ویمن ایکشن فورم: ایک جدوجہد

1st-convention-waf-file-67.jpg

تاریخ شاہد ہے کہ جب سے یہ کرہ ارض وجود میں آئی ہے، اس وقت سے اب تک حوا کی بیٹی کو کسی نہ کسی شکل میں ظلم و جبر اور زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، کبھی مذہب، کبھی روایات تو کہیں رسم و رواج کی بنیاد پر۔ آج بھی دنیا میں کئی ایسے ملک ہیں جہاں عورت یا بیٹی ہونا ایک ناقابل تلافی جرم سمجھا جاتا ہے اور افسوس صد افسوس کہ ہمارا ملک پاکستان بھی انہی ملکوں میں سے ایک ہے جہاں ہر گزرتے دن خواتین پر تشدد اور بربریت کی نت نئی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں۔

لیکن جس طرح ہر عروج کو زوال اور ہر ظلم کی ایک انتہا ہوتی ہے اسی طرح عورتوں کیلیے بھی یہ تاریک رات ڈھلنے کو ہے، وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے عورت نے علم کے حصول کی طرف توجہ مبذول کر کے شعور کی منازل طرے کیں تو اسی کے ساتھ ہی اس نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ادراک کیا اور اس کیخلاف آواز اٹھانا شروع کی، شروع میں تو انفرادیت کی وجہ سے اس آواز کو باآسانی کچل دیا گیا لیکن پھر وقت نے کروٹ لی اور چند لوگوں کی اجتماعی کوشش سے یہ معاشرے کی آواز کی شکل اختیار کر گئی، ایسی ہی ایک تنظیم آج سے کچھ 32 سال قبل پاکستان میں بھی وجود میں آئی، ویمن ایکشن فورم کے نام سے وجود میں آنے والا یہ ننھا سا پودا آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ویمن ایکشن فورم ۔۔۔۔۔ ایک آغاز
پہلی نشست: 16 ستمبر 1981 کو کراچی میں شرکت گاہ آفس میں منعقد ہوئی۔
حاضرین: زوہرا یوسف، ہلدا سعید، مرحومہ نجمہ بابر، تہمینہ احمد، کوثر ایس خان، فریدہ شہید، غزالہ رحمان، حمیرا رحمان، ابن مارکر، ممتاز نورانی، نجمہ صدیقی، شیما کرمانی اور دیگر۔
میٹنگ میں شریک تنظیمیں: تحریک نسواں، ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن، شرکت گاہ، اے پی ڈبلیو اے، پاکستان ویمن لائیر ایسوسی ایشن جو بعد میں سندیانی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔
لاہور میں اکتوبر 1981 جبکہ راولپنڈی اور اسلام آباد نومبر 1981 میں قیام عمل میں آیا۔
اس سلسلے میں پہلا کنونشن 1982 میں لاہور میں منعقد ہوا جس میں ویمن ایکشن فورم کو ایک تنظیم کی شکل دی گئی تاکہ لوگوں کو ذمے داریاں سونپی جا سکیں۔
تنظیم کے نام کے حوالے سے ایک مشہور کارکن نے بتایا کہ ہم نے بہت سے ناموں پر غور کیا اور پھر اس کیلیے فورم کا نام تجویز کیا کیونکہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جہاں سے ہم خیال افراد اور تنظیموں آگے آئیں اور اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
لفظ ایکشن اس لیے چنا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ اس کو ایک سماجی بہبود کی تنظیم کی تنظیم کی جگہ سیاسی سرگرمیوں اور رائے عامہ بیداری کیلیے قائم تنظیم سمجھا جائے۔
تاریخی موقع: 12 فروری 1983 کو ویمن ایکشن فورم نے پاکستان ویمن لائیرز ایسوسی ایشن کے تعاون سے ثبوت کے قانون کیخلاف لاہور میں ایک عوامی ریلی کا انعقاد کیا تھا جسے پولیس بہیمانہ طریقے سے منتشر کر دیا، اس سفاکانہ حملے کیخلاف اسٹوڈنٹ اور ٹریڈ یونینز اور سیاسی کارکن سماجی نظام میں بگڑ پیدا کرنے کے خلاف اس جدوجہد میں ہامرے ساتھ شامل ہو گئے تھے اور یہیں سے ویمن ایکشن فورم جمہوری تحریک کے ہراول دستے کی شکل اختیار کر لی تھی۔
انیس ہارون:
anis-haroon-file-350.jpg

اس تنظیم کے کردار کے حوالے خواتین کے تشخص کے حوالے سے قومی کمیشن کی سابق چیئرمین انیس ہارون نے اپنے خیالات کا اظہار کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔میرے خیال میں ویمن ایکشن فورم کا سب سے بڑا کارنامہ خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے جس میں ہر طرح کا تشدد، جمہوریت، تعلیم، صحت اور دیگر تمام چیزیں شامل ہیں۔
انہوں نے ان مسائل کو اس حد تک اجاگر کیا کہ سیاسی جماعتوں کو ان کی موجودگی کا احساس کرنا پڑا، ہم نے اداروں کے قیام میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا جن میں واتین کی وزارت، عورتوں کی حیثیت سے متعلق کمیشن، پالیسی میں تعاون اور خواتین کے حقوق قوانین کا قیام ہے، خواتین کی موومنٹ بھی ملک میں جمہوری جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو خواتین کبھی بھی انتہاپسند ایجنڈے کا حصہ نہیں رہیں۔ مولانا فضل اللہ اور ملا ریڈیو کے دور میں بھی جن خواتین نے ابتدا میں ان کا ساتھ دیا تھا، انہیں بھی جب ان کے ایجنڈے کے بارے میں علم ہوا تو وہ بھی ان کی حمایت سے دستبردار ہو گئیں۔
ان تمام چیزوں سے بڑھ کر خواتین کو بااختیار بنانے کیلیے معاشی آزادی اور اپنے مالی وسائل پر قابو پانے کی ضرورت ہے اور یہی وہ چیز ہے جہاں ان کی حالت کو مضبوط کرنے سے وہ مکمل انسانی صلاحیتیں بروئے کار سکیں گی۔
محترمہ مسرت ہلالی:
musarrat-hilali-file-170.jpg

محترمہ مسرت ہلالی جن کا نام خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کی جدوجہد کے سلسلے میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، انہیں خواتین کو کام جگہوں پر ہراساں کرنے کیخلاف تشدد کے ایکٹ 2010 کیلیے وفاقی محتسب مقرر کیا گیا تھا۔
محترمہ ہلالی نے بتایا کہ میرے والد پشوت کے ایک مشہروف و معروف مصنف اور خان عبدلالغفار خان کی خدائی خدمت گار موومنٹ کے سرگرم کارکن تھے اور اسی وجہ سے انہیں وقتاً فوقتاً جیل کی ہوا کھانی پڑتی تھی جو کل ملا کر 15 سال پر محیط ہے، تو اسی وجہ سے انسانی حقوق اور قانونی پیشہ میرے لیے نیا نہیں تھا۔
میرے لیے سب سے خوش آئند چیز یہ تھی کہ جب میں نے وکالت کو بطور پیشہ اپنایا تو میرے خاندان میں سے کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔
جب مجھے وفاقی محتسب تعینات کیا گیا تو میں نے اس کو چیلنج کی حیثیت سے لیا کیونکہ یہ اس موضوع اور ان لوگوں کیلیے پہلا قانون تھا خصوصاً کام کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کا شکار خواتین ان کیسوں میں سامنے آنے سے گریزاں تھیں۔
محترمہ ہلالی نے وفاقی محتسب کی حیثیت سے فرائض کی انجام دہی کے دوران مثبت چیز دیکھی، وہ یہ کہ کام کی جگہ پر ہراساں کیے جانے کا کوئی بھی واقعہ سامنے آنے کے بعد اس ادارے میں موجود دیگر افراد کافی محتاط ہو جاتے ہیں اور اس طرح کے واقعات کے دہرائے نہ جانے کے سلسلے میں ہر قسم کا تعاون کرتے ہیں، لیکن ابھی بھی اس سلسلے می کافی کام کیے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں کی اکثریت ابھی تک اس قانون سے واقفیت نہیں رکھتی اور اس سلسلے میں انہیں مزید معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
خاور ممتاز:
خواتین کے تشخص کے حوالے سے قومی کمیشن کی موجودہ چیئرمین خاور ممتاز کہتی ہیں خواتین کی موومنٹ کا سب سے بڑا کارنامہ امتیازی قوانین کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا اور پرتشدد واقعات کو منظر عام پر لانا ہے۔
اس سے قبل جب خواتین کو بااختیار بنانے کی جدوجہد شروع کی گئی تو اجتماعی زیادتی اور زنا جیسے مسائل کا تذکرہ نہیں کیا جاتا تھا لیکن آج معاملہ مختلف ہے اور ہر کوئی اس حوالے سے فکر مند ہے، ان مسائل پر ریسرچ کی گئی اور اعداوشمار جمع کرنے کرنے کے بعد انہیں عوام کے سامنے لایا گیا۔
جنسی مسائل میں سب سے اہم مسئلہ جس کی وجہ سے غیر مساوی معاشرتی تعلقات جنم لے رہے ہیں ان میں خواتین سے امتیازی رویہ، وراثت کے حقوق سے انکار، تشدد کی لعنت، ان سے ذلت آمیز رویہ، تحقیر اور جان سے مار ڈالنا، ان کے بنیادی حقوق سے انکار اور دیگر بہت سے عوامل شامل ہیں۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ بہت سے چیزوں میں بہتری آئی ہے لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ قوانین کو لاگو کیے جانے کے ساتھ ساتھ خواتین کو ان کے تمام حقوق کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کی جانی چاہیے اور یہ بھی بتانا چاہیے کہ وہ ان تک کیسے رسائی حاصل کر سکتی ہے۔
http://urdu.dawn.com/2013/03/06/women-action-forum/
تحریر کا ربط
 

x boy

محفلین
عورت ، عورت کا کردار ادا کرے، اور مرد ، مرد کا کردار تو سارے مسئلے ختم ہوجائنگے۔
جیسے کچھ روز قبل کچھ عورتیں اور مرد ہلاک ہوئے وہ بھی نام نہاد انقلا ب کے چکر میں،
انسانی جانوں کا ضیاع انسانیت اور پاکستانیت کے لئے شرم کی بات صد افسوس،
لیکن اتنی رات کو وہ عورتیں کیا تہجد پڑھنے گئیں تھیں وہاں،
جس گروپ سے انکا تعلق ہے یعنی " منہاج القران" لیکن انکے احوال تو یہ نہیں بتارہے تھے
 
Top