وہ شریف تھا شرافت سے کھا کر چلا گیا پچاس روپے میں ضمانت کرا کر چلا گیا

جاسم محمد

محفلین
وہ شریف تھا شرافت سے کھا کر چلا گیا
پچاس روپے میں ضمانت کرا کر چلا گیا

ھم ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہ گیے
وہ پارسا سب کو چونا لگا کر چلا گیا

ھم ڈھونڈتے رھے الہ دین کا چراغ
وہ ھزاروں سے کھربوں بنا کر چلا گیا

نادیدہ قوتوں کا شاہد ھاتھ تھا اس میں
چپ کے سے بیماری کا بہانہ بنا کر چلا گیا

پاے نہاری کے تو ھوتے ھیں سب شوقین
پر وہ تو سارا ملک ھی کھا کر چلا گیا

نا شرم ھے اور نا ھی ھے غیرت پدری
غنڈوں میں رضیہ کو پھنسا کر چلا گیا

جس کو سمجھتے تھے سب شیر کی مانند
گیدڑ کی طرح وہ دم دبا کر چلا گیا

کہتا تھا جو نیلسن مینڈیلا بنوں گا میں
دو چار دن کی قید سے گھبرا کر چلا گیا

کرنے چلا تھا ووٹ کی عزت کو جو بحال
اپنے ووٹروں سے دامن چھڑا کر چلا گیا

اس ملک میں ہر شخص بکنے کو ھے تیار
کیا خوب یہ بات سمجھا کر چلا گیا

ملک کو عظیم بنانے کا دعویٰ تھا جس کا
لندن میں وہ شخص فلیٹ بنا کر چلا گیا

کیوں موندھ لیں تھیں آنکھیں ارباب اختیار نے
شاہد وہ سب کی قیمت چکا کر چلا گیا

نوٹ۔ اس غزل کے سارے کردار فرضی ھیں۔کسی مماثلت کی صورت میں شاعر زمہ دار نہیں ھو گا

(منقول)
 
Top