فرحان محمد خان
محفلین
وہ دیکھ لیں تو نظاروں میں آگ لگ جائے
خدا گواہ بہاروں میں آگ لگ جائے
جو لُطفِ شواشِ طوفاں تمہیں اٹھانا ہے
دعا کرو کہ کناروں میں آگ لگ جائے
نگاہِ لطف و کرم دل پہ اس طرح ڈالو
بُجھے بُجھے سے شراروں میں آگ لگ جائے
نظر اٹھا کے جُنوں دیکھ لے اگر اک بار
تجلیات کی دھاروں میں آگ لگ جائے
بہار ساز ہے میری نظر کی ہر جُنبش
مری بلا سے بہاروں میں آگ لگ جائے
کسی کے عزمِ مکمّل کی آبرو رہ جائے
اگر تمام سہاروں میں آگ لگ جائے
گُلوں کے رُح سے شرارے ٹپک رہے ہیں شکیب
عجب نہیں جو بہاروں میں آگ لگ جائے
خدا گواہ بہاروں میں آگ لگ جائے
جو لُطفِ شواشِ طوفاں تمہیں اٹھانا ہے
دعا کرو کہ کناروں میں آگ لگ جائے
نگاہِ لطف و کرم دل پہ اس طرح ڈالو
بُجھے بُجھے سے شراروں میں آگ لگ جائے
نظر اٹھا کے جُنوں دیکھ لے اگر اک بار
تجلیات کی دھاروں میں آگ لگ جائے
بہار ساز ہے میری نظر کی ہر جُنبش
مری بلا سے بہاروں میں آگ لگ جائے
کسی کے عزمِ مکمّل کی آبرو رہ جائے
اگر تمام سہاروں میں آگ لگ جائے
گُلوں کے رُح سے شرارے ٹپک رہے ہیں شکیب
عجب نہیں جو بہاروں میں آگ لگ جائے
شکیب جلالی
نومبر 1951ء