وہ دن حیات کے کیا یادگار گزرے ہیں

وہ دن حیات کے کیا یادگار گزرے ہیں
جو تیرے شہر میں اے شہرِ یار گزرے ہیں

بسی ہوئیں ہیں وہ راہیں ہنوز خوشبو میں
جہاں جہاں سے وہ جانِ بہار گزرے ہیں

منزلِ یار میں آساں ہوئی اُن کی تلاش
ذرہ ذرہ مجھے کہتا ہے کہ اِدھر سے گزرے ہیں


جو لوگ آپ کے نقشِ قدم پہ چلتے رہے
بہت عظیم بہت باوقار گزرے ہیں

تمہارا لطف ہے آقا فقیرِ حسنیؔ پر
تمہاری یاد میں لیل و نہار گزرے ہیں

وہ کوہِ طور ہو یا سر زمینِ دل بیدمؔ
نگاہِ یار سے خالی کوئی دیار نہیں!
 
Top