وہ چہرہ اب نگاہوں سے ہٹتا نہیں

اسے پہلی بار Domino English Language Centre ڈیفینس کیمپس, کراچی کے کمرہ نمبر 2 میں دیکھا جب ہم ایک نئی کلاس میں کچھ نئے اور کچھ پرانے کلاس فیلوز کے ساتھ سر کی راہ تک رہے تھے اور باقاعدہ سے کلاس کی آغاز کے منتظر تھے. اگر چہ میری عادت نہیں کہ کسی کو مسلسل دیکھوں لیکن نجانے کیوں اتنے سبھی چہروں میں ایک وہی چہرہ تھا جس پر ہر تھوڑی دیر بعد آنکھ جا لگتی. لیکن کبھی جی بھر کے دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی. بات کرنا چاہتے ہوئے بھی بات نہ کرسکا.
تعارفی سیکشن کے دوران اس نے اپنا تعارف کروایا اور اپنی مقررہ جگہ پر واپس براجمان ہوگئی. اسکی گہری جھیل سی آنکھیں, گورا رنگ, درمیانہ قد, دلکش مسکراہٹ, صاف اور خوبصورت آواز, شوخ اور چنچل ادا اپنے آپ میں بے نظیر تھی. ایک سوال کا صحیح جواب دینے کے بعد وہ میری جانب مڑی اور پوچھا, گنجے کو انگلش میں کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا بالڈ. اس نے شکریہ ادا کیا اور بورڈ کی جانب دیکھنے لگی.

مجھے آپکا نمبر چاہیے.
کبھی کچھ پوچھنا ہوا تو آپکو مسیج کردیا کرونگی. آپ تنگ تو نہیں ہونگے؟
آپ ایک پرچے پر اپنا نمبر عاصمہ (اسکی دو ست) جو میری ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا کرتی تھی اس کو لکھ کر دیدو میں اس سے لے لونگی.

ایک ہی سانس میں سوال بھی پوچھ لئے اور حکم بھی صادر کردیا.

میں نے اثبات میں سر تو ضرور ہلایا پر نمبر نہیں دیا اور اگلے ہی دن چھٹی کے بعد گیٹ کے عین باہر مجھے آواز دیکر روکا اور کہا. عجیب ہو بھئی مجھ سے لڑکے نمبر مانگتے ہیں میں لحاظ نہیں رکھتی سنا دیتی ہوں کھری کھری یہاں میں خود تم سے نمبر مانگے جا رہی ہوں اور تم لڑکیوں کی طرح شرمارہے ہو حد ہوگئی.

اس دن میں نے اسے اپنا نمبر دیا اور اسکے بعد بذریعہ مسیجز رابطہ رہا. لیکن اللہ کا شکر ہے کہ کبھی اسکے اعتماد یا بھروسے کو ٹھیس نہ پہنچائی. ہمیشہ تعلیمی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو رہی یہاں تک کہ اس نے ایم اے (تاریخ اسلام) کراچی یونیورسٹی سے امتیازی نمبروں سے پاس کرلیا اور آرمی پبلک اسکول میں بحیثیت استانی اسکا تقرر ہوا. اس کے بعد سے اس مہہ جبیں سے رابطہ نہ ہونے کے برابر یے.
کبھی کبھار یہ بھی زہن میں آتا ہے شاید اس نے مجھ سے رابطہ صرف اپنی ضرورت تک ہی رکھا ہوا ہے. جب کبھی کچھ پوچھنا ہو یا کوئی ضرورت ہو تو رابطہ کرلیتی ہے ورنہ شاید اسکو یاد بھی نہ ہو کہ اسکے Mobile Contact List میں کوئی وقار نامی شخص بھی ہے. لیکن میرا اطمینان صرف اس بات پر قائم ہے کہ کبھی کسی غرض, لالچ, حرص, ہوس کی بنیاد پر اس سے رابطہ نہیں کیا. باقی یہ تو دنیا کا نظام ہے کہ ہم کسی کیلئے خاص تب تک ہی رہتے ہیں جب تک انکی ضرورت بنے رہتے ہیں. مگر ایک بات جو سچ ہے وہ یہ کہ:

نظر بھر کے بھی جسے کبھی دیکھا نہ تھا
وہ چہرہ اب نگاہوں سے ہٹھتا نہیں
 

سیما علی

لائبریرین
کسی فراق کے پانی کا رِسم ایسا تھا کسی کا پائوں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ!!!!!!!!!!
تمام شہر تھا ساکت ، طلسم ایسا تھا رکا تھا وقت کا ناقوس بھی تحیر سے !!!!!!!!
وقار علی صاحب بہت عمدہ تحریر بڑے سچے جذبات کا بیان عام فہم لفظوں میں بلکل صحیح بات کچھ چہرے ایسے ہی ہوتے ہیں نظر نہی ہٹتی میں بھی بے حد حسن پرست ہوں ضروری نہی کہ صرف صنف نازک ہی کے لیے یہ جذبات ہوںُ اللہ کئ نعمتوں میں ایک بڑی نعمت ہے اور رب کے صنائ کی تعریف آپنے بڑے دل آویز پیرائے میں کی ہے
 
کسی فراق کے پانی کا رِسم ایسا تھا کسی کا پائوں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ!!!!!!!!!!
تمام شہر تھا ساکت ، طلسم ایسا تھا رکا تھا وقت کا ناقوس بھی تحیر سے !!!!!!!!
وقار علی صاحب بہت عمدہ تحریر بڑے سچے جذبات کا بیان عام فہم لفظوں میں بلکل صحیح بات کچھ چہرے ایسے ہی ہوتے ہیں نظر نہی ہٹتی میں بھی بے حد حسن پرست ہوں ضروری نہی کہ صرف صنف نازک ہی کے لیے یہ جذبات ہوںُ اللہ کئ نعمتوں میں ایک بڑی نعمت ہے اور رب کے صنائ کی تعریف آپنے بڑے دل آویز پیرائے میں کی ہے

جزاک اللہ
حوصلہ افزائی کیلئے شکریہ
 
Top