شمس جیلانی کے چاہنے والوں کی شرکت کی تعداد بلاشبہ اس سے بہت زیادہ ہوتی اگر یہ کام کا دن نہ ہوتا اور ہفتہ وار تعطیل ہوتی۔

یہ تقریب دراصل بین المذاہبی اور کثیر ثقافتی تقریب کی ایک کامیاب مثال تھی جو تین گھنٹے تک جاری رہی اور اس میں شامل ہر فرد شمس صاحب کے بارے میں اپنی محبت اور عقیدت کااظہار کرنا چاہتا تھا اور یہ بھی سچ ہے کہ احباب نے لکھی لکھائی اور رٹی رٹائی تقریروں کی بجائے الفاظ کی نشست وبرخاست سے ماورا ہو کر اپنے سچے اور حقیقی جذبات کا اظہار کیا جسے سُن کر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شمس جیلانی کی آنکھیں ڈبڈبائی رہیں۔

اس تقریب کی نظامت جناب نصرت حسین نے کی جو پاکستان کی فضائیہ کے ریٹائرڈ سیکورڈن لیڈر ہیں اور فوجیوں کے بر عکس انہوں نے اچھی اردو اور اچھے انداز سے نظامت کے فرائض سر انجام دیئے۔

اس تقریب سے جن احباب نے خطاب کیا ان میں کینڈاکے مغربی علاقے کے پاکستانی قونصل جنرل معین الحق،سٹی آف رچمنڈ کے قائم مقام میئر بل میگ نائٹی،ڈاکٹر پروفیسر محمد احمد قادری،مسجد الزہرا کے ریزیڈنٹ عالم علامہ جاوید جعفری،امام رشید، سردارجیون رام پوری،کیپٹن سلمان مہتاب،نوید وڑائچ،اسماعیل راجپوت،احسان ملک،آفتاب عالم،مسٹر محمود،افضل باجوہ،نصیر پیرزادہ،افضل ملک،محمد رفیق اور دیگر مداحین شمس شامل ہیں۔

ان تمام افراد کی گفتگو کا خلاصہ تو مفصل رپورٹ میں شائع ہو گا لیکن یہاں اس تقریب کے ایک جاوداں تاثر کو ضرور بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس تمام دوستوں نے جیلانی صاحب کے بارے میں جن جذبات اور خیالات کا اظہار کیا وہ صرف مجھ جیسے دوستِ جیلانی اور انکے اہل خاندان کے لیئے ہی باعث فخر نہیں بلکہ پورے پاکستانیوں اور پاکستان کے لیئے باعث عزت وافتخار ہے کہ خود انکے درمیان ایک ایسا شخص موجود ہے جو پاکستان کی پہچان ہے اور جس کے بارے میں یہاں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت نیک خیالات وجذبات رکھتی ہے جو اُس مروجہ صورت حال سے مختلف ہے کہ اکثر و بیشتر اہل وطن اپنے ہی کسی پاکستانی کی تعریف کی بجائے اسکی ٹانگ کھینچنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن یہاں وینکور کے پاکستانیوں کو خاص طور پریہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے ہم وطن کی تعریف میں کسی بخل سے کام نہیں لیتے اور ایک بند مُٹھی کی طرح مل کر کام کرتے ہیں اور اسکی ایک وجہ شمس جیلانی جیسے صاحب کردار فرد کی رہنمائی ہے کہ جس کا اظہار اکثر دوستوں نے اپنی تقاریر میں کیا ہے۔

اس نہایت کامیاب تقریب کا سہرا میرے اپنے ذاتی خیال میں خود شمس جیلانی کی شخصیت اور اس علاقے کے پاکستانی،بھارتی اور دوسرے مذاہب کے ان لوگوں کے سر بندھتا ہے جو انسانیت پر یقین رکھتے ہیں اور اچھے اعمال کے قائل ہیں۔

اس تقریب کی تقاریر کو سُن پر مجھے ایک احساس شدت سے ہوا کہ میں شمس جیلانی کو صرف دس فیصد جانتا تھا اور باقی کوئی ستر فیصد اس تقریب میں جانا ہے جبکہ مزید بیس فیصد اپنے چند روزہ قیام میں بلاشبہ جان لوں گا اور یہی میرے اس سفر کی کامیابی ہے۔

اہل وینکور نے میرے یہاں قیام کے پہلے روز ہی جس محبت کا مظاہرہ کیا ہے وہ میرے لیئے باعث عزت و فخر ہے کہ ابھی بھی اہل ادب اور اہل فکر کی عزت کی جاتی ہے ورنہ وطن عزیز پاکستان میں تو مفاد پرستی اور شخصیت پرستی نے ان شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو جیتےجی گمنام بنا دیا ہے

(یہ تحریر القمرآن لائن کی اشاعت 24 مئی سے لی گئی ہے)
 
Top