ویرو کولہی…جبر کے خلاف جرات مندانہ آواز

3750_70810619.jpg


ہاتھوں میں پلاسٹک کی چوڑیاں،گلے میں منگل سوتر،ماتھے پر بندیا سجائے،چولی،گھاگرااور سر پر دوپٹہ پہنے پاکستان کی اقلیتی جماعت ہندو برادری کی ویرو کولہی بھی گیارہ مئی کے انتخابات میں حصہ لیں گی۔ مٹی اور بانس کے گھر میں رہنے والی ویروپڑھنا لکھنا بالکل بھی نہیں جانتی۔ حیدرآباد کے مضافاتی گوٹھ جھڈو کی رہائشی اس پر عزم خاتون کا کل اثاثہ محض دو بستر،پانچ گدے،ایک چولھا اورکھانا پکانے کے کچھ برتن اور بینک میں جمع کیے ہوئے2800 روپے ہی ہیں۔اس کے 11 بچے ہیں جس میں پانچ بیٹیاں اور چھ بیٹے شامل ہیں۔ ان میں سے آٹھ شادی شدہ ہیں۔ شوہر کا چھ برس قبل انتقال ہوچکا ہے۔ ویرو کولہی کو عشروں سے چلتے پر جبر جاگیر دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کا خیال کیوں کر آیا؟اس نے آخر یہ فیصلہ کیسے کرلیا کہ کسانوں کے حقوق کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے؟ جاگیرداروں کی نجی جیلوں میں قید ومشقت کے شکار سیکڑوں انسانوں اس جبر نجات ملنی چاہیے؟ آج کی اس47 سالہ پرعزم خاتون کے پیچھے ایک16 سالہ ویرو کولہی چھپی ہوئی ہے۔جس کی شادی ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو ایک جاگیردار کا مقروض ہونے کے باعث اس کا غلام تھا ۔ وہ روزانہ دس گھنٹے کپاس چننے کا کام کرتی تھی، اتنی محنت کے باوجود وہ ہمیشہ یہ سوچتی کہ آخر ہمارا قرض ادائیگی کے باوجود کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی کیوں جارہا ہے!! اس صورت حال سے تنگ آکر اس نے ہمت کی،17 سال کی عمر میں اس نے اپنے گھروالوںکو تجویز دی کہ مالی طور پر مستحکم چند رشتے داروں سے قرضہ لیا جائے، اس نے عمر کوٹ میں ایک اور جاگیردار کے ہاں نوکری کر لی۔ وہ جاگیردارپہلے والے سے بھی بڑھ کر ظالم نکلا۔یہ جاگیردار بھی مزدوروں کو قرضہ دے کر غیر معینہ مدت کیلئے زمینوں پر ان سے بیگار لیتا تھا ۔لیکن اس کا قرض کبھی ختم ہونے میں نہیں آرہاتھا۔ وہ وہاں ہر وقت چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں مسلح گارڈز کے پہرے میں رہتے تھے۔ وہ عورتوں کو بری نظر سے دیکھتے اور ان کے شوہروں کو ان کی آنکھوں کے سامنے بے دردی سے پیٹتے تھے۔اس جبر نے ویرو کے اندر ہمت پیدا کردی کہ وہ اس نظام کو الٹ دینے کے لئے اٹھ کھڑی ہو۔پھرجب اس نے اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر اپنے بہو اور بیٹے کو پٹتے ہوئے دیکھا تواس کی برداشت جواب دے گئی لہٰذا اس نے ایک طرف بیٹے اور بہوکو فرار کرا دیا، دوسری طرف خود بھی بھاگ کراس جاگیردار کی پہنچ سے بہت دور ایک محفوظ گائوں میں منتقل ہوگئی۔ پھر اس نے اپنے بیٹوں کو اپنے بھائی کے پاس بھیجا تاکہ وہ پیسے جمع کرکے جاگیردار کا قرضہ ادا کردیںتاکہ پورے خاندان کو اس کی غلامی سے مکمل نجات دلائی جاسکے لیکن اس جاگیردار نے یہ کہہ کر کہ ا ن کا قرضہ دوگنا ہوچکا ہے، ویروکے خاندان کو رہا کرنے سے انکار کردیا۔اس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور انسانی حقوق کے ایک ادارے کے ذمہ داران سے ملاقات کی، انھوں نے ویرو کے خاندان کو جاگیردار کی قیدسے نجات کیلئے سینئر پو لیس افسران سے رابطہ کیا۔ اس کے خاندان کے 8 افراد کے علاوہ40 سے زائد دیگر افراد بھی اس جاگیردار کی قید میں تھے۔ ویرو عمر کوٹ پولیس ہیڈ کواٹر گئی لیکن پولیس والے بھی اس بااثر جاگیردار کا سامنا کرنے سے گریزاں تھے، نتیجتاً اس نے تھانے کے سامنے تین دن تک بھوک ہڑتال کی، یوں تھانے دار اپنی فورس کے ساتھ جانے کیلئے تیارہوگیا۔ اورپھر چندگھنٹوں بعد سارے ’قیدی‘ جاگیردار کی قید سے رہاہوچکے تھے۔ یہ آج سے 23برس پہلے کی بات ہے ۔ اس کارنامے کے بعد اسے اپنے خاندان کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ آزادانہ طور پر زندگی بسر کررہی تھی۔ وہ ایک آزاد مزدور تھی ،کھیتوں سے کپاس اور مرچیں چننے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کیلیے کام بھی کرنے لگی۔ اس نئی حیثیت سے اس نے ملک کے کئی علاقوں کا دورہ بھی کیا، ایک امن کے مشن کے تحت بھارت بھی جاچکی ہے۔2009 میں اس نے لاس اینجلس سے فریڈرک ڈوگلاس فریڈم ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس سارے سفر میں وہ پرعزم ہو چکی تھی کہ وہ نہ صرف جاگیرداروں کے جبر کے شکار مزدوروں کو غلامی سے نجات دلائے گی بلکہ انھیں معاشرے کے مرکزی دھارے میں لانے کے لئے بھی تمام تر کوشش کرے گی۔ اسی ایجنڈے کے ساتھ اس نے سیاست کے میدان میں کودنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کا کہنا ہے کہ کسان غلامی کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں، انہیں پوری اجرت نہیں دی جاتی۔ ویرو نے سماجی روایات کو توڑتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 50 سے الیکشن لڑنے کے لئے کاغذات جمع کرادئیے۔ ویرو محدود وسائل کے باوجود اپنے گائوں کے بنیادی مسائل حل کرانے کیلئے بھی کام کر رہی ہے۔ویرو نے ایک علاقائی تنظیم کے ساتھ مل کر پچھلے 12سالوں میں تقریباً26ہزار مزدوروں کو رہائی دلائی ہے۔یادرہے کہ پاکستان میں آٹھ ملین افراد غلاموںکی حیثیت سے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس حلقے میں ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ33 ہزار ہے۔ویرو کولہی اپنی مدد آپ کے تحت انتخابی مہم چلا رہی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ گائوں والے اس کے انتخابات میں حصہ لینے پر خوش ہیں۔ ویروکو اپنے حلقے کے بااثر سیاسی امیدواروں،وڈیروں اور جاگیرداروں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ وہ اسے پیسوں کا لالچ دے کر الیکشن سے باز رکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ تاہم ویرو کا کہنا ہے کہ وہ چند پیسوں کی خاطر اپنے مقصد کو قربان نہیں کر سکتی، اپنے حلقے کے عوام کو جاگیرداروں کے رحم و کرم پرنہیں چھوڑ سکتی۔


تحریر:ندامقصود
بہ شکریہ روزنامہ دنیا
 
Top