جون ایلیا وہ یقیں ہے نہ گماں ہے تننا ھُو یاھُو

علی صہیب

محفلین
وہ یقیں ہے نہ گماں ہے تننا ھُو یا ھُو
جانِ جانانِ جہاں ہے تننا ھُو یا ھُو

کون آشوب گرِ دیر و حرم ہے آخر
جو یہاں ہے نہ وہاں ہے تننا ھُو یا ھُو

کس نے دیکھا ہے مکاں اور زماں کو یارا!
نہ مکاں ہے نہ زماں ہے تننا ھُو یا ھُو

میں جو اک فاسق و فاجر ہوں جو زندیقی ہوں
رمزِ ’حق‘ مجھ میں نہاں ہے تننا ھُو یا ھُو

کیا بھلا سود و زیاں، سود و زیاں کیا معنی؟
کچھ نہ ارزاں نہ گراں ہے تننا ھُو یا ھُو

سینۂ وقت قیامت کا ہے چھلنی لیکن
نہ کمیں ہے نہ کماں ہے تننا ھُو یا ھُو

مفلساں! دل سے خداوند تمہارے پہ دُرود!!!
کیا ہی روزینہ رساں ہے تننا ھُو یا ھُو

یہ جو منعم ہیں انھیں کا تو ہے فتنہ سارا
اور دین ان کی دکاں ہے تننا ھُو یا ھُو

یار کا ناف پیالہ تو بلا ہے یاراں
حشر محشر طلباں ہے تننا ھُو یا ھُو

خون ہی تھوک رہا ہوں میں بچھڑ کے اس سے
وہی تو رنگ رساں ہے تننا ھُو یا ھُو


دھول اُڑتی ہے مری جان مرے سینے میں
دل مرا دشت فشاں ہے تننا ھُو یا ھُو

جونؔ، میں جو ہوں کہاں ہوں، مجھے بتلا تو سہی
جون تو مجھ میں تپاں ہے تننا ھُو یا ھُو
(جونؔ ایلیا)
 
آخری تدوین:

علی صہیب

محفلین
(یہ "تننا ہُو یا ہُو" صوفیوں کی ضرب ہے، موسیقی یا رقص کا ایک ایکسپریشن ہے جو بےخودی اور وجد کی کیفیت کا اظہار ہے۔ وہ کیفیت کہ جس میں انسان ایکسٹیسی کے اس مقام پر ہو کہ وہ ایک عالم بھول چکا ہو، ایسا پُرحال ہو کہ جیسے اسے وہ شے مل گئی ہو جسکے بعد دنیا کی تمام تر نعمتیں اپنی حیثیت کھو دیں۔ یہ مقام بےانتہا خوشی، بے حد سکون، بے نہایت اطمینان اور عشق کی معراج کے بعد کا مقام ہے۔

جیسے فارسی کے ان اشعار میں ہے کہ؛

من کہ مست از مئے جانم تننا ہا یا ہُو
فارغ از کون و مکانم تننا ہا یا ہُو

چشم مستش چو بدیدم دلم از دست برفت
عاشقِ چشمِ فلانم تننا ہا یا ہُو
(شمس تبریز)

وجد اور مایوسی، یہ دونوں ہی کیفیات اگرچہ دنیا سے بےنیاز اور بے پرواہ کرتی ہیں لیکن جہاں وجد اور ایکسٹیسی دنیا کو حسین اور پیاری مان کر اس سے بھی بڑے مقام کو پا لینے کا نام ہے تو وہیں مایوسی اور بے زاری دنیا کو مکروہ ترین اور بے حد بدصورت مان کر اس سے منہ موڑنے پر آمادہ کرتی ہے۔ جہاں وجد کا تعلق خوشی سے ہے وہیں مایوسی کا تعلق ایک دائمی اداسی سے ہے۔

جون نے اپنی اس غزل میں اسی "تننا ہُو یا ہُو" کو برتا ہے، لیکن وجد میں آ کر نہیں، بلکہ طنز کرتے ہوئے، مایوس ہوتے ہوئے، جیسے کوئی کسی کی بدحالی پر سبحان الله کہے یا جیسے کوئی اپنی خستگی پر خود قہقہہ لگائے، ایسا قہقہہ کہ جو خوشی کا مظہر نہیں ہوتا بلکہ اپنے ساتھ کئے جا رہے بھونڈے مذاق پر خود ہنسنے کا تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔

جون اس غزل کے اکثر اشعار میں اپنے سماج، اپنی ذات، اپنے لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے بھیانک مذاق پر ٹھہاکا لگاتے ہوئے ناچ رہا ہے اور سبحان اللہ اور واہ واہ چلّا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔
یہاں نہ صرف اس بھدّے مذاق پر ہنسا گیا ہے بلکہ اس سوچ پر بھی ضرب ہے کہ جو اپنے آس پاس ایسے حالات دیکھ کر بھی، بےخودی کی افیم چاٹ کر وجد میں رہتی ہے اور تننا ہو یا ہو کی ضرب لگا کر حالتِ عشق میں رقص کرتی ہے۔
پہلی ہی غزل ہے یہ اس کتاب (یعنی) کی۔ اہل نظر کے لئے یہی کافی ہے جون کا مقام سمجھنے کے لئے۔
"اجمل صدیقی")
 
Top