وہ موت اچھی کہ یہ والی

منصور مکرم

محفلین
وسعت اللہ خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

120819012159_baat_se_baat-304x171.jpg

مرگ آور گیس کو کچھ بھی نام دے دو۔ زائلی برومائیڈ، کلورین، فوسجن، مسٹرڈ، زائکلون بی، ایجنٹ اورنج، ڈائیوٹن کچھ بھی۔ جنگِ عظیم اول میں بلجیئم کی بیٹل آف یپغے سے سنہ دو ہزار تیرہ کی بیٹل آف دمشق تک کتنے لاکھ آدم وحوا گیس ہوگئے۔ کیا فائدہ یہ گننے کا کہ کونسی گیس کس نےکیوں، کب، کس کے خلاف اور کن حالات میں استعمال کی۔

جرمنوں نے برطانوی اور روسی فوجیوں کو مارنے کے لیے، برطانویوں نے عراقی کردوں کو لٹانے کے لیے، سرخ روسی بالشویکوں کو نیلا بنانے کے لیے یا لینن پرستوں نے بالشویک دشمنوں کو آسمانوں میں پارسل کرنے کے لیے۔
مراکش کے پہاڑوں میں ریف قبائلی بربر مچھروں پر ہسپانوی نوآبادیاتی فوجیوں کا شوقِ اسپرے ہو یا لیبیا کے پاگلوں اور حبشہ کے سرفروشوں پر مسولینی کے طیاروں کا جان لیوا چھڑکاؤ ، نازیوں کے گیسی غسل خانوں میں نسلِ یہود کو الف ننگ پاک و صاف کرکے موت کے دیوتا کے حضور بھیجنے کا باراتی عمل، ویتنام کی دھرتی کو ہریالی اور آدمیت سے دستکش کرنے کا گیسیلا امریکی جنون، شمالی یمن میں جمال ناصر کے مصری دستوں کا باغی کش سپرے، ایرانی جہادی کھٹملوں کی تعداد گھٹانے اور اپنے ہی کرد شہریوں کو فانی دنیا سے عالمِ دائم میں بھیجنے کی پر خلوص صدام حسینی گیسانہ کوشش یا بشار الاسد کی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو روز جینے اور مرنے کے عذاب سے نکالنے کی تازہ ترین گیسی نیکی۔

اچھی بات یہ ہے کہ جو بھی مرے وہ روزِ حشر اپنے پورے چہروں اور جسم کے ساتھ اٹھائے جائیں گے کیونکہ گیس زندگی بھلے بگاڑ دے چہرے نہیں بگاڑتی۔دوسری اچھی بات یہ ہے کہ گیس کے شکار یکدم مر جاتے ہیں۔یا سسک سسک کے بھی مریں تو عموماً زندوں کے ہاتھوں، زانوؤں اور گود میں دم توڑتے ہیں۔ان کی موت کی رسید درکار نہیں ہوتی۔ جو بھی ہے سامنے ہے اور کھرا ہے۔

فرض کرو یہ سب مرحومینِ گیس انگریز، بالشویکی، کرد، بربر، حبشی، لیبیائی، یہودی، یمنی، ویتنامی، ایرانی اور شامی یوں نہ مرتے بلکہ یوں ہوتا کہ زندہ مرغیوں کی طرح اٹھا لیے جاتے اور پھر کسی پگڈنڈی، کسی فٹ پاتھ پر اوندھے پڑے، کسی کچرہ دان سے ادھ جھانکی کھوپڑی کی صورت، کسی عبادت گاہ کے باہر سینے پر ہاتھوں کی صلیب بنائے، کسی خشک چشمے کی تہہ پر سالم ٹانگ پے کٹی ٹانگ رکھے، کسی رکے پانی میں پھولے ہوئے، کسی پہاڑی یا ٹیلے کے دامن میں مٹھیاں بند کیے، کسی کار کے ٹرنک میں صفر بنے بنے، کسی ویراں کھنڈر کی ٹوٹی سیڑھی پر حرف ایکس کی صورت، کسی جانور کے ادھ چھوڑے، ایک، ایک، ایک، ایک کر کے پانچ پانچ ، چھ چھ مہینوں اور سالوں بعد کند لوہے سے کچلے چہروں، خالی ڈھیلوں، نیم جلے سیاہ ہاتھوں اور منقش کاسنی ٹانگوں کے ساتھ یوں ملتے کہ پنجر پر اٹکی برسوں مہینوں پرانی متعفن جوؤں زدہ قمیض کی جیب سے جھانکتی پرچی پر ان کا نام معہ ولدیت ٹوٹے حرفوں سے جوڑا ہوا ہوتا۔ یا یہ بھی نہ ہوتا اور صرف بچی کچھی پسلیوں کی چھیچڑا کھال پر ہی نام کی عنابی پپڑی کھدی ہوتی تو کوئی کیا کرلیتا۔عدالت کی خجالت بھی۔

اب آپ خود ہی سوچئے کہ وہ والی موت اچھی کہ یہ والی۔

وہ عیسی نہیں تھے

مگر ان کو زندہ اٹھایا گیا

انہیں آسماں کے بجائے پہاڑوں میں رکھا گیا ہے

جہاں اک نہیں بلکہ دسیوں خدا ہیں

جب اک مارتا ہے تو دوجا خدا زندہ کرتا ہے

پھر سے انہیں مارنے کے لیے

وہ یقیناً ابھی زندہ ہیں

اور ان کو خداؤں کی جانب سے

رزقِ ازیت فراوانی سے مل رہا ہے

کتابوں میں لکھا ہے

عیسی کسی روز اچانک پلٹ آئیں گے

مگر وہ جنہیں میری بستی سے زندہ اٹھایا گیا ہے

ان کے بارے میں کوئی بشارت نہیں

( اختر سلیمی کی ایک نظم )
 
Top