قمر جلالوی وہ مہتمم ہیں جہاں بھی گئے دیوانے

سیما علی

لائبریرین
وہ مہتمم ہیں جہاں بھی گئے دیوانے
صراحی جھک گئی اٹھے ادب سے پیمانے

جب آئے تھے مجھے وحشت میں لوگ سمجھانے
نہ جانے آپ کو کیا کیا کہا تھا دنیا نے

سنائے کوئی کہاں تک جنوں کے افسانے
نہ جانے ہو گئے آباد کتنے ویرانے

زمینِ عشق میں ہیں دفن وہ بھی دیوانے
نہ جن کے نام کی شہرت نہ جن کے افسانے

کمالِ حسن بناتا ہے عشق کو دشمن
فروغِ شمع سے جلنے لگے ہیں پروانے

نہ رکھ قفس میں مگر طعنۂ قفس تو نہ دے
کہ ہم بھی چھوڑ کر آئیں ہیں اپنے خس خانے

یہ عشق ہے جسے پرواہ حسن کی بھی نہیں
کہ شمع روتی ہے اور سو رہے ہیں پروانے

جہاں سے عشق نے رودادِ غم کو چھوڑ دیا
شروع میں نے وہاں سے کئے ہیں افسانے

وہ چار چاند فلک کو لگا چلا ہوں قمر
کہ میرے بعد ستارے کہیں گے افسانے
 
آخری تدوین:
Top